تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     27-08-2021

تین امن پسند شخصیات اور افغانستان

اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآنِ مجید میں ایک بین الاقوامی اصول بیان فرمایا گیا ہے ''یہ آتے جاتے دن ہیں جنہیں باری باری ہم انسانوں کے درمیان ادل بدل کرتے رہتے ہیں‘‘ (آل عمران:140)۔ قارئین کرام! میں سوچتا جا رہا تھا کہ میرے وطنِ عزیز پاکستان کو بنے ہوئے 74 سال بیت گئے۔ ہمارا یومِ آزادی 14 اگست ہے۔ انڈیا کا یومِ آزادی 15 اگست ہے۔ ہم سے ہمارا کشمیر چھین لیا گیا اور بھی بہت کچھ ہتھیا لیا گیا مگر ہم نے نہ کبھی سرکاری سطح پر اور نہ عوامی سطح پر ایسا کیا کہ احتجاجاً15 اگست کو یومِ سیاہ کے طور پر منایا ہو۔ دوسری جانب انڈیا کے حکمرانوں کے تعصب کا حال یہ ہے کہ وہ 14 اگست کو یومِ سیاہ منانے کا اعلان کر رہے ہیں کہ پاکستان معرضِ وجود میں کیوں آیا ہے، جبکہ 15 اگست کو وہ یوم آزادی مناتے ہیں۔ ہمارے وحدہٗ لاشریک رب کی شان ملاحظہ ہو کہ افغان طالبان فاتح بن کر کابل میں داخل ہوئے تو وہ 15 اگست کا دن تھا۔ انڈیا اپنی شکست کا داغ ماتھے پرسجائے یہاں سے فرار ہوا۔ دیگر فراریوں کی طرح وہ بھی ایک مفرور ہے۔ اب 2022ء میں جب 15 اگست آئے گا تو افغانستان میں جوفتح کا دن منایا جائے گا‘ وہ پندرہ اگست کو منایا جائے گا۔ اس دن امریکا اور اس کے حواریوں کی شکست کو یاد رکھا جائے گا۔ انڈیا جیسے حواری کا خصوصی تذکرہ ہو گا کہ جس کی کمین گاہوں سے دہشت گرد نکلے اور پاکستان کے 80 ہزار لوگوں کو خاک و خون میں تڑپا گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو شہادت کا رتبہ عطا فرمائے۔ اس دن افغانستان کا نیا پرچم بھی لہرائے گا جو کلمہ طیبہ سے مزین ہے۔ یہ ہوائوں اور فضائوں میں لہرائے گا۔ ساتھ افغانستان کا ترانہ گایا جائے گا۔ اس کی دُھن پاکستان کے ترانے کی دھن پر بنائی گئی ہے۔ یوں دو دھنیں ''یک دھنیں‘‘ اس طرح بن جائیں گی کہ دو ملکوں کا نظریہ ''یک نظریہ‘‘ ہو جائے گا۔ ''پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ‘‘، یہی کلمہ افغانستان کے پرچم پر کندہ ہے۔ جی ہاں! قرآنِ مجید فرماتا ہے کہ ''یہ تو زمانے کے شب و روز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان باری باری تبدیل کرتے رہتے ہیں‘‘ (آلِ عمران)۔
انڈیا کے حکمرانوں کے لیے مشورہ ہے کہ وہ 14 اگست کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کے بجائے پندرہ اگست پر توجہ مرکوز رکھیں۔ دل کھلا اور کشادہ کریں۔ اگلے سال پندرہ اگست کی مٹھائی خود بھی کھائیں اور ایک ٹوکرا کابل میں بھی بھیجیں۔ زمینی حقیقت بہر حال یہی ہے‘ باقی ہر ایک کی اپنی مرضی ہے۔ خواہ وہ اپنی تصوراتی خواہش کا قیدی بنے یا زمینی حقیقت کو تسلیم کرے اور حقیقت پسند بن کر اپنے وقار کو زخمی ہونے سے بچائے۔
حضرت مریم علیہ السلام کے والد گرامی کا نام ''عمران‘‘ تھا۔ قرآنِ مجید کی ایک ابتدائی سورت کا نام ''آلِ عمران‘‘ ہے۔ اس میں حضرت عمرانؓ اور ان کی اہلیہ محترمہ بھی شامل ہیں۔ حضرت مریم علیہ السلام اور ان کے عظیم فرزند حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی شامل ہیں۔ حضور ختم المرسلینﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ''یہ دونوں سورتیں (البقرہ اور آلِ عمران) بھاگتی ہوئی قیامت کے دن اس انداز سے آئیں گی کہ گویا دو بادل ہیں یا (زیادہ سبز ہونے کی وجہ سے) سیاہ رنگ کے دو سائبان ہیں جن کے درمیان میں نورانی انوار ہیں یا یوں سمجھیں کہ وہ قطار در قطار پرندوں کے دو جھرمٹ ہیں۔ یہ آتے ہی اپنے پڑھنے والے حق میں جھگڑا کرنے لگ جائیں گی (اوراسے جنت میں لے جائیں گی)‘‘ (صحیح مسلم: 804، 805) اللہ اللہ! ہمارے حضور کریمﷺ پر نازل ہونے والی سورت آل عمران کی فضیلت ہمارے حضور کریمﷺ نے بیان فرما دی۔ اس سورت نے دنیا کو ایک سبق دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے حبیب سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں! (پیارے حبیبؐ! دنیا کو) ''آگاہ کر دو۔ شہنشا ہوں کے شاہ، میرے اللہ! آپ جس کو چاہتے ہو اقتدار عطا کرتے ہو اور جس سے چاہتے ہو چھین لیتے ہو۔ جسے چاہتے ہو عزت دیتے ہو اور جسے چاہتے ہو ذلت دیتے ہو۔ تمام تر خیر (کامرانی)آپ کے ہی ہاتھ میں ہے۔ بے شک آپ ہی ہر چیز پر قادر ہیں‘‘(آل عمران: 26)۔
صدر جوبائیڈن، نیٹو ممالک اور زیرِ لب انڈیا وغیرہ نے بھی اپنی شکست کو تسلیم کر لیا ہے۔ یہ اچھی بات ہے مگر اس کا عملی مظاہرہ بھی ہونا چاہیے۔ افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم کریں۔ ان کا اربوں ڈالر کا سرمایہ بھی ان کے حوالے کریں، طالبان حکومت نے جو عام معافی کا اعلان کیا ہے‘ اس پر عمل بھی کر کے دکھایا ہے۔ اس کی تحسین کریں تا کہ 40 سالوں سے مصیبتوں کے شکار افغان عوام کو امن اور خوشحالی ملے۔
عالمی تاریخ کے اس اہم ترین موڑ پر تین شخصیات ناقابلِ فراموش ہیں۔ پاکستان، افغانستان، امریکا، نیٹو ممالک اور ا نڈیا کے لیے بھی ناقابلِ فراموش ہیں۔ یہ شخصیات سب کی محسن ہیں۔ 20 سال قبل جب امریکا کی قیادت میں عالمی قوتوں نے افغانستان پر دھاوا بولا تو ان شخصیات نے ساری طاقتوں کو سمجھایا کہ ایسا نہ کریں، یہاں سے کچھ نہ ملے گا، محض افغانستان اور پورے خطے کو بد امنی ملے گی، پاکستان بہت زیادہ متاثر ہوگا، دھاوا بولنے والی طاقتوں کو شکست کا بوجھ اٹھا کر آخر کار واپس جانا ہوگا۔ یہ تاریخی اور حقیقت پسندانہ اعلانات کرنے والی جو تین شخصیات تھیں، وہ حضرت مولانا سمیع الحق، جنرل(ر) حمید گل اور پروفیسر حافظ محمد سعید۔ مندرجہ بالا حقائق سے آگاہ کرنے کے لیے تینوں شخصیات نے ایک فورم بنایا۔ اس کا نام ''دفاعِ افغانستان کونسل‘‘ رکھا۔ بہت ساری جماعتوں کو ساتھ ملایا۔ پورے پاکستان میں جلسے اور لانگ مارچ کیے۔ پریس کانفرنسز اور انٹرویوز کے ذریعے دنیا بھر کی طاقتوں کو حملہ آور ہونے کے بجائے امن کا پیغام دیا۔ مظلوموں کی فریادوں کو دنیا کے سامنے رکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس وقت ان لوگوں کی محبت آمیز آواز پر کان دھرے جاتے تو یہ نقصانات نہ ہوتے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ امریکا کے صدر جوبائیڈن پر جب تنقید ہوئی کہ وہ افغانستان سے کیونکر نکلے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: دس سال کے بعد بھی نکلنا ہی تھا تو اب کیوں نہیں؟ یہی جواب یوں بھی ہو سکتا ہے کہ جب پاکستان میں ڈرون حملے شروع ہوئے یعنی افغانستان سے آگے بڑھ کر پاکستان کا استحکام بھی دائو پر لگ گیا تو تب مندرجہ بالا تینوں شخصیات نے ''دفاعِ پاکستان کونسل‘‘ بنا کر کردار ادا کرنا شروع کر دیا یعنی دہشت گردی اور بدامنی اس قدر پھیل گئی کہ دہشت گردوں نے پاکستان کو نشانے پر رکھ لیا۔ اس وقت امریکی انتظامیہ ان حضرات کی بات مان لیتی تو بہت ساری جانوں کا تحفظ بھی ہو جاتا اور کئی ہزار ارب ڈالر بھی بچ جاتے۔ یہ رقم افغانستان کی سسکتی انسانیت پر لگ جاتی۔ پاکستان کا نقصان پورا کر دیا جاتا تو بارود کی جگہ پر پھول کھل جاتے، یعنی دوسرے لفظوں میں سمیع الحق کی حق بات کو سن لیا جاتا کہ جو اس کونسل کے چیئرمین تھے تو امن کی نعمت ملتی۔ حمید گل کی دانش کو دل میں جگہ دے دیتے تو یہ علاقہ گل و گلستان بن جاتا۔ حافظ صاحب کی دانائیوں بھری باتوں پر توجہ مرکوز کر لیتے تو سعادتوں سے مالا مال ہو جاتے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ وہ وقت بیت گیا۔ حضرت مولانا سمیع الحق بھی اس دنیا سے چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مظلومانہ موت کو شہادت کی خلعت عطا فرمائے۔ ان کا اس دنیا سے جانا تھا کہ ان کے پیچھے جنرل (ر) حمید گل بھی اپنے اللہ سے جا ملے۔ اب صرف ایک شخصیت ہمارے پاس موجود ہے۔ وہ پاکستان کے ہم عمر ہیں۔ یعنی ان کا خاندان ہجرت کا سفر طے کر کے پاکستان آیا تو 1947ء میں وہ پیدا ہوئے۔ دہشت گردی کا برا ہو کہ 74 سال کی عمر میں بھی ان کی جان لینے کی کوشش کی گئی۔ وہ جیل میں ہیں مگر ان کے گھر کو بھی معاف نہ کیا گیا۔ وہ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں محفوظ رکھا۔ دشمنی میں بھی اس قدر کمینہ پن سمجھ سے باہر ہے۔
مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے مولانا حامد الحق حقانی لاہور تشریف لائے تو ان کے ہمراہ مولانا یوسف شاہ بھی تھے۔ یہاں وہ اپنے والد کے پُر امن مشن پر ہی پریس کانفرنس کرنے آئے تھے۔ بعد میں ظہرانے پر ان سے ملاقات ہوئی۔ قاری محمد یعقوب شیخ اور دیگر احباب بھی موجود تھے۔ سب کی خواہش، دعا اور کوشش یہی تھی کہ دنیا بھر میں امن ہو۔ افغانستان میں امن ہو گا تو پاکستان میں بھی سکون ہوگا۔ دنیا اپنا دل کھلا کرے، سی پیک کو برداشت کرے بلکہ اس کا حصہ بنے۔ ساری دنیا کی خوشحالی ملے گی۔ ساری دنیا کے معاشرے اخلاقی بے راہروی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہمیں امن کی نعمت کے سائے تلے اپنے معاشروں کو ٹھیک کرنا ہے۔
قارئین کرام! مجھے تینوں شخصیات کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اپنے ساتھ انہیں بے حد شفیق پایا۔ میں ان کے اندر اللہ کے رسول رحمت دو عالمﷺ کے اس فرمان کی جھلک اور دمک دیکھتا تھا کہ ''اللہ تعالیٰ رحیم آدمی ہی پر رحم کرتے ہیں اور رحیم وہ ہے جو صرف اپنوں پر ہی نہیں بلکہ سب پر مہربانی کرے‘‘ (سلسلہ احادیث صحیحہ:167) یعنی یہ ایسے لوگ تھے۔ ایسی نامور شخصیات کہ جو پاکستان اور افغانستان کے لوگوں کا ہی بھلا نہیں چاہتی تھیں بلکہ ساری انسانیت کا بھلا چاہتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان اور افغانستان‘ دونوں کو امن اور خوشحالی کے علمبردار اور بھائی بنائے۔ پورے خطے کو امن کی نعمت میسر آئے مگر ان نعمتوں کے ساتھ ہمیں مذکورہ محترم شخصیات کی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہو گااور ان کی قدر بھی کرنا ہو گی۔ حضورﷺ کا ارشاد گرامی ہے ''جس نے لوگوں (کے قومی احسانات) کی قدر نہ کی اس نے اللہ تعالیٰ (کی نعمتوں) کی بھی قدر دانی نہیں کی‘‘۔ (جامع ترمذی: 1955)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved