آپ کیا سمجھتے ہیں افغانستان میں بیس سال تک کتنے حریف آپس میں لڑ رہے تھے؟ دو حریف؟ ایک طرف اتحادی مع کٹھ پتلی افغان حکومت اور دوسری طرف طالبان؟ لیکن دو حریف ان کے علاوہ بھی آپس میں مسلسل جنگ لڑ رہے تھے‘ یعنی ہندوستان، پاکستان۔ عملی طور پر انہوں نے اپنے سپاہی نہیں بھیجے‘ لیکن وہاں ان کی بڑی اور کھلی جنگ تھی۔ یہ بڑا تصادم مفادات کا بھی تھا۔ ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی کوششوں کا بھی اور پروپیگنڈے کا بھی۔ ان کاموں کے لیے ٹینک اور طیارے نہیں اتارے جاتے۔ پس پردہ کام کرنے والے بھیجے جاتے ہیں۔ یہ کام انٹیلی جنس ایجنسیز اور سفارت کاروں کا ہے۔ یہ کون سی ڈھکی چھپی حقیقت ہے کہ یہ دونوں ازلی دشمن کھلی جنگوں کے علاوہ بھی مختلف معاملات میں ایک دوسرے سے ٹکراتے رہے ہیں اور بیس سال تک افغانستان ان میں سے اہم ترین معاملات میں تھا۔ یہ کوئی ڈھکا چھپا معاملہ تو تھا نہیں۔
دور مت جائیے۔ ابھی جمعہ کے دن ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر نے افغانستان سے متعلق پریس کانفرنس میں جن خیالات کا اظہارکیا، وہ ہندوستانی بڑے اخبار ٹائمز آف انڈیا نے کس طرح بیان کیا‘ وہی دیکھ لیجیے۔ اخبار کے مطابق جنرل بابر نے کہا: یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ افغانستان میں انڈیا کے پیسہ لگانے، اور دیگر تمام تر سرگرمیوں کا مقصد صرف ایک ہی تھا‘ اور وہ تھا پاکستان کو نقصان پہنچانا۔ بھارت افغان عوام، ان کی فوج اور ان کی انٹیلی جنس ایجنسیز میں پاکستان کیخلاف جذبات بھڑکاتا رہا ہے۔ انڈین انٹیلی جنس ایجنسی را، افغان این ڈی ایس کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشت گردوں خاص طور پر ٹی ٹی پی کی پشت پناہی کرتی رہی ہے‘ جس نے پاکستان میں بے شمار دہشت گردانہ کارروائیاں کیں‘ ہم نے افغانستان کی افواج کو تربیت دینے کی پیشکش کی تھی لیکن صرف 6 افراد اس تربیت کیلئے پاکستان آئے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں افغانوں کو بھارتی فوج نے تربیت دی۔ ہمیشہ یہی ہوتا تھاکہ جب پاکستانی افواج مغربی سرحد پر کوئی کارروائی کر رہی ہوتی تھیں تو مشرقی سرحد پر انڈیا کی طرف سے سیزفائر کی بے شمار خلاف ورزیاں کی جاتی تھیں۔
یہ تو ہوئی ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹنگ۔ اس وقت دنیا بھر کے مبصرین یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو اس جنگ میں فتح ملی ہے اور انڈیا افغانستان میں بیس سال لگا کر بہت لوگوں کی ذہن سازی کرکے، 14 قونصل خانے کھول کر، ہزاروں افغان طالب علموں کو وظیفے دے کر اور سب سے زیادہ یہ کہ تین ارب ڈالر خرچ کرکے بھی ہار گیا ہے اور اب اس کی حکومت‘ جو ایک سکتے کی کیفیت میں ہے، آئندہ کے لیے وہ راستے ڈھونڈ رہی ہے جو موجود نہیں ہیں۔ اور بات دنیا بھر کے مبصرین ہی کی نہیں‘ خود ہندوستانی صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی بھی ہے۔ کابل میں سابقہ ہندوستانی سفیر گوتم موکوپدھیا نے طالبان کے قبضے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ افغان چہرے کے ساتھ پاکستان کی پیش قدمی ہے۔
ذرا بیس سال پیچھے جائیں جب طالبان کا پہلا دور ختم ہو چکا تھا اور مغربی طاقتوں کی پشت پناہی سے ایک نئی کابل حکومت وجود میں آچکی تھی۔ ہندوستان کو افغانستان میں ایک ایسا مستقبل نظر آنا شروع ہوا جو اس کے عزائم کے لیے مددگار ہوسکتا تھا۔ یہ سکیم 'را‘ کے سابقہ سربراہ اجیت ڈوول سے منسوب کی جاتی ہے کہ پاکستان کو مغربی سمت سے بھی گھیرا جائے‘ افغانوں کو اس کے خلاف کریدا جائے اور افغانستان کے معاملات میں ہندوستان ہر چیز میں شریک ہو۔ پاکستان کا عمل دخل اور دلچسپی تو افغانستان میں بجا تھی‘ اس لیے کہ پاکستان ان چھ ممالک میں سے ایک تھا جس کے ساتھ افغانستان کی طویل سرحد تھی‘ لیکن ہندوستان کی سرحد افغانستان کے ساتھ تھی ہی نہیں۔ یہ تیسرے گھر میں زبردستی مہمان بننے کی کوشش تھی۔ اصولاً نیٹو افواج اور امریکہ کو اس کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی لیکن پاکستان پر دباؤ قائم رکھنے اور خود پاکستان کو گھیر لینے کی خواہش کے تحت امریکہ نے اس طرف سے آنکھیں بند رکھیں۔ ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت جس میں یہ تمام ملک شامل تھے‘ افغانستان حکومت ہندوستان کی جھولی میں جاگری۔ ملک کے طول و عرض میں 14 قونصل خانے کھولے گئے جن کی بڑی تعداد پاکستانی سرحد کے ساتھ تھی۔ اس کے ساتھ ہی ٹی ٹی پی اور بی ایل اے سمیت پاکستان دشمن عناصر کی کارروائیاں پاکستان میں تیز تر ہوگئیں۔ افغان فوج کی تربیت کیلئے انہیں ہندوستان بھی بھیجا جانے لگا اور ہندوستانی تربیت ساز افغانستان بھی جانے لگے۔ افغان عوام میں پاکستان کے خلاف زہر گھولا جانے لگا‘ لیکن ان سب کے ساتھ کچھ چیزیں دنیا کو دکھانے کے بھی درکار تھیں۔ یہ بتانے کے لیے کہ ہندوستان دراصل افغانوں کی خیر خواہی چاہتا ہے، ہندوستان نے افغانستان میں پیسے خرچ کرنے شروع کیے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق ہندوستان نے افغانستان کے 34 صوبوں میں 400 سے زیادہ منصوبے شروع کیے جن میں کچھ ابھی ادھورے ہیں اور کچھ تکمیل کو پہنچ گئے۔ ان میں سلمیٰ ڈیم کا ہائیڈروپاور اور آبپاشی کا منصوبہ بھی ہے جو ہرات کے صوبے میں 2016 میں مکمل ہوا۔ زرنج دلآرام 218 کلومیٹر طویل ہائی وے بھی ہے جو اہم افغان شہروں کو ایرانی سرحد سے جوڑتی ہے۔ 150 ملین ڈالر لاگت کی یہ شاہراہ ہندوستان کے اپنے مفاد کی تھی جو پاکستان کو بائی پاس کرکے چابہار بندرگاہ سے تجارتی شاہراہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ 90 ملین ڈالر سے بنائی گئی افغان پارلیمنٹ بلڈنگ کا 2015 میں افتتاح ہوا۔ 2016 میں قصر استور کی از سر نو تعمیر، آرائش کا کام مکمل کیا گیا‘ جو ایک تاریخی عمارت تھی۔ بجلی کی ترسیل کے کئی منصوبے شروع کیے گئے‘ جن میں پل خمری سے کابل تک 220 کے وی لائن بھی شامل تھی۔ اسی طرح صحت کے شعبے میں کابل میں بچوں کا ایک ہسپتال، طبی کیمپ شامل تھے۔ مواصلات میں 400 بسیں اور 200 منی بسیں شہروں کے لیے، 105میونسپلٹی کے لیے گاڑیاں، 285 فوجی گاڑیاں اور 10 ایمبولینسز بھی ہندوستان نے دیں۔ یہ ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سب اعدادوشمار وہ ہیں جو ہندوستانی وزارت خارجہ نے جاری کیے‘ لیکن فوجی امداد، اسلحے، ہیلی کاپٹرز کا ذکر ان میں شامل نہیں ہے جن کے بارے میں حالیہ دنوں میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ طالبان کے ہاتھ ایسے بہت سے ہتھیار اور ہیلی کاپٹرز آئے ہیں‘ جو دراصل ہندوستان نے افغان فوج کو دئیے تھے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ارب ڈالرز ہندوستان نے افغانستان پر خرچ کیے اور وہ اس رقم کے بدلے دوررس فوائد کا خواہشمند اور طلبگار تھا۔
لیکن جیسا کہ کہا گیا، یہ سب خرچ اور محنت بنیادی طور پر ایک مقصد کے لیے تھے۔ افغانستان میں پاکستان کو نیچا دکھانا۔ پاکستان کی مغربی سرحد پر مسلسل موجود رہ کر بلوچستان، کے پی میں انتشار پھیلانا اور ملک دشمنوں کو مدد دینا۔ پاکستان نے شروع ہی میں اس خطرے کو بھانپ لیا تھا اور پرویز مشرف کی تباہ کن غلطیوں کے باوجود، جس نے ملک کو خون میں نہلا کر رکھ دیا، پاکستان نے اس معاملے کو دنیا بھر کے فورمز پر اٹھایا کہ ہندوستان پاکستان کے اندر دہشتگردی میں ملوث ہے۔ ہندوستان اس تمام محنت کے بعد بہت حد تک مطمئن تھاکہ اس کی محنت اور رقم رائیگاں نہیں جارہی لیکن ایسے میں طالبان کی تیزرفتار پیش قدمی، امریکی اور نیٹو فوجوں کا فرار، اور کابل حکومت کا چند دنوں میں لڑے بغیر ڈھیر ہو جانا ایسے واقعات تھے جس نے ہندوستانی حکومت، ایجنسیز، تجزیہ کاروں اور دفاعی مبصرین پر سکتہ طاری کردیا اور اب انہیں صاف نظر آرہا ہے کہ اس کی رقم اور محنت نہ صرف ضائع ہوگئی ہے بلکہ مستقبل میں اس کے پاس امکانات بہت کم بچے ہیں۔ (جاری)