تحریر : امتیاز گل تاریخ اشاعت     29-08-2021

مسئلہ واشنگٹن میں ہے‘ پاکستان میں نہیں!

امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے بہت سی جانچ پڑتال جاری ہے اور تنقید بھی سامنے آ رہی ہے‘ لیکن وہ یہ کام پیچھے مڑ کر یہ دیکھے بغیر کر رہے ہیں کہ واشنگٹن میں موجود اعلیٰ حکام خود کتنی خوفناک غلطیاں اور اقدامات کر رہے ہیں اور ان سے کتنی بھول چُوک ہو رہی ہے۔ آئیے ان تمام مسائل کے ساتھ ساتھ افغانستان اور پاکستان سے معاملات طے کرنے کے حوالے سے جو تضادات سامنے آ رہے ہیں‘ ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ یہ جانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا غلط ہوا اور کیوں؟
8 فروری 2017 کو افغانستان کے بارے میں کانگریس کے اجلاس کے دوران، مرحوم سینیٹر جان میک کین، جو پاکستان اور افغانستان کے باقاعدہ دورے کرتے رہے تھے‘ نے پاک امریکہ تعلقات میں بنیادی خرابی کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا تھا ''... اگر ہمارے دشمن پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں رکھتے ہیں تو افغانستان میں ہمارا مشن ناممکن نہیں تو ناقابلِ تصور حد تک مشکل ضرور ہے۔ ان پناہ گاہوں کو ختم کرنا ہوگا۔‘‘
اگرچہ وہ اجلاس افغانستان کی صورتحال پر غورکے لیے بلایا گیا تھا‘ لیکن اس میں افغان تنازع کے حوالے سے کم از کم 73 مرتبہ 'پاکستان‘ کا لفظ درجنوں بالواسطہ حوالوں سے استعمال کیا گیا۔ واشنگٹن کے پاور ہاؤسز اور میڈیا نے اس جذبات کی عکاسی کی اور پاکستان کے بارے میں بھارتی بیانیے کو مزید بڑھا چڑھا کر پیش کیا‘ لیکن افغانستان میں امریکی اور بین الاقوامی افواج کے اس وقت کے کمانڈر جنرل جان نکلسن جونیئر نے پاکستان مخالف بیانیے کے برخلاف افغانستان میں استحکام لانے اور شدت پسندوں کو شکست دینے کیلئے پاکستان کیساتھ مل کر کام کرنیکی وکالت کی اور پاکستان کیلئے امریکی امداد بند کرنے کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے اسلام آباد سے سفارتی تعلقات کی ضرورت پر زور دیا۔
اس کے کئی سال کے بعد سابق امریکی سفیر ریان کروکر، جنرل نکلسن کی باتوں سے اتفاق کرتے نظر آئے۔ انہوں نے واضح طور پر تسلیم کیا کہ پاکستان پر منفی طور پر توجہ مرتکز کرنا غلط تھا۔ 21 اگست 2021 کو نیویارک ٹائمز میں شائع شدہ اپنے ایک آرٹیکل میں کروکر نے اس بات کا احاطہ کیا کہ زیادہ تر امریکی حکام، سیاستدان اور امریکی اتحادی جیسے برطانیہ، جرمنی اور بھارت سرد مہری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔کروکر نے افغانستان کی تازہ ترین صورتحال کو صدر بائیڈن سمیت تمام حکام کی جانب سے نازک ترین لمحات میں سٹریٹیجک تحمل کے فقدان کا نتیجہ قرار دیا اور لکھا کہ اس عمل نے ہمارے اتحادوں کو نقصان پہنچایا ہے، ہمارے مخالفین کا حوصلہ بڑھایا ہے اور ہماری اپنی سلامتی کے لیے خطرہ بڑھا دیا ہے۔ اس کے بعد کروکر نے ایک اور اعتراف بھی کیا۔ کہا کہ 1989 میں افغانستان میں امریکی تربیت یافتہ مسلح کردہ مجاہدین کے ہاتھوں سوویت یونین کی شکست، جس میں پاکستان نے ہماری مدد کی‘ کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ اپنا کام مکمل کر چکے ہیں۔ باہر جاتے ہوئے، ہم نے پاکستان کی کلیدی امداد ترک کردی۔ اس کے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کی وجہ سے سکیورٹی اور معاشی امداد روک لی، حالانکہ یہ ایسا معاملہ تھا جس سے ہم ماضی میں صرفِ نظر کرتے رہے‘ چنانچہ پاکستان اتحادیوں کا سب سے بڑا اتحادی ہونے سے‘ مخالفین میں سب سے زیادہ پابندیوں والا ملک بن گیا۔ یہی وجہ ہے کہ 1990 کی دہائی کے دوران جب طالبان کو برسر زمین کامیابیاں حاصل ہونا شروع ہوئیں تو پاکستان نے ان کی حمایت شروع کردی تھی۔
کروکر‘ جو 2004 سے 2007 تک پاکستان میں سفیر رہے، نے پھر ان ساری باتوں کا خلاصہ پیش کیا جو پاکستانی حکام اسے بتاتے رہے: میں نے پاکستانی حکام پر طالبان کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرنے کی ضرورت پر بار بار زور دیا۔ وقتاً فوقتاً مجھے اس کے جو جواب ملے وہ اس طرح تھے: ''ہم آپ کو جانتے ہیں... ہم جانتے ہیں کہ وہ دن آئے گا جب آپ تھک جائیں گے اور واپس گھر چلے جائیں گے... یہی آپ کرتے ہیں‘ لیکن ہم کہیں نہیں جا رہے... ہمیں یہیں رہنا ہے‘ لہٰذا اگر آپ کو لگتا ہے کہ ہم طالبان کو ایک جان لیوا دشمن میں تبدیل کرنے جا رہے ہیں‘ تو آپ کی غلط فہمی ہے ‘‘۔ اب ہم نے ان کے شکوک و شبہات کی دوبارہ تصدیق کر دی ہے۔
اس کے باوجود تب کوئی بھی پاکستان کی طرف سے ظاہر کئے گئے اس محتاط رد عمل کو اپنانے کی طرف مائل نہیں تھا۔ امریکی سیگار (Special Inspector General for Afghanistan Reconstruction) جان سوپکو کی حال ہی میں سامنے آنے والی ایک تحریر سے بھی ایسا ہی تاثر ملتا ہے: امریکی حکومت نے افغان سیاق و سباق کو نہیں سمجھا اور اسی وجہ سے اپنی کوششوں کو حالات کے مطابق بروئے کار لانے میں ناکام رہی۔ افغانستان میں مروجہ سماجی، ثقافتی اور سیاسی سیاق و سباق سے لاعلمی سٹریٹیجک، آپریشنل اور ٹیکٹیکل سطحوں پر ناکامی کیلئے اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔ یہ ماحول امریکی مداخلتوں پر کیا ردعمل ظاہر کررہا ہے‘ اس کے بارے میں تو اور بھی کم۔ بہت سی غلطیاں معلومات کو جان بوجھ کرنظر انداز کرنے کا نتیجہ تھیں۔ یکساں طور پر سبق آموز ایک اور اقتباس ہے جو فی الحال سائبر سپیس پر زیرِ گردش ہے۔ یہ اقتباس صدر اوباما کے سابق معاون ولی نصر کی کتاب سے لیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: میں کیانی صاحب کے اس رد عمل کو نہیں بھول سکتا جو انہوں نے اس وقت ظاہر کیا جب ہم نے نہایت جوش و خروش سے 2014 تک افغان افواج کی تعداد چار لاکھ تک بڑھانے کے اپنے منصوبے کی وضاحت کی۔ انہوں نے اس پرفوری اور غیر مبہم جواب دیا: آپ یہ فوج تشکیل دینے کی کوشش نہ کریں‘ ناکام ہو جائیں گے‘ جب آپ واپس چلے جائیں گے تو یہ نیم تربیت یافتہ فوج ملیشیاز میں تبدیل ہو جائے گی جو پاکستان کیلئے ایک مسئلہ ہوں گی۔
ولی نصر 2010 میں ہونے والی اس گفتگو کا حصہ تھے‘ اور آج گیارہ سال بعد افغان فورسز کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا جبکہ امریکی فوج بدترین بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ اس پورے تناظر میں ایک واضح چُوک امریکہ کے سکیورٹی کنٹریکٹنگ سسٹم سے جڑی دھوکہ دہی کی وارداتوں‘ جو اربوں ڈالر کے ضیاع کا باعث بن رہی تھیں‘ پر مبنی خوفناک رپورٹیں تھیں۔
افغانستان کی تعمیر نو کے لیے متعین امریکی سپیشل انسپکٹر جنرل کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ نے 2001 اور 2021 کے دوران اس ملک میں تقریباً 9 946 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ کم وبیش ایک ٹریلین ڈالر کے اخراجات سے امریکہ مشکل سے چند دل و دماغ ہی جیت سکا۔ اس میں سے 816 بلین ڈالر‘ جو کل سرمایہ کاری کا 86 فیصد بنتے ہیں‘ امریکی فوجیوں کے لیے فوجی اخراجات میں گئے‘ اور افغان عوام کو باقی بچنے والے 130 بلین ڈالرز میں سے بہت کم دیکھنے نصیب ہوئے کیونکہ ان میں سے 83 بلین ڈالر افغان سکیورٹی فورسز کے کھاتے میں چلے گئے۔ مزید کم و بیش 10 بلین ڈالر منشیات کی روک تھام کی کارروائیوں پر خرچ کیے گئے جبکہ 15 بلین ڈالر افغانستان میں کام کرنے والی امریکی ایجنسیوں کے لیے تھے۔ اس کے بعد ''اقتصادی مدد‘‘ کے حوالے سے فنڈنگ کے کھاتوں میں صرف 21 بلین ڈالر بچے۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں جتنے بھی اخراجات کئے‘ ان میں سے 2 فیصد سے بھی کم، اور غالباً 2 فیصد سے خاصے کم‘ بنیادی ڈھانچے یا غربت میں کمی کی خدمات کی صورت میں افغان عوام تک پہنچ پائے۔ کسی سیگار رپورٹ میں پاکستان کو افغانستان کے مسائل کا مرکزی مجرم قرار نہیں دیا گیا۔ اس کے برعکس سوپکو افغانستان کے لیے فنڈنگ میں بڑے پیمانے پر ہونے فراڈوں کے معاملات کو ہی بے نقاب کرتا رہا۔ اپنی آنکھ کے شہتیر کو نظرانداز کر کے دوسروں کی آنکھ کا تنکا تلاش کرنا آسان کام ہے۔ اس کو قومی سلامتی کے مفادات میں سچائی کو مسخ کرنا کہتے ہیں۔ مسئلہ واشنگٹن میں ہے‘ پاکستان میں نہیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved