تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     29-08-2021

عثمان بزدار کی کسرِ نفسی اور ملتان کا سیاسی منظرنامہ

اللہ خوش رکھے اپنے عثمان بزدار صاحب کو، طبیعت میں اتنی بے نیازی، نام و نمود سے بے اعتنائی اور خود پسندی سے اتنی نفرت ہے کہ گزشتہ تین سال کے دوران جو بھی حیران کن ترقیاتی و غیر ترقیاتی کام کیے ہیں ان کی رتی برابر مشہوری نہیں کی۔ کسرِ نفسی ایسی کہ اپنے کسی کام اور کسی کارنامے کی معمولی سی تشہیر نہیں کی۔ تاہم وہ خود تو رہے ایک طرف، ان کے کام اور کارنامے بھی اسی کسرِ نفسی سے کام لے رہے ہیں اور خود بھی کسی کے سامنے نہیں آ رہے۔ کام اور کارنامے ایسے درویش ہیں کہ ان کا ذکر نہ تو عثمان بزدار کر رہے ہیں اور نہ ہی وہ خود ہی عوام الناس کے سامنے آکر رونمائی کروا رہے ہیں۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ اگر کام کرنے والا خود درویشی سے کام لیتے ہوئے اپنے کارنامے اور ترقیاتی کام بیان نہ کر رہا ہو تو کم از کم اس کے کیے ہوئے کام ہی بولتے ہیں اور کام کرنے والے کی کسر نفسی کو اپنی موجودگی سے ظاہر کر دیتے ہیں مگر یہ تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ حکمران کسرِ نفسی سے کام لیتے ہوئے اپنے کام اور کارنامے عوام کے سامنے بیان نہیں کر رہے اور خود کام بھی کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے پردہ پوشی کیے بیٹھے ہیں اور کسی کو نظر نہیں آرہے۔ درویشی اور فقیری کی تو اخیر ہو گئی ہے۔
ایک طرف بزدار صاحب کی خاموشی ہے اور دوسری طرف شہر کے سیاسی حلقوں میں شاہ محمود قریشی کو صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 217 سے شکست دینے والے سلمان نعیم کی سپریم کورٹ سے بحالی کا رولا پڑا ہوا ہے۔ سلمان نعیم کے بطور رکن پنجاب اسمبلی بحال ہونے میں اور حکومت کے تین سال پورے ہونے میں بس دو چار دن کا ہی فرق ہے۔ شاہ جی کہنے لگے: حکومت کے تین سال گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ میں نے کہا: شاہ جی ان غریبوں سے پوچھو، جو آٹا خریدتے ہیں، چینی بازار سے لاتے ہیں، ہنڈیا میں گھی ڈالتے ہیں، دال پکاتے ہیں اور سبزیاں استعمال کرتے ہیں‘ بجلی اور گیس کا بل ادا کرتے ہیں، ذرا آپ ان سے پوچھیں تو آپ کو پتا چلے کہ یہ تین سال ان پر کیسے گزرے ہیں۔ آپ کمال کرتے ہیں کہ تین سال گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ شاہ جی ہنس کر کہنے لگے: آپ میرا مطلب نہیں سمجھے۔ میں جب ملتان کو دیکھتا ہوں تو مجھے اس میں رتی برابر بہتری یا تبدیلی نظر نہیں آتی۔ کہیں کوئی ترقیاتی کام نظر نہیں آتا۔ نظام میں ذرا سی بہتری دکھائی نہیں دیتی۔ کوئی خرابی درست ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔ لگتا ہی نہیں کہ حکومت نام کی کوئی چیز ہے جس نے عوام کے لیے کچھ کیا ہو، کسی سڑک کو ٹھیک کیا ہو، کسی محکمے کی کارکردگی میں بال برابر بہتری محسوس ہوئی ہو۔ مجال ہے جو تھانہ، کچہری اور پٹوار کلچر میں خشخاش کے دانے جتنی بہتری آئی ہو۔ تو آپ خود بتلائو بھلا لگتا ہے کہ اس ملک میں کوئی حکومت تین سال سے موجود ہے؟
میں نے کہا: جی آپ بات کو اتنے پیچ دار طریقے سے کیوں بیان کرتے ہیں؟ شاہ جی کہنے لگے: میں بات پیچ دار طریقے سے بیان نہیں کرتا، تاہم آپ لوگوں کو طریقے سے کہی گئی بات کی سمجھ نہ آئے تو میں کیا کروں؟ میں نے پوچھا: شاہ جی یہ سلمان نعیم کی بطور رکن صوبائی اسمبلی بحال ہونے میں اتنی دیر کیسے لگ گئی؟ شاہ جی مسکرائے اور کہنے لگے: دراصل تم جیسے لوگ جو سوشل میڈیا پر نہیں ہوتے ان کو بہت سی چیزوں کا پتا نہیں چلتا۔ تم صرف صبح سویرے اٹھ کر چار اخبار پڑھتے ہو اور باقی سارا دن ادھر اُدھر لور لور پھرتے رہتے ہو۔ بھلا تمہیں کیا پتا کہ کیسی کیسی وڈیوز اور آڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہیں۔ اپنے شاہ محمود قریشی کی بھی ایک پرانی آڈیو اب دوبارہ سے گردش کررہی ہے جس میں وہ وکیل سے بات کرکے اس کیس کو لٹکانے کی ہدایات دے رہے ہیں۔ میں نے کہا: شاہ جی! قریشی صاحب کی وکیل کو ہدایات اپنی جگہ لیکن صرف وکیل کو ہدایت دینے سے تو خواہشات پوری نہیں ہو جاتیں‘ عدالتیں بھی تو اپنا کام کرتی ہیں۔ شاہ جی کہنے لگے: آپ بھولے بادشاہ ہیں۔ اب آپ کو کیا کیا بات بتائی اور سمجھائی جائے۔ ویسے عدالت کو بھی غالباً پتا تھا کہ اس کیس کے پیچھے بظاہر دو عدد درخواست گزار جن کے نام نوید انجم اور شعیب اکمل قریشی ہیں‘ مدعی بنے ہوئے تھے مگر ان دونوں حضرات کے پیچھے دراصل ہمارے پیارے شاہ محمود قریشی تھے‘ حالانکہ وہ اس سلسلے میں خود کو بالکل غیرجانبدار اور ان دونوں درخواستوں سے خود کو بالکل لاتعلق اور بری الذمہ قرار دیتے تھے‘ مگر یہ بات اظہر من الشمس تھی کہ ان دونوں مدعیوں کے پیچھے اصل اور خالص مدعی ہمارے شاہ محمود قریشی صاحب کی ذات بابرکات تھی۔
شاہ جی مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا میں نے سپریم کورٹ کا مورخہ 17 اگست والا فیصلہ پڑھا ہے؟ میں نے کہا: شاہ جی! حالانکہ مجھے اپنی نالائقی بارے کوئی شبہ نہیں ہے مگر اپنی اس نالائقی کے باوجود میں نے وہ فیصلہ حرف بہ حرف تو نہیں پڑھا مگر جستہ جستہ ضرور پڑھا ہے۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے دو ججوں نے اپنے اس فیصلے میں الیکشن کمیشن کے مورخہ یکم اکتوبر 2018 کے فیصلے کو کمیشن کے دائرہ کار اور اختیارات سے متجاوز قرار دے کر معطل کر دیا اور اسی طرح ہائیکورٹ کے فیصلے کو بھی کالعدم قرار دے کر سلمان نعیم کو بحال کر دیا۔ مزید یہ کہ اس فیصلے کے پہلے حصے کے پہرہ نمبر5 میں انجم اور شعیب کو Man of straw یعنی بھوسے کا آدمی قرار دیا ہے۔
دراصل سلمان نعیم کے خلاف دونوں مدعیوں کی درخواست میں اس کی عمر کو قانونی نکتہ بناتے ہوئے اسے نااہل قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔ قصہ یہ ہے کہ جب سلمان نعیم نے کاغذات نامزدگی داخل کیے تو بقول مدعیان سلمان نعیم کی عمر پچیس سال سے کم تھی۔ شناختی کارڈ اور دیگر کاغذات کے مطابق سلمان نعیم کی تاریخ پیدائش 28 جنوری 1994 تھی، یعنی کاغذات نامزدگی داخل کرواتے وقت اس کی عمر پچیس سال نہیں بلکہ چوبیس سال چار ماہ اور نو دن تھی مگر اس نے الیکشن لڑنے کے لیے دوسرا شناختی کارڈ بنوایا جس میں اس کی تاریخ پیدائش یکم فروری 1993 تھی۔ اس طرح اس نے الیکشن کے لیے درکار مطلوبہ عمر کی اہلیت حاصل کر لی۔ کمیشن نے اس بنیاد پر سلمان نعیم کی رکنیت کالعدم قرار دے دی‘ تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے میں قرار دیا گی کہ خود شاہ محمود قریشی کے وکیل کی طرف سے کمیشن میں جمع کروائی گئی درخواست کے متن میں کمیشن کا جو دائرہ کار درج ہے اس کے مطابق شناختی کارڈ پر عمر کے معاملے پر کسی رکن کی نااہلی کمیشن کے دائرہ کار سے باہر ہے۔
شاہ جی نے میرے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا: میں نے اتنی تفصیل نہیں پوچھی تھی‘ تاہم ایک بات لکھ لوکہ یہ سلمان نعیم اب ملتان شہر کی حد تک مستقل شاہ محمود قریشی کے جوڑوں میں بیٹھ جائے گا اور اگلا الیکشن وہ شاہ محمود قریشی کے خلاف ملتان شہر کے قومی حلقہ این اے 156 سے لڑے گا۔ میں نے کہا: تو پھر کیا ہوا؟ شاہ محمود قریشی اپنے پرانے حلقہ این اے 157 میں چلا جائے گا۔ شاہ جی کہنے لگے: تو پھر ان کا صاحبزادہ زین قریشی کہاں جائے گا؟ میں نے کہا: وہ تو ویسے بھی اس حلقے سے اگلی بار کامیاب ہوتا نظر نہیں آ رہا‘ لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ سلمان نعیم اگلا الیکشن کس پارٹی سے لڑے گا؟ شاہ جی نے مسکرا کر کہا: صبر کرو، جنوبی پنجاب میں کئی چیزیں عنقریب منظر عام پر آئیں گی۔ ان میں ایک آزاد گروپ ہو گا۔ میں نے کہا: اس کی قیادت کون کرے گا؟ شاہ جی کہنے لگے: یہ بھی جلد ہی ظاہر ہو جائے گا۔ ویسے جو بندہ عدالتوں سے نااہل ہوا ہو، اسے کسی قسم کے جوڑ توڑ سے تو نہیں روکا جا سکتا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved