کِسی زمانے میں لِکھنا ایسا فن تھا جس میں صرف لکھنا ہوتا تھا۔ مگر صاحب، یہ تو بہت پرانی بات ہے۔ آج لکھنے میں اداکاری کا عنصر اس قدر غالب ہے کہ کبھی کبھی تو لکھتے لکھتے ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے الفاظ ڈرامے بازی پر تُل گئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں اب لکھنے کا فن کئی فنون کا مجموعہ ہے۔ آپ نے یقیناً پڑھا یا سُنا ہو گا کہ گزرے ہوئے زمانوں میں داستان گو ہوا کرتے تھے جو سرِراہ یا کِسی کُھلی جگہ بیٹھ کر کوئی بات چھیڑتے تھے اور پھر چراغ سے چراغ جلاتے جاتے تھے۔ داستان کو آگے بڑھانے کے لیے وہ زمین کو آسمان سے مِلانے یا آسمان کو زمین پر لانے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ گزرے ہوئے زمانوں کا ایسا کوئی نابغہ آپ نے نہیں دیکھا تو مَلول نہ ہوں۔ بات یہ ہے کہ آپ غور کرنے کے عادی نہیں۔ آج کے لِکھنے والے کل کے بَکنے والوں کی کمی خاصی جاں فشانی سے پوری کر رہے ہیں۔ جب یہ داستان گوئی پر تُل جائیں تو زمین و آسماں کو پناہ مانگتے ہی بنتی ہے۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ لِکھنے والے راستہ دِکھاتے ہیں تو آپ کی سوچ غلط نہیں مگر تھوڑی سی وضاحت لازم ہے۔ لِکھنے والے پڑھنے والوں کو کم اور اپنے آپ کو پُرکشش معاوضوں کی راہ زیادہ دِکھاتے ہیں۔ پڑھنے والوں کو راہ مِلے نہ مِلے، خود کو بڑے سے بڑے پیکیج تک راستہ مِلنا چاہیے۔ زمانہ اب ایسی ہی ’’راہ نُمائی‘‘ کا ہے۔ کہتے ہیں جب لِکھنے والوں پر لِکھنے کا بھوت یا جُنون سوار ہو تو پڑھنے والوں کے مَزے ہو جاتے ہیں۔ یقیناً ایسا ہوتا ہوگا مگر دوسرے مُلکوں میں۔ ہمارے ہاں تو اب یہ عالم ہے کہ جب لِکھنے والے مُوڈ میں ہوتے ہیں تو پڑھنے والوں کی جان پر بن آتی ہے، اُن کے دل و دماغ کا تیاپانچا ہو جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب لِکھنے والے سوچ سمجھ کر لِکھا کرتے تھے۔ اب یہ ذمہ داری اُنہوں نے پڑھنے والوں پر ڈال دی ہے۔ اِس روش کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ پڑھنے والوں کو پڑھنے سے پہلے اور بعد میں بہت سوچنا پڑتا ہے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ سوچنے کے معاملے میں اب پڑھنے والوں نے لکھنے والوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ایک زمانے تک ڈائجسٹوں نے عوامی ادب کی بے مثال خدمت کی ہے۔ ڈائجسٹ باقاعدگی سے پڑھ پڑھ کر بہتوں نے سوچنا سیکھا اور بعد میں جب لِکھنا بھی سیکھا تو سوچنا بھول گئے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب فِکشن رائٹرز ہر معاملے کو کہانی کی شکل دے دیا کرتے تھے۔ اگر وہ گٹر کے ڈھکن کو کچھ دیر گھورتے تھے تو لوگ سمجھ جاتے تھے کہ اب گٹر میں سے کوئی معرکہ آرا کہانی برآمد ہو گی۔ اور ایسا ہی ہوتا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ اخبارات نے فِکشن کے معاملے میں انقلاب برپا کر دیا۔ ڈائجسٹوں کے سِکّہ بند رائٹرز نے کالم نگاروں کی صف میں جگہ بنا لی۔ وقت ایسا پلٹا کہ اونٹ خیمے میں گھس گیا اور خیمے کے مالک کو باہر نکلنا پڑا۔ پھر اِس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی ڈائجسٹوں کے رائٹرز کہانی کی تلاش میں گٹر کے ڈھکن کو گھورا کرتے تھے۔ ثابت ہوا کہ وہ دور ذہنی پس ماندگی کا تھا۔ لِکھنے کی ’’تحریک‘‘ پانے کے لیے گٹر اور اُس کے ڈھکن کے محتاج ڈائجسٹ کے رائٹرز رہے ہوں گے، اخباری کالم نگار اِس معاملے میں خود کفیل ہیں۔ اخبارات میں لِکھنے والوں کو کہانی تلاش نہیں کرنی پڑتی، وہ تو خود چل کر اُن تک آتی ہے۔ اونٹ کو رکشا میں بٹھانا آپ کے نزدیک ناممکن بات ہو گی، اخباری کالم نگاروں کے لیے تو یہ معمول کی مشق ہے۔ ایک ہی کالم میں کئی کہانیاں خود کو بیان کر رہی ہوتی ہیں اور ہر کہانی کے مرکزی کردار تلاش کرنا بھی کچھ دُشوار نہیں ہوتا۔ ڈائجسٹوں کے رائٹرز بہت روایت پسند تھے، تھیم یعنی مرکزی خیال کے بارے میں بھی سوچا کرتے تھے۔ اخباری کالم نگار عجب آزادہ و خود بیں ہیں یعنی تھیم کے پابند ہیں نہ طرزِ نگارش کے۔ فِکشن رائٹرز پڑھنے والوں کو ایک خاص بلندی تک لے جانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اخباری لِکھاری عوام کی ذہنی سطح پر آ کر لِکھ رہے ہیں۔ عوام اخباری کالموں میں اپنی ذہنی سطح پا کر لِکھنے والوں کو خوب داد دے رہے ہیں۔ لوگ یہ سوچ کر خوش رہتے ہیں کہ لِکھنے والا اُن کے ذہن کو سمجھتا ہے اور لِکھنے والے کو یہ اطمینان ہے کہ لِکھنے کے لیے اب سوچنے کے تَکلّف سے جان چھوٹی۔ اِس مُلک میں جب کِسی بھی معاملے میں سوچنے کی ضرورت نہیں رہی تو پھر لِکھنے کے لیے کیا اور کیوں سوچا جائے؟ لوگوں کو سوچے بغیر لِکھے گئے کالم پڑھنے کا چَسکا پڑ گیا ہے۔ اگر کبھی کوئی کالم خوب سوچ سمجھ کر لکھا جائے تو پڑھنے کے بعد لوگ سَر میں شدید درد کی شکایت کرتے پائے جاتے ہیں۔ اخبار کے لیے لکھنا بھی ایک انوکھی دنیا میں قدم رکھنا ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جس میں کئی دُنیائیں قبضہ مافیا کی طرح ڈیرا ڈالے پڑی ہیں۔ اخباری لِکھاری کوزے میں دریا بلکہ سمندر بند کرنے کے ہُنر میں طاق ہیں۔ ایسا لِکھتے ہیں کہ ہر دو طرف کے فریق خوش ہو رہتے ہیں۔ بقولِ غالبؔ دِل سے تِری نگاہ جگر تک اُتر گئی دونوں کو اِک ادا میں رضامند کر گئی! ہر پڑھنے والا یہ سمجھتا ہے اُسے oblige کیا گیا ہے اور یہ بات صرف لِکھنے والا جانتا ہے کہ معاملہ کِس حد تک camouflage کا ہے۔ اگر فوج چاہے تو ’’کیموفلاج‘‘ کا فن آج کے کئی اخباری لِکھاریوں سے سیکھ کر اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے درجات بلند کر سکتی ہے۔ اخباری کالموں میں فِکشن کے نئے پہلو تراشے گئے ہیں، فکر و نظر کی نئی دُنیائیں بسائی گئی ہیں۔ ایک ہی جُملے میں کِسی کا تیا پانچا کر دیا جاتا ہے تو کِسی کو ساتویں آسمان پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ کالموں میں قدیم و جدید ہر طرح کی داستانیں پائی جاتی ہیں۔ دیو اور پری کے قِصّے ملتے ہیں۔ ممدوح کو سُپر مین اور معتوب کو بغلول ثابت کرنے کے لیے ایڑی کے ساتھ اُس چوٹی کا بھی زور لگا دیا جاتا ہے جو پائی ہی نہیں جاتی۔ زمانے کی ہوا کا رُخ ایسا پلٹا ہے کہ ڈائجسٹوں اور اُن میں لِکھنے والوں کو لوگ بھول بھال گئے ہیں۔ اخباری فِکشن کے چمن میں اِس وقت بہار کا موسم ہے۔ کچھ پُھول کِھل رہے ہیں اور بہت سے گُل کِھلائے جا رہے ہیں ’’خوش نصیبی‘‘ یہ ہے کہ مسائل بدلتے ہیں نہ اُن کی شِدّت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ بقول دلاور فِگارؔ حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہو گئے بیشتر معاملات ’’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر ہیں یعنی بدلنے کا نام نہیں لیتے۔ ایسے میں جو لکھیے وہ حالات پر منطبق ہوکر رہتا ہے۔ میڈیا کے چمن میں لِکھنے کا موسم ہے۔ جو کچھ بھی لِکھیے، ڈالر کی طرح ہر مارکیٹ میں چل کر رہتا ہے۔ لِکھنے کا مزا تو واقعی اب آیا۔ ہماری دُعا ہے کہ حالاتِ حاضرہ پر تبصرے کے پردے میں دِل کی بات کہنے اور آم کے ساتھ ساتھ گُٹھلیوں کے بھی دام کھرے کرنے والے سلامت رہیں اور اُن سے بھی بڑھ کر سلامت رہیں پڑھنے والے جو اِس اعتبار سے عظمت کے مینار ہیں کہ پڑھنے کے نام پر پتا نہیں کیا کیا جھیلنے کے بعد بھی داد دینا نہیں بُھولتے! جب تک پڑھنے والے ہیں، لِکھنے والے ہرگز بُھوکے نہیں مَر سکتے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved