تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     28-08-2021

برطانوی راج اور مزاحمت کی کہانی

ہندوستان میں جب برطانوی راج کی تاریخ لکھی جائے گی اس میں مزاحمت کے کئی روشن باب ہوں گے ۔ مزاحمت جو ہر سطح پر کی گئی۔ مزاحمت جس میں کسی دین اور مذہب کی تفریق نہیں تھی۔ مزاحمت کے یہ باب قربانیوں سے عبارت ہیں۔ آزادی کے اس سفر میں کتنے ہی کردار سرگرم عمل تھے۔ کچھ کے نام ہمارے سامنے آئے لیکن بہت سے گُمنامی کے سمندر میں ڈوب گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا‘ جب تاریخ بن رہی تھی۔ ایک طرف برطانوی استبداد تھا اور دوسری طرف حریت کا جذبہ‘ اور پھر مہ و سال کی گرد سے ابھرتا ہوا 1919ء کا سال جو ہندوستان کی تاریخ میں ایک بڑے المیے کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا‘ جب امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں نہتے شہریوں پر بے دریغ فائرنگ کی گئی‘ جس کے نتیجے میں سینکڑوں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے‘ لیکن 1919 سے پیشتر ہی برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ آزادی کے لیے اُٹھنے والی آوازوں کو جبر کے ہتھکنڈوں سے دبایا جا رہا تھا۔ 1915ء میں ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کا اجرا کیا گیا۔ اس ظالمانہ ایکٹ کی منظوری میں اس وقت کے گورنر مائیکل اوڈائر کا اہم کردار تھا۔ رولٹ (Rowlatt) کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی گئی اور بعد میں رولٹ ایکٹ کو امپیریل لیجسلیٹو کونسل سے منظور کروا کے نافذ کر لیا گیا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے کالا قانون کہا تھا اور بطورِ احتجاج Legislative اسمبلی سے استعفا دے دیا تھا۔ کانگریس نے بھی رولٹ ایکٹ کی مخالفت کی‘ اور گاندھی نے اس ایکٹ کے خلاف ستیہ گرہ کا اعلان کیا اور ملک بھر میں ہڑتال کی کال دے دی‘ جس پر پنجاب کے مختلف شہروں میں مسلمان، ہندو، سکھ اور عیسائی رولٹ ایکٹ کے خلاف یک زبان ہو گئے تھے۔ یوں 1919ء کا سال تحریکِ آزادی کا ایک اہم سنگِ بن گیا‘ جب ایک طرف رولٹ ایکٹ کے نفاذ کے خلاف پورے ملک میں احتجاج شروع ہوا‘ اور دوسری طرف تیسری افغان جنگ کا آغاز ہو گیا۔ اسی پسِ منظر میں جلیانوالہ باغ کا واقعہ پیش آیا‘ جس میں حکومتی ریکارڈ کے مطابق 379 لوگ مارے گئے‘ اور 1208 لوگ زخمی ہوئے‘ لیکن یہ اعداد و شمار اصل تعداد سے بہت کم تھے۔ جلیانوالہ واقعے نے ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی تھی۔
ستم ظریفی یہ تھی کہ پہلی جنگِ عظیم (1914-1918) کا اختتام ہونے پر ہندوستانیوں کو یہ توقع تھی کہ جنگ میں برطانیہ کا ساتھ دینے کے عوض مقامی باشندوں کو مراعات دی جائیں گی۔ اس کے برعکس برطانوی راج کا شکنجہ مزید سخت ہو گیا تھا‘ اور اب جلیانوالہ باغ کے سانحے نے نوجوانوں کے دلوں میں آگ لگا دی تھی۔ ہر طبقۂ فکر اس صورت حال پر دل گرفتہ تھا۔ ایسے میں علما نے ایک فتوے کے ذریعے اعلان کیا کہ ہندوستان دارالحرب ہے اور اب مسلمانوں پر لازم ہے کہ یہاں سے ہجرت کر جائیں۔ ملک بھر کے نوجوان اپنا فعال کردار ادا کرنے کے لیے بے قرار تھے۔
انہی بے قرار اور جنوں پیشہ نوجوانوں میں چار ساتھی پشاور کے بھی تھے‘ جنہوں نے اپنی تعلیم اور سب کُچھ چھوڑ کر آزادی کے لیے لڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ آزادی کے اس سفر میں ان پر کیا گزری یہ رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستان ہے۔ انہی دوستوں میں سے ایک‘ میاں اکبر شاہ نے یہ داستان اپنی خود نوشت ''آزادی کی تلاش‘‘ میں بیان کی ہے۔ یہ خود نوشت پشتو زبان میں ہے اور اس کا آسان اور رواں اُردو ترجمہ معروف ماہرِ تعلیم اور تاریخ دان سید وقار علی شاہ صاحب نے کیا ہے۔
اس کہانی کا آغاز 1919ء کے سال سے ہوتا ہے‘ جب میاں اکبر شاہ نے دسویں جماعت پاس کر کے اسلامیہ کالج پشاور میں داخلہ لیا تھا۔ ہندوستان کے بہت سے نوجوانوں کی طرح اس نے بھی طے کر لیا تھا کہ وہ اپنے ملک کو فرنگیوں کے چنگل سے چھڑانے کے لیے فعال کردار ادا کرے گا‘ اور اس کے نزدیک اس کے لیے بہترین حکمتِ عملی افغانستان کی طرف ہجرت تھی۔
میاں اکبر شاہ 1899ء میں نوشہرہ کے ایک گاؤں بدرشی میں پیدا ہوا تھا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد اب کالج کا مرحلہ آ گیا تھا‘ لیکن ملکی صورت حال کی وجہ سے طلبا بھی بے چین تھے۔ اکبر کے اندر ایک الاؤ دہک رہا تھا۔ دوسرے پشتون نوجوانوں کی طرح اس کے رول ماڈل بھی حاجی ترنگ زئی تھے جو فرنگیوں کو تگنی کا ناچ نچا رہے تھے۔ اکبر شاہ اور اس کے دوستوں نے فیصلہ کیا کہ برطانوی راج کے خلاف مؤثر کارروائی افغانستان سے ممکن ہے۔ آخر وہ دن آ پہنچا جب وہ اپنے دوستوں سرفراز، گوہر اور محمد اکبر کے ساتھ پشاور سے روانہ ہوئے۔ اکبر شاہ کی جیب میں اس وقت کُل پونجی 29 روپے تھی۔ دو جوڑے سفید کپڑے ایک ملیشیا کا جوڑا تھا۔ زادِ راہ کا تو یہ عالم تھا لیکن ان کے پاس جذبوں کی فراوانی تھی۔ ان کی پہلی منزل چار سدہ تھی‘ جہاں عبدالغفار خان کا قیام تھا۔ افغانستان کے سفر میں انہیں عبدالغفار خان کی اشیرباد حاصل تھی۔ 16مئی 1920ء کو دیوانوں کا یہ قافلہ پا پیادہ اتمان زئی سے روانہ ہوا۔ ان کا سفر آسان نہ تھا۔ فرنگی حکومت نے راستوں میں خار دار تار بچھا رکھے تھے۔ اس سفر میں ان کا گائیڈ 16 سال کا پھرتیلا نوجوان طاؤس خان تھا‘ جو اونچے نیچے پہاڑی راستوں پر کمال مہارت سے ان کی رہنمائی کر رہا تھا۔
ان کی اگلی منزل حاجی تورنگ زئی کا ڈیرہ تھا۔ حاجی صاحب سے ملاقات اکبر شاہ کی زندگی کے خواب کی تعبیر تھی۔ پشتون نوجوانوں کے لیے حاجی صاحب تورنگ زئی مزاحمت اور بہادری کا استعارہ تھے۔ حاجی صاحب کے ہاں انہوں نے چھ روز قیام کیا۔ حاجی صاحب نوجوانوں کا جذبہ دیکھ کر خوش ہوئے اور انہیں اپنی دعاؤں کے ساتھ الوداع کیا۔ اونچے نیچے راستوں پر سفر کرتے ہوئے انہیں خود کو انگریزوں کے جاسوسوں کی نظروں سے بچانا تھا‘ جو شکاری کُتوں کی طرح افغانستان جانے والے راستوں پر پھیلے ہوئے تھے۔ دوسری طرف سفر کی صعوبتیں تھیں۔ وہ رات بھر چلتے رہتے اور پھر پتھر کا تکیہ بنا کر کُچھ دیر کے لیے زمین پر لیٹ جاتے۔ یہ اپنے گھروں میں نازونعم سے پلے ہوئے نوجوان تھے اور اپنا آرام‘ اپنا خاندان‘ اپنی تعلیم تج کر آزادی کی تلاش میں نکلے تھے۔
چلتے چلتے وہ جلال آباد اور پھر کابل پہنچ گئے۔ اس سفر نے انہیں بہت سے تجربات سے روشناس کرایا تھا‘ لیکن وہ اس سارے سفر میں ثابت قدم رہے‘ اور کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں لائے۔ افغانستان میں ان دنوں امان اللہ خان کی حکومت تھی‘ جو فرنگی حکومت سے اُکتائے ہوئے لوگوں کو بخوشی پناہ دے رہے تھے۔ اکبر شاہ اور ان کے ساتھیوں نے دیکھا کہ ان کے علاوہ بھی یہاں پر پڑھے لکھے نوجوانوں کی کثیر تعداد موجود ہے‘ جو فرنگی حکومت کے خاتمے کے لیے افغانستان میں جمع ہوئے تھے۔
وہیں قاضی صاحب کے گھر ان کی ملاقات معروف عالمِ دین اور انقلابی رہنما مولانا عبید اللہ سندھی سے ہوئی جو 1914ء میں ہندوستان سے افغانستان پہنچ گئے تھے اور یہاں قائم کردہ آزاد ہند حکومت میں وزیر کی حیثیت سے شامل تھے۔ ان کی اگلی منزل جبل السراج تھی جہاں ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کی خاصی تعداد تھی جن کو یہاں پر ٹریننگ دی جاتی تھی۔ ان مہاجرین کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا۔ ان سب کے دلوں میں ایک ہی جذبہ موجزن تھا کہ ہندوستان کو فرنگیوں سے نجات دلائی جائے۔ لیکن ایک دن اچانک ایک خبر ان پر بجلی بن کر گری کہ انگریزوں اور افغانستان کے مابین صلح کا معاہدہ ہو گیا ہے۔ انہیں یوں لگا‘ جیسے ان کے سروں پر سے آسمان یک لخت ہٹ گیا ہے۔ وہ اپنے گھروں سے بہت دور تھے۔ اب ان کے پیچھے گہری کھائی تھی اور آگے دور دور تک پھیلا ہوا بے انت سمندر۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved