عمران خان کو اپنا کوئی وعدہ یاد نہیں: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''عمران خان کو اپنا کوئی وعدہ یاد نہیں‘‘ اگرچہ ہمارا کوئی وعدہ بھی ایفا نہیں ہوا تھا لیکن ہم انہیں یاد ضروررکھتے تھے بلکہ وقتاً فوقتاً انہیں اپنی ترجیحات میں بھی شامل کیا کرتے تھے اور میں چیلنج بھی کیا کرتا تھا کہ اگر فلاں وعدہ فلاں تاریخ تک ایفا نہ ہو تو میرا نام بدل دیں؛ چنانچہ میرے کوئی ڈیڑھ سو نام ہو گئے تھے اور میں بہت نامور ہو گیا جبکہ میں نے اپنے یہ سارے نام یاد بھی کر لیے تھے تا کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی مجھے نئے نام سے پکارے اور میں اُدھر متوجہ ہی نہ ہو پائوں۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
نیب کا ڈر وزارتِ خزانہ سمیت
ساری وزارتوں کو ہے: شوکت ترین
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ ''نیب کا ڈر وزارتِ خزانہ سمیت ساری وزارتوں کو ہے‘‘ کیونکہ فرداً فرداً سب کے کارہائے نمایاں و خفیہ نیب کے ریڈار پر رہتے ہیں؛ تاہم وہ ڈرتے بھی رہتے ہیں اور اپنے ایسے کام بھی جاری رکھتے ہیں کیونکہ احتساب بھی برحق ہے لیکن اگر آدمی اس کے خوف سے سارے کام چھوڑ دے تو ایسا نہیں ہو سکتا بلکہ اس میں تو گلو خلاصی کے امکانات بھی ہیں اس لیے اس سے ڈرنے ہی کو کافی سمجھا جاتا ہے اور یہی عقلمندی بھی ہے۔ آپ اگلے روز نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اظہارِ خیال کررہے تھے۔
کراچی کو لاہور کی طرح خوشحال شہر
بنانا چاہتے ہیں: طلال چودھری
نواز لیگ کے رہنما طلال چودھری نے کہا ہے کہ ''کراچی کو لاہور کی طرح خوشحال شہر بنانا چاہتے ہیں‘‘ کیونکہ ہم خود تو کافی خوشحال ہو چکے ہیں اور اگر ہم میں سے کوئی خوشحال ہونے سے رہ گیا ہو تو اب پہلا حق اسی کا ہے جس کے بعد دیگر شہریوں کی باری بھی آئے گی، اگرچہ کراچی کے کرتا دھرتا بھی کافی خوشحال ہو چکے ہیں لیکن ہماری خوشحالی ان سے کئی درجے اوپر ہے اور انہیں ابھی ہمارے درجے پر پہنچنے میں کافی وقت لگے گا ہم چونکہ اس لحاظ سے اب فارغ بلکہ فارغ الحال ہو چکے ہیں اس لیے کراچی کو خوشحال ثابت کے لیے کافی وقت نکال سکتے ہیں چاہے یہ خوشحالی بھی ان کے باقی ماندہ کرتا دھرتائوں ہی کے حصے میں آئے۔ آپ اگلے روز نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شریک گفتگو تھے۔
وزیراعظم نے ڈانٹ ڈپٹ
کی، پھر معاف کر دیا: نذیر چوہان
تحریک انصاف کے تائب رہنما نذیر چوہان نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم نے ڈانٹ ڈپٹ کی، پھر معاف کر دیا‘‘ اس لیے باقی ساتھیوں کو خوشخبری ہو کہ محض ڈانٹ ڈپٹ پر ان کی بھی گلو خلاصی ہو سکتی ہے اس لیے وہ بھی ڈانٹ ڈپٹ کے لیے تیار ہو جائیں اور اپنا علیحدہ راگ بند کر دیں اور اگر اس پر ہی ان کی بچت ہو جاتی ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہ ہو گا کیونکہ مفت کے مسئلے اچھالنے کی کچھ تو سزا ہونی ہی چاہیے، اور امید ہے کہ اس سارے معاملے کے پیچھے جو تھا‘ اب تک انہیں بھی احساس ہو چکا ہو گا کہ انہوں نے کتنی بڑی غلطی کی تھی۔ آپ اگلے روز گورنر ہائوس میں وزیراعظم سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
30 ہزار ٹیچر بھرتی، تبادلے کے لیے
اب کسی سفارش کی ضرورت نہیں: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان نے کہا ہے کہ ''30 ہزار ٹیچر بھرتی، تبادلے کے لیے اب کسی سفارش کی ضرورت نہیں‘‘ کیونکہ یہ سارا کام بھرتی کے وقت ہی ہو گیا تھا اور انہیں اپنے اپنے من پسند علاقے میں تعینات کر دیا گیا ،اس لیے اب انہیں کہیں اور تبادلے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی، لہٰذا سفارش کی بھی کوئی نوبت نہیں آئے گی جبکہ سفارش کنندگان سے اس بات کی گارنٹی لے لی گئی ہے کہ سفارش کے لیے زور نہیں دیا جائے گا؛ اگرچہ سفارش کے لیے بھی کسی زور کی ضرورت نہیں ہوتی اور محض ایک اشارہ ہی کافی ہوتا ہے کیونکہ ہم اشاروں کی زبان بھی بخوبی سمجھتے ہیں۔ آپ اگلے روز پنجاب ایجوکیشن کنونشن سے خطاب کے بعد ارکان اسمبلی سے ملاقات کر رہے تھے۔
سب رنگ کہانیاں
یہ ہمارے دوست شکیل عادل زادہ کی ادارت میں شائع ہونے والے مشہور زمانہ جریدے سب رنگ ڈائجسٹ میں چھپنے والے سمندر پار سے شاہکار افسانوں کے تراجم کا انتخاب ہے جسے حسن رضا گوندل نے مرتب کیا ہے۔ انتساب آشفگانِ سب رنگ کے نام ہے۔ پسِ سرورق تحسینی رائے دینے والوں میں مجیب الرحمن شامی، خالد مسعود خان جبکہ اندرونِ سرورق اخلاق احمد اور فیاض الرحمن قادری کی آرا سے مزین ہے۔ افسانوں کی تعداد 30 ہے۔ یہ اس سلسلے کی تیسری کتاب ہے، ابتدا میں مرتب کی تصویر اور مختصر تعارف درج ہے جبکہ سب رنگ تماشا کے عنوان سے شکیل عادل زادہ کی مبسوط تحریر ابتدا میں درج ہے۔ ٹائٹل خوشنما اور گیٹ اَپ شاندار ہے۔ فکشن میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک تحفے سے کم نہیں ہے اور امید ہے اس کا کھلے بازوئوں سے استقبال کیا جائے گا۔
اور‘ اب آخر میں راجوری (مقبوضہ جموں و کشمیر) سے عمرفرحت کی غزل:
اس دنیا میں تنہا ہوں
میں بے نام سا چہرہ ہوں
کیسی باتیں کرتے ہو
میں بھی تمہارا حصہ ہوں
اس کی گلی تک جو جائے
میں اک ایسا رستا ہوں
آنسو کی اک بوند ہوں میں
اور آنکھوں میں رہتا ہوں
در خود ہی کھل جاتا ہے
میں کب دستک دیتا ہوں
تجھ کو بھی کچھ جلدی ہے
میں بھی جانے والا ہوں
آنے والے وقتوں کا
میں اک گزرا لمحہ ہوں
مجھ پر جھوٹ کی تہمت ہے
یعنی میں بھی سچا ہوں
پھر سے میرا ہاتھ پکڑ
میں تو دیکھا بھالا ہوں
آنکھیں سرخ تو ہوں گی نا
خوابوں کا رکھوالا ہوں
آج کا مطلع
محبت کر ہی بیٹھے ہیں تو پھر اظہار کیا کرتے
اُسے بھی اس پریشانی سے اب دوچار کیا کرتے