تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     27-08-2021

کابل میں طالبان: قیافے اور حقیقت

کابل پر افغان طالبان کے قابض ہو جانے کے بعد ان کے بارے کئی طرح کے قیافے لگائے جا رہے ہیں‘ اور اندازے قائم کئے جا رہے ہیں۔ ایک کہتا ہے کہ طالبان فلاں ملک کے تابع ہیں جبکہ دوسرا کہتا ہے کہ وہ فلاں کی کٹھ پتلی ہیں‘ لیکن ان کے بارے میں اندازے لگانے والے افغان پشتونوں کا اصل کردار نہیں سمجھتے۔ افغانوں سے بڑھ کر آزاد مزاج والے لوگ ساری دنیا میں نہیں ہیں۔انہوں نے 1842ء میں برطانوی فوج کے سولہ ہزار جوانوں میں سے پندرہ ہزار نو سو نناوے کو موت کے گھاٹ اتار دیاتھا۔دیگر دو حملوں میں بھی انہوں نے برطانیہ کو مات دی۔ اس کے بعد انہوں نے 30‘40 سال پہلے روس کے ہزاروں فوجیوں کو مارگرایا تھا اور اب 20سال میں امریکی فوج کو دھول چٹادی ہے۔ دنیا کی تین بڑی سلطنتوں کی ناک نیچی کرنے والے کسی کے سامنے اپنی ناک رگڑیں گے؟ ہرگز نہیں۔ پاکستانی دانشور بھی ان حقائق سے انجان نہیں ہیں۔ پھر ماضی کے تجربے اور بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں پاکستان بھی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ کابل میں ایک ملی جلی سرکار قائم ہو ۔ اسے معلوم ہے کہ اگر کابل میں کہرام مچ گیا تو تو لاکھوں افغان پناہ گزین ان کے یہاں گھس آئیںگے۔ اس طرح معیشت جو پہلے ہی ڈانواں ڈول ہے وہ بحران میں پھنس جائے گی۔ اگر کابل کی سرکار مستحکم اور مضبوط ہو تو افغانستان معدنیات کا خزانہ ہے۔ وہ جنوبی ایشیا کا سب سے مالدار ملک بن سکتا ہے۔ پچھلے 40سال میں پہلی بار کابل میں اب ایسی سرکار بن سکتی ہے جو حقیقی معنوں میں خودمختار اور مکمل طور پر دیسی ہو۔اگر کابل کا اقتدار ناتجربہ کار ‘کوتاہ بیں اور تنگ ذہنیت والے لوگوں کے ہاتھوں میں چلاگیاتوافغانستان عدم استحکام کی کیچڑ میں پھسل سکتا ہے۔
کابل میں بھارت کیا کرے؟
یہ تو اچھی بات ہے کہ بھارت سرکار کی طالبان سے دوری کے باوجود ان لوگوں نے بھارتی شہریوں کو کسی بھی طرح کانقصان نہیں پہنچایا۔بھارتی سفارت خانہ محفوظ ہے‘ جہاز محفوظ ہیں اور لوگوں کو بھارت لوٹنے دیاجارہا ہے۔بھارت سرکار اور وزارت برائے ہوا بازی بھی کافی سرگرم ہے۔یہ دھیان دینے لائق ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک کی طرح اپنے شہریوں کو کابل سے نکالنے کیلئے بھارت کو فوجیں نہیں بھیجنی پڑرہی ہیں۔ ان سب اقوام (یورپ، امریکہ)کے طالبان سے سیدھے اور خفیہ طریقے سے رابطے بنے ہوئے ہیں جن کا فائدہ ہمیں اپنے آپ مل رہا ہے۔بھارت سرکار ابھی تک کشمکش میں پڑی ہوئی ہے۔ وہ یہ طے ہی نہیں کرپارہی کہ کابل کے اس نئے منظر نامے سے کیسے نمٹے۔ اس کا کشمکش میں مبتلاہونا فطری ہے کیونکہ پچھلے دو سال سے امریکہ ‘ چین ‘ روس اورترکی جیسے ممالک ان سے سیدھی بات کر رہے تھے تو بھارت امریکہ کے بھروسے پر بیٹھا رہا۔ ابھی بھی بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نیویارک میں بیٹھ کر اقوام متحدہ میں اپنی 25سال پرانی بانسری بجا رہے ہیں۔ انہوں نے صحیح بات کہی ہے کہ اب کابل دوبارہ دہشت گردی کی پناہ گاہ نہیں بننا چاہئے لیکن یہ اصلی مدعا نہیں ہے۔ اصلی مدعا یہ ہے کہ کابل میں اس وقت ایسی سرکار کیسے بنے جو جامع ہو‘ جس میں سبھی 14‘15قبیلوں اور نسلی گروہوں کی نمائندگی ہو؟ سیاسی لحاظ سے اس میں ظاہر شاہی ‘ خلقی ‘ پرچمی ‘ شمالی اتحادی ‘ طالبان ‘ ہزارہ اور دیگر سبھی چھوٹے موٹے گروپوں کے لوگ شامل ہوجائیں۔اس طرح تقریباً 40سال بعد کابل میں ایسی سرکار بنے جیسے کبھی دوست محمد ‘ امیر عبدالرحمن ‘ امان اللہ ‘ ظاہر شاہ یا سردار داؤد کی رہی ہے ۔ افغانستان میں جب تک ایک آزاد اور غیر ملکی دباؤ سے آزاد سرکار نہیں بنے گی وہاں شانتی اور استحکام آہی نہیں سکتا۔ پچھلے 200 سال میں برطانیہ ‘ روس اور امریکہ کو افغان دھول چٹاچکے ہیں۔پاکستان کو افغان کردار کی خوب سمجھ ہے اسی لئے وہ کوشش کررہا ہے کہ کابل میں ایک جامع سرکار بن جائے لیکن یہ آسان نہیں ہے۔سچائی تو یہ ہے کہ طالبان بھی کوئی یک نسلی گروہ نہیں ہیں‘ ان میں غیر پٹھان علاقوں کے لوگ بھی موجود ہیں ۔ کابل اور دیگر ممالک میں بسے کچھ افغان نیتاؤں نے مجھے فون کرکے بتایا ہے کہ وہ یہ دیکھنے کے متمنی ہیں کہ طالبان جیسے اعلانات کررہے ہیں ان پر ویساعمل بھی ہوتا ہے یا نہیں۔اگر طالبان کا عمل 1996تا2001ء جیسا رہا تو اس بار ان کا چلنا مشکل ہوجائے گا۔
حکومت اور اپوزیشن ‘ ایک ہی سکے کے دو رخ
ادھر جو مستند سروے ہوئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت میں بھاری گراوٹ ہوئی ہے لیکن اپوزیشن کے سیاسی رہنماؤں کی مقبولیت تواس گراوٹ سے بھی زیادہ گری ہوئی ہے۔اس میں تو کسی طرح کا اٹھان دکھائی ہی نہیں دے رہی ۔ اس کے باوجود تقریباً سبھی اپوزیشن رہنما مودی کے خلاف متحد ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پچھلے کچھ ہفتوں میں ایسی کئی پہل ہوچکی ہیں لیکن اس بار سب سے اہم پہل کانگرس کی صدر سونیا گاندھی نے کی ہے۔ ان کی پہل میں کچھ ایسے گروہ بھی ایک ساتھ آئے ہیں جو صوبوں میں ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اس میٹنگ میں یہ بات بہت زور سے کہی گئی کہ اس اپوزیشن گٹھ بندھن کا لیڈر کون ہو ‘ یہ سوال اس وقت دھیان دینے لائق نہیں ہے۔ ابھی تو ایک ہی بات پر سب اپنا دھیان مرکوز کریں کہ سب مل کر ایک ہو جائیں ۔ یہ ایکتا کس لئے ہو یہ کوئی صاف صاف نہیں بتا رہا لیکن اسے سب صاف صاف سمجھ رہے ہیں۔ اس ایکتا کا ٹارگٹ صرف ایک ہے۔ وہ ہے اقتدار ہتھیانا۔بھارت کی ساری اپوزیشن جماعتیں اسی سوچ میں کھو ئی ہوئی ہیں کہ بھاجپا گٹھ بندھن نے مشکل سے 35‘40فیصد ووٹ لئے ہیں اور وہ سرکار بنا کر گلچھرے اڑا رہی ہے اور ہم اپوزیشن میں بیٹھے کھٹی چھاچھ بلو رہے ہیں۔ہماری اپوزیشن جماعتوں کے دو مسائل سب سے بڑے ہیں۔ ایک تو ان کے پاس ایک بھی لیڈر ایسانہیں جو مودی کی ٹکر میں کھڑا ہوسکے اور دوسری بات یہ کہ اپوزیشن کے ہاتھ ابھی تک کوئی ایسا مدعا نہیں لگا ہے جس کے دم پر وہ مودی سرکار کو معزول کر سکے۔ اس میں شک نہیں کہ کسی بھی تندرست جمہوریت کیلئے مضبوط اپوزیشن کا ہونا بہت ضروری ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ اس وقت ملک کے مسائل کے خوفناک شکل کو دیکھتے ہوئے لگ رہاہے کہ ملک کو قابل قیادت کی ضرورت ہے لیکن ہماری اپوزیشن کے پاس خالی جھنجھنے کے علاوہ کیا ہے؟ وہ اسی طرح ''دور اندیش‘‘ ہے جیسے موجودہ سرکار۔اس کے پاس کون سا ایسا متبادل نظریہ ہے جو عوام کا فائدہ کرسکتا ہے یا اسے فوراً مائل کرسکتا ہے ؟ اس کے پاس حکمران جماعت کی طرح ہی وژن کی کمی ہے۔ کورونا وبا کے بحران میں بھاجپا سرکار کو قصوروار ٹھہرانے والی جماعتوں کی صوبائی سرکاروں نے کون سی قابل تقلید مثال پیش کی؟ بے روزگار لوگوں کیلئے انہوںنے کون سے راحت پہنچائی؟ پچھلے دو سالوں میں آئے چیلنجز کے سامنے اگر اپوزیشن کی صوبائی سرکاریں کوئی چمتکاری کام کرکے دکھادیتیں تو ان کا سکہ اپنے آپ چلنے لگتا۔ ہماری اپوزیشن جماعتوں کے پاس کل ملا کر کروڑوں ممبران ہیں لیکن وہ احتجاجوں ‘ دھرنوں اور توڑ پھوڑ کے علاوہ کیا کرتے ہیں ؟ کیا انہوں نے کبھی سماجی برائیوں کے خلاف جدوجہد کی؟ کیا وہ کبھی تعلیم کے پرچار اور عوامی سہولیات کے مقصد میں کوئی سرگرمی دکھاتے ہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ سماج سیوا اور سماج سدھار سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ان کا ٹارگٹ بس ایک ہی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اقتدار کیسے ہتھیانا ہے ؟ اس نظریے سے جیسی حکومت ہے ویسی ہی اپوزیشن ہے اور جیسی اپوزیشن ہے ویسی ہی حکومت ہے۔ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved