تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     27-08-2021

اب کیا سوچنا ہے؟

اس دنیا میں بہت کچھ ہے جو کسی بھی حال میں مستقل نہیں۔ وقت بدلنے کے ساتھ دوست اور پارٹنرز بھی بدلتے رہتے ہیں اور بدلتے ہی رہنے چاہئیں۔ انسان رشتہ داروں کو نہیں بدل سکتا مگر دوستوں اور پارٹنرز کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ اس معاملے میں قدرت نے ہمیں انتخاب کا اختیار دیا ہے۔ ہم دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لیے ایسا حلقۂ احباب تشکیل دے سکتے ہیں جو ہم سے مزاج اور مقاصد میں مطابقت اور ہم آہنگی رکھتا ہو۔ آج کل ہمیں اپنے خطے میں جو صورتِ حال دکھائی دے رہی ہے وہ بھی اس امر کی متقاضی ہے کہ ہم دوست اور پارٹنرز بدلیں۔ بین الریاستی سطح پر کسی بھی تعلق کو راتوں رات اور مکمل طور پر تو ختم نہیں کیا جاسکتا مگر ہاں! معاملات درست کرنے اور اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے اور کیا جانا چاہیے۔ دنیا بدل رہی ہے تو ہم کیوں نہ بدلیں؟ اور اگر ہم چاہیں بھی تو معاملات کو تبدیل ہونے سے روک نہیں سکتے۔ چار پانچ عشروں کی غیر معمولی محنت کے نتیجے میں اپنے لیے اچھی خاصی گنجائش پیدا کرکے اب چین تیار بیٹھا ہے۔ وہ عالمی سیاست و معیشت میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی تیاریاں کم و بیش مکمل کرچکا ہے۔ اُس کی خواہش ہے کہ طاقت کامرکز اب ایشیا کی طرف منتقل ہو۔ روس بھی کچھ ایسا ہی چاہتا ہے۔ روس بیک وقت ایشیا کا بھی حصہ ہے اور یورپ کا بھی۔ یورپ کا حصہ ہونے پر زور دینے اور یورپی قوتوں کی طرف جھکنے کے نتیجے میں اُسے کچھ خاص ملا نہیں اس لیے اب وہ بھی چاہتا ہے کہ ایشیا کی طرف جھکاؤ رکھے اور جہاں تک ممکن ہو، تزویراتی مقاصد حاصل کیے جائیں۔
ہم اب تک تذبذب کے عالم میں ہیں۔ ایک طرف چین ایک زمانے سے ہمارے مکمل خلوص کا منتظر ہے اور دوسری طرف ہم ہیں کہ امریکا اور یورپ کی دائرۂ اثر سے باہر آنے کے لیے تیار نہیں۔ ہمارے بارے میں علاقائی اور عالمی‘ دونوں سطحوں پر یہ تاثر عام ہے کہ یہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے ہیں یعنی کسی بھی قضیے میں تمام فریقوں کی طرف ہمارا جھکائو رہتا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے پاکستان پر سب سے بڑا الزام یہی عائد کیا جاتا رہا ہے کہ امریکا سے بھی ایڈ لی اور طالبان سے بھی روابط بہتر رکھے گئے۔ ہم ایک مدت سے یہی غلطی کر رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ بھارت اس کی ایک بڑی مثال تھا۔ ایک طرف وہ سوویت بلاک میں فعال تھا اور دوسری طرف امریکا اور یورپ کا حاشیہ بردار تھا۔ بھارت کے لیے سب سے بڑا ایڈوانٹج اِس بات کا تھا کہ وہ عالمی برادری کو ہنر مند اور فرماں بردار نوعیت کی افرادی قوت بڑے پیمانے پر فراہم کرتا تھا۔ اُس نے ہر دور میں افرادی قوت کے سپلائر کی حیثیت سے حالات کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ بیشتر معاملات میں اُس کا حال یہ تھا کہ ؎
شب کو مے خوب سی پی، صبح کو توبہ کر لی
رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی
غیر جانب دار تحریک بھارت کے سابق وزیر اعظم آنجہانی پنڈت جواہر لعل نہرو کی ایما اور تحریک ہی پر شروع ہوئی تھی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ غیر جانبدار ہونے کا دعویدار بھارت ایک طرف سوویت یونین سے اور دوسری طرف مغربی دنیا سے فوائد بٹورتا رہا۔ سرد جنگ کا پورا دور بھارت نے اِسی دوغلے پن کے ساتھ گزارا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ روس نے تنگ آکر بھارت کو ایک طرف ہٹایا اور پاکستان سمیت کئی ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی ٹھانی۔ دو کشتیوں کے سفر کے معاملے میں پاکستان کبھی بھارت جیسی سطح پر نہیں اترا۔ درحقیقت ہماری قیادت بیشتر معاملات میں ذہن واضح کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں رہی۔ یہ ایک بنیادی خامی ہے جس کے باعث ہمیں ناکردہ گناہوں کی سزا بھی بھگتنا پڑی ہے۔ بعض معاملات میں پاکستان زیادہ قصور وار نہیں تھا مگر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ ہم سوالوں میں گِھر گئے اور پھر کوئی معقول جواب نہ سوجھنے پر دنیا ہمیں قصور وار گردانتے ہوئے سزا دینے پر تلی رہی۔
ہم منتظر ہی رہے کہ افغانستان کی بدلی ہوئی صورتِ حال کے تناظر میں امریکی صدر جو بائیڈن فون کریں اور وزیر اعظم عمران خان کو خطے کے معاملات پُرامن طریقے سے درست کرنے کی تحریک دیں مگر ہوا اس کے برعکس۔ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے وزیر اعظم عمران خان کو فون کرکے افغانستان کی صورتِ حال پر بات کی اور وہاں حکومت سازی کے حوالے سے مل کر کام کرنے کی دعوت بھی دی۔ یہ پورے خطے کے لیے ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔ پاکستان کے لیے روس اور وسطی ایشیا کی ریاستوں سے تعلقات بہتر بنانے اور اپنے لیے غیر معمولی معاشی اور سٹریٹیجک امکانات کی راہ ہموار کرنے کا اِس سے اچھا موقع کوئی اور ہو نہیں سکتا۔
افغانستان کی صورتِ حال کے تناظر میں جو بائیڈن انتظامیہ اب تک تذبذب کا شکار ہے۔ صدر بائیڈن کو افغانستان سے بے ہنگم انخلا پر غیر معمولی تنقید کا سامنا ہے۔ کانگریس اور ایوانِ نمائندگان میں صدر بائیڈن کی ناقص پالیسیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ امریکا دعوے کر رہا تھا کہ افغانستان سے انخلا احسن طریقے سے ہوگا مگر ایسا ہوا نہیں۔ تھوڑی بہت ہڑبونگ تو مچی۔ طالبان جس انداز سے آئے ہیں اُس کے بارے میں بھی مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ اس وقت زمینی حقیقت یہ ہے کہ طالبان آئے ہیں اور امریکا بظاہر اپنی مرضی کا کھیل کھیلنے میں ناکامی تسلیم کرتے ہوئے چپ چاپ کھسک لیا ہے۔ خطے کی صورتِ حال پر تجزیہ کاری کا بازار گرم ہو تو بات گھوم پھر کر پاکستان تک آ جاتی ہے۔ بھارت کے تجزیہ کار تو اس معاملے میں بہت دور کی کوڑیاں لانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ بیشتر بھارتی تجزیہ کاروں کا واویلا ہے کہ پوری دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ پاکستان کروا رہا ہے۔ روس بھی انہوں نے توڑا اور اب امریکا کے ٹکڑے بھی وہی کریں گے۔اگر ہم نے کسی بڑی انٹر نیشنل لابنگ فرم کی خدمات حاصل کی ہوتیں تب بھی اِتنا نام نہ کمایا ہوتا جتنا بھارتی میڈیا کے ''بھڑبھڑیوں‘‘ نے ہمیں اونچا چڑھا دیا ہے۔ یہ سب دل کی بھڑاس ہے۔ افغانستان کی بدلی ہوئی صورتِ حال نے بھارتی تجزیہ کاروں اور دانشوروں کو حواس باختہ کردیا ہے۔ اس موقع پر یہ کہاوت یاد آتی ہے کہ کتے بھونکتے رہ جاتے ہیں اور ہاتھی کی سواری گزر جاتی ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے وزیراعظم عمران خان سے فون پر جو گفتگو کی ہے اُس پر بھی بھارت میں صفِ ماتم کا بچھنا کسی درجے میں حیرت انگیز نہ ہوگا۔ بھارت کو تو اس بات کا بھی غم ستانے لگا ہے کہ روس نہ صرف یہ کہ اُس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے بلکہ پاکستان کی طرف چل دیا ہے۔ خطے کے بدلتے ہوئے حالت کے تناظر میں روسی قیادت نے پاکستان سے رابط بڑھانے اور مختلف امور میں اشتراکِ عمل بڑھانے پر خاص توجہ دی ہے۔ روس دانش مندی کا مظاہرہ کرچکا ہے۔ اب ہمیں ثابت کرنا ہے کہ ہم بھی معاملہ فہم ہیں اور خطے کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کے تناظر میں اپنے مفادات کا زیادہ سے زیادہ تحفظ یقینی بنانے کے لیے کچھ نہ کچھ معنی خیز کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں۔
معاملات بہت واضح طور پر ہمارے سامنے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے لیے زیادہ سے زیادہ گنجائش پیدا کرنے پر متوجہ ہوں۔ خطے کی صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ پارٹنرز محض بدلے نہ جائیں بلکہ نئے پارٹنرز سے روابط بھی بہتر رکھے جائیں تاکہ معاملات کو ڈھنگ سے نمٹانا ممکن ہو۔ زیادہ سوچنے کی گنجائش اب رہی نہیں۔ جو کچھ بھی کرنا ہے تیزی سے کرنا ہے۔ پاکستان کو نئی بساط پر اپنی چال عمدگی سے اور بروقت چلنی ہے۔ افغانستان کے معاملات میں رونما ہونے والی تبدیلی نے پورے خطے کے ممالک کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے۔ پاکستان، ایران اور تاجکستان پر اس حوالے سے زیادہ دباؤ ہے۔ بھارت کا مسئلہ البتہ یہ ہے کہ اس کی سرمایہ کاری داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ پاکستان کے لیے بہترین آپشن یہ ہے کہ نئی پارٹنر شپس تلاش کرے اور سٹریٹیجک مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے امریکا اور یورپ کی طرف دیکھنے کے بجائے نظر کو اپنے خطے کے طول و عرض تک محدود رکھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved