جب سے طالبان نے کابل سمیت پورے افغانستان کا نظم و نسق سنبھالا ہے، بھارت میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ بدحواسی ایسی ہے کہ دنیا دیکھ کر یہ طے نہیں کر پارہی کہ سر پیٹے یا محظوظ ہو۔ بھارت کے مین سٹریم میڈیا پر الزامات کی توپیں دَغ رہی ہیں۔ ایک محاذ کھول لیا گیا ہے اور اِس محاذ پر ہر وہ آدمی ڈٹا ہوا ہے جو زبانی فائر کرنے کا ماہر ہے۔ بھارتی میڈیا کے بزرجمہر سوچے سمجھے بغیر کچھ بھی کہہ رہے ہیں۔ ہر معاملے میں پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانے کا چلن اس قدر عام ہے کہ اب اِس سے گلو خلاصی ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ جب کوئی اور بات نہیں سوجھتی تو ادھر ادھر کی ہانک کر بحث کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ بھارت کے عوام بھی نہیں سوچتے کہ پاکستان کے نام پر اُنہیں بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ افغانستان کی صورتِ حال نے بھارت کو عجیب مخمصے میں ڈال رکھا ہے۔ ڈیڑھ عشرے کے دوران بھارت نے افغانستان میں لگ بھگ تین بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ کیا اندازہ نہ تھا کہ وہاں حکومت کی تبدیلی کے نتیجے میں بہت کچھ، بلکہ سب کچھ داؤ پر لگ سکتا ہے؟ اب افسوس کیوں اور حیرت کیسی کہ ع
اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے کاموں میں
بھارت کے پالیسی میکرز کیا اِتنی سی بات بھی سمجھ نہیں سکتے تھے کہ افغانستان میں زمینی حقیقت بدلتے ہی سب کچھ داؤ پر لگ جائے گا؟ ایک زمانے سے افغانستان کے معاملات پوری دنیا کے سامنے ہیں۔ وہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ دکھائی نہیں دیتا اور جو کچھ دِکھتا یا دکھایا جاتا ہے وہ ہوتا ہی نہیں۔ افغانستان کی زمینی حقیقتوں سے الجھنے کا مشورہ کس نے دیا تھا؟ ویسے نئی دہلی کے اہلِ دانش و حکمت کو مشوروں کی ضرورت ہے نہیں کیونکہ بیشتر حماقتوں کا ارتکاب وہ نہایت قابلیت سے کرتے ہیں! افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں بھارت پر یہ مصرع صادق آتا ہے ع
اِسی باعث تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے!
ایک عجیب بات یہ ہے کہ جس معاملے سے کچھ لینا ہے نہ دینا‘ اُس میں بھارت خواہ مخواہ الجھ رہا ہے۔ ایک طرف تو میڈیا غیر ذمہ دارانہ باتیں کر رہا ہے اور دوسری طرف بھارتی قیادت بھی دانش سے محرومی کا ثبوت دیتے ہوئے ایسے بیانات داغ رہی ہے جن سے طالبان کا رویہ اُس کے حوالے سے شدید تر ہوجائے۔ طالبان رہنما شہاب الدین دلاور نے کہا ہے کہ بھارت جلد ہی یہ جان جائے گا کہ طالبان بہ آسانی حکومتی امور چلا سکتے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ بیان کا طالبان نے سخت نوٹس لیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ طالبان حکومت نہیں چلا سکتے۔ سرکاری میڈیا سے خصوصی گفتگو میں طالبان رہنما نے بھارت کو خبردار کیا کہ وہ افغانستان کے معاملات میں دخل نہ دے۔ یہ انتباہ پہلی بار نہیں کیا گیا۔ طالبان کے متعدد قائدین بھارت کو انتباہ کرچکے ہیں کہ وہ افغانستان کے معاملات میں غیر ضروری دلچسپی نہ لے اور اس حوالے سے متوازن رویہ اختیار کرے۔ ایک بیان میں طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللّٰہ مجاہد کا کہنا ہے ''افغانستان سے پاکستان کے اندر کسی بھی قسم کی گڑبڑ نہیں ہونے دی جائے گی۔ پاکستانی قیادت افغانستان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔ کابل کی فتح میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں۔ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کو اپنا رویہ مثبت کرنا چاہیے۔ بھارت کو کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دینا ہوگا۔ افغانستان کے عوام کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں‘‘۔ طالبان قیادت کی طرف سے یہ انتباہ بھارتی قیادت کے لیے واضح پیغام ہے کہ وہ خواہ مخواہ اپنے گھر سے بہت دور کے معاملے میں الجھنے سے گریز کرے۔ افغانستان کو سپر پاورز کا قبرستان کہا جاتا ہے اور بھارت تو ابھی (علاقائی سطح ہی پر سہی) سپر پاور بنا بھی نہیں ہے! اس وقت بڑے کھلاڑی میدان میں ہیں۔ ایسے میں بھارت نہ تین میں نہ تیرہ میں‘ بڑی طاقت کے طور پر خود کو منوانے کی خاطر بھارت ایسی چھوٹی حرکتیں کرتا آیا ہے کہ اپنی جگ ہنسائی کا سامان خود پیدا کرتا ہے۔ بڑا بننے کے لیے بڑے پن کا مظاہرہ لازم ہے۔ اس کے لیے دل بڑا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور دل بڑا کرنے کا مطلب ہے دوسروں کو قبول، برداشت اور ہضم کرنا۔ پڑوسی ممالک کو حلیف بناکر خطے میں حقیقی سیاسی و معاشی استحکام کی راہ ہموار کرنے کے بجائے بھارت اُنہیں الجھنوں سے دوچار کرنے کے فراق میں مبتلا رہتا ہے۔ غیر معمولی ترقی اور عالمی سطح پر کوئی بہت بڑا کردار پانے کے لیے لازم ہے کہ علاقائی ممالک کا اعتماد حاصل کیا جائے۔ بھارت نے آج تک ایسا کوئی بھی ٹھوس اقدام نہیں کیا جس کے نتیجے میں علاقائی ممالک‘ بالخصوص پڑوسیوں کا اُس پر اعتماد بڑھا ہو۔
امریکا اور یورپ کے لیے بھی زمینی حقیقتیں بدل گئی ہیں۔ ایسے میں بھارت کے لیے بھی وقت آچکا ہے کہ ترجیحات کا ازسر نو تعین کیا جائے۔ ایسا کرنا دانش مندی کا مظہر ہوگا کیونکہ امریکا اور یورپ نے مل کر جو دنیا تشکیل دی تھی وہ اب کمزور پڑتی جارہی ہے۔ عالمی نظام میں امریکا اور یورپ کے لیے کچھ زیادہ رہا نہیں۔ امریکی معیشت و معاشرت کا کھوکھلا پن بھی نمایاں ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ پالیسیاں تبدیل کی جائیں اور نئی حکمتِ عملی اپنائی جائے۔ باقی دنیا کی طرح جنوبی ایشیا میں بھی سبھی کچھ بدل رہا ہے۔ نئے گروپ اور بلاک بن رہے ہیں۔ اِس سے بھی کہیں آگے جاکر ایشیا عالمی سیاست و معیشت کا مرکز بننے کی منزل میں ہے۔ ایشیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اور بالخصوص جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں جو معاملات چل رہے ہیں ان کا یورپ کو شدت سے احساس ہے۔ یورپ نے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔ وہ کسی بھی غیر معمولی صورتِ حال کے حوالے سے بروقت رسپانس دینے کی کوشش کرتا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ادراک بھارتی قیادت کو بھی ہونا چاہیے۔ محض ادراک ہی کافی نہیں، حالات سے مناسبت اور مطابقت رکھنے والا رسپانس بھی لازم ہے تاکہ بین الریاستی تعلقات کی بدلتی ہوئی نوعیت کے پیشِ نظر مسائل کو پیچیدہ تر ہونے سے بچایا جاسکے۔
چین نے افریقہ میں غیر معمولی سرمایہ کاری کرکے وہاں یورپ کے لیے امکانات محدود کردیے ہیں۔ افریقہ کو ڈیڑھ دو سو سال تک نظر انداز کرنا یورپ کی بہت بڑی غلطی تھی۔ اب افریقی ممالک کی تعمیر و ترقی میں چین کلیدی کردار ادا کر رہا ہے تو امریکا کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں کہ ایک بڑا خطہ ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ کچھ ایسا ہی مروڑ بھارت کے پیٹ میں بھی اٹھا ہے کیونکہ افغانستان اُس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ افغانستان کسی کے ہاتھ آہی کب سکا؟ بھارتی قیادت نے یہ سوچا بھی کیونکر کہ افغانستان اُس کے ہاتھ آچکا ہے؟ ایسے مغالطے بالآخر دل و دماغ کے لیے شدید دھچکوں کا باعث بنتے ہیں۔ خیالی پلاؤ پکانا ایسی ہی کیفیت کو تو کہتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں چین اور روس تیزی سے فعال ہو رہے ہیں۔ ایسے میں بھارت کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ مغربی آلہ کار بن کر خطے کی ترقی کے عمل میں رخنہ اندوز ہو گا یا اس ترقیاتی عمل کا حصہ بنے گا۔ نریندر مودی اور اُن کی ٹیم کے لیے موزوں ترین حکمتِ عملی یہی ہوسکتی ہے کہ افغانستان کے حوالے سے بولتے وقت زبان کے ساتھ ساتھ دل و دماغ کو بھی قابو میں رکھیں اور میڈیا کو بھی اول فول بکنے سے روکیں۔ بھارتی میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ رویہ کسی بھی وقت دبی چنگاری کو شعلے میں تبدیل کرسکتا ہے۔ جن سے اپنا ملک نہیں سنبھلتا وہ حکمرانی کے حوالے سے دوسروں کی صلاحیتوں اور مہارت پر شک کا اظہار کرکے خواہ مخواہ ہدفِ استہزا بن رہے ہیں۔ بھارت کے موجودہ حکمران جس بھونڈے انداز سے خطے میں اپنے لیے بڑا کردار پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اُسے دیکھتے ہوئے انہیں آئینہ دکھانے کی کوشش میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ ع
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ