تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     29-08-2021

سرخیاں، متن اور ابرار احمد

نواز شریف نے کراچی کو بوری، بھتے اور
پرچیوں سے نجات دلائی: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''نواز شریف نے کراچی کو بوری، بھتے اور پرچیوں سے نجات دلائی‘‘ لیکن جو قومی سطح پر ان کی خدمات ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں ،جن میں ملک کو اس کے وسائل سے محروم کرنا سرفہرست ہے، اگرچہ کچھ دیگر لوگوں نے بھی حسبِ توفیق یہ کیا ہے مگر ع
وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
اور دنیا کے چھ سات ملکوں میں اثاثے بنا کر ملک کا نام روشن کیا جس کی وجہ سے ہی پاکستان وہاں پہچانا جاتا ہے جبکہ وہ ایک قیمتی اثاثے ہی کی حیثیت میں لندن کو زیب دے رہے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں ممنون حسین اور ممتاز بھٹو کے انتقال پر تعزیت کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم مردہ گھوڑا اور چوں چوں کا مربہ : فرخ حبیب
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم مردہ گھوڑا اور چوں چوں کا مربہ ہے‘‘ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ بیک وقت مردہ گھوڑا بھی ہے اور چوں چوں کا مربہ بھی ، نیز سوال یہ بھی ہے کہ مربہ بنانے کے لیے یہ چوں چوں کہاں سے حاصل کیا گیا ہے کیونکہ یہاں تو اس کی پیداوار ہی نہیں ہوتی جبکہ اس کا مربہ تیار کرنا بجائے خود ایک حیرت انگیز امر ہے، کم از کم یہ ہم نے کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی آج تک اسے کسی حکیم نے ہمارے نسخے میں شامل کیا ہے جبکہ اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ اس کے ارکان ایک مردہ گھوڑے پر سوار ہیں اور وہ بھی بیٹھا یا لیٹا ہوا ہے کیونکہ مردہ گھوڑا کھڑا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ آ پ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم کے فیصلے شہباز شریف نہیں کرتے
پیپلز پارٹی اپنا مستقبل بتائے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم کے فیصلے شہباز شریف نہیں کرتے، پیپلز پارٹی اپنا مستقبل بتائے‘‘ اگرچہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کا مستقبل بھی پی ڈی ایم کے مستقبل سے کچھ مختلف نہیں ہو سکتا اور اسے پی ڈی ایم سے منہ موڑنے کی سزا بھی ملے گی اور یہ ساری میرے ٹھوٹھے پر ڈانگ مارنے کی ایک سازش تھی کیونکہ وہ فنڈنگ سے بچنا چاہتی تھی حالانکہ اس کے پاس اب بھی بہت کچھ ہے اور یہ سراسر ناشکری ہے اور قطع رحمی بھی کیونکہ اسے اندازہ ہی نہیں کہ ایک بیروزگار پر کیا گزرتی ہے جبکہ نواز لیگ نے بھی ہاتھ تقریباً کھینچ لیا ہے، اس لیے اب شہباز شریف پی ڈی ایم کے فیصلے بھی نہیں کر سکتے۔ آپ اگلے روز ملتان میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
وزیراعلیٰ کی بہترین پرفارمنس سامنے
لانا ہمارا ایجنڈا ہے: فیاض چوہان
وزیرجیل خانہ جات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''وزیراعلیٰ کی بہترین پرفارمنس سامنے لانا ہمارا ایجنڈا ہے‘‘ کیونکہ جو پرفارمنس بہترین نہیں ہوتی وہ اپنے آپ سامنے آ جاتی ہے جبکہ ان کی بہترین پرفارمنس کو ابھی سامنے آنے کا موقع نہیں ملا جس کا ہم سراغ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں اور جونہی وہ ہمارے سامنے آتی ہے ہم عوام کے سامنے بھی لے آئیں گے کیونکہ ان کی اور بعض ارکان کابینہ کی پرفارمنس ایسی نہیں ہے کہ اسے عوام کے سامنے ضرور لایا جانا چاہیے۔ آپ اگلے روز شہدا کی قربانیوں پر لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
ہم نے کبھی نہیں کہا کہ حکومت گرانا چاہتے ہیں: محمد زبیر
سابق گورنر سندھ اور نواز لیگ کے رہنما محمد زبیر نے کہا ہے کہ ''ہم نے کبھی نہیں کہا کہ حکومت گرانا چاہتے ہیں‘‘ اگرچہ ہم کافی عرصہ سے پی ڈی ایم میں شامل ہو کر اسی کار خیر میں مشغول تھے کیونکہ جو کام کرنا ہو خاموشی سے کیا جاتا ہے اور اس کا شور نہیں مچایا جاتا، تاہم یہ بیان ہماری نئی پالیسی کے عین مطابق ہے کیونکہ موجودہ صورتحال اور مسلسل ناکامیوں کے بعد ہمارے نیک ارادوں میں تبدیلی آ گئی ہے اور یہ اس تبدیلی سے سراسر مختلف ہے، جس کا دعویٰ حکومت کرتی رہتی ہے اور جونہی صورتحال ہمارے حق میں ہوتی ہے ہم اس نیک کام میں دوبارہ مشغول ہو جائیں گے۔ آپ اگلے روز کراچی سے ایک بیان جاری کررہے تھے۔
اور ، اب آخر میں ابرار احمد کی نظم
To whom it may concern
ہم تو کمزور انسان ہیں/ خطا کے پتلے/ چھوٹی چھوٹی لغزشوں پر ہر وقت شرمندہ/ اور ان گناہوں پر پشیمان/ جو ہم سے کبھی سرزد بھی نہیں ہوئے/ ہماری تذلیل کرنے کا خیال کیوں تمہیں/ پریشان کیے رکھتا ہے/ آدمی ہوتا ہی کیا ہے/ ایک بے حقیقت، بے مایہ/ خواب کے دورانیے کے سوا/ تم کیوں اس قدر جاگتی آنکھوں سے/ اپنے مقام کی تلاش میں رہتے ہو/ اور اونچی کرسی کی طلب میں/ اپنے قد سے بڑی میز کے گرد/ بیٹھنے کو مرے جاتے ہو/ تمہیں ہر وقت اپنے عروج/ میں تاخیر کا غم کھائے جاتا ہے/ اور اس تاخیر کے لیے/ تم ہمارے تنکوں جیسے وجود کو/ ذمہ دار گردانتے ہو/ یہ جانتے ہوئے بھی/ کہ تمہاری راہ کے پتھر اور ہیں/ تمہارے اندر ایک ایسی آگ بھری ہے/ جس کا خمیر حسد اور کینے سے/ اٹھایا گیا ہے/ اور جسے تم سرد نہیں ہونے دیتے/ یہ تخلیق کی آگ نہیں ہے/ ورنہ یہ بے ضرر دوستوں کے کپڑے/ جلانے کی بجائے/ ہمارے عہد کو روشنی عطا کرتی/ تم ایک ایسا قلم ہو/ جو عمروں کی محنت سے بنائی گئی/ خوبصورت پینٹنگ کو/ ایک منٹ میں سیاہ دھبے میں تبدیل کر سکتے ہو/ تمہاری ذات کے ڈرائنگ روم میں/ سر جھکائے، جوتیاں اتارے بغیر/ کبھی داخل نہیں ہوا جا سکتا/ ایسا نہ ہو ایک دن تمہارے غلام/ اپنی زنجیروں سے اکتا جائیں/ تم نے اپنی آنکھوں کو/ اپنی حفاظت پر مامور کر رکھا ہے/ اور وہ نادیدہ دشمن کو دیکھتے دیکھتے/ تھکتی جا رہی ہیں/ تم ایسے کوتوال ہو/ جس کی پُر شکوہ آمد پر/ کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا/ ایسے بادشاہ ہو/ جس کی سلطنت کی سرحد/ گھر کی چار دیواری ہے/ چھت پر چڑھے بغیر/ تمہیں سب چھوٹے دکھائی دیتے ہیں/ اور تمہاری ایک جھلک کے منتظر/ تم ایسے پیر ہو/ جس کے ماننے والے / تمہارے اپنے مجبور بچے ہیں/ خوف کھائو اس دن سے/ جب تمہارے موجودہ مرید بھی/ بڑے ہو جائیں گے/ تم چار دانگِ عالم میں/ اپنے نام کا ڈنکا بجتے سننا چاہتے ہو/ اس لیے ڈھول بجانے والوں کو/ ڈھونڈتے رہتے ہو/ محض اچھل کود سے/ عظیم کھلاڑی نہیں بنا جا سکتا/ اور بے ریا دل کے بغیر/ بڑے فنکار کا تصور بھی محال ہے/ تم نے بھی، ہم سب کی طرح/ کڑی دھوپ میں/ صعوبتوں سے بھرا طویل سفر/ طے کیا ہے/ ہماری زندگیاں ایک جیسی/ دھول سے اٹی ہوئی ہیں/ پھر تمہاری یہ مصنوعی چمک/ جاتی کیوں نہیں؟/ حضور!/ جن درختوں کی چھائوں میں کبھی آرام کیا ہو/ ان کا پھل کھایا ہو/ انہیں کاٹنا اچھا نہیں ہوتا ہے/ ابھی کچھ لوگ تمہارے لیے/ اپنے دروازے کھلے رکھتے ہیں/ تمہاری راہ میں آنکھیں بچھاتے ہیں/ تمہیں اس دن سے ڈرنا چاہیے/ جب دستک دینے پر تم سے پوچھا جائے گا/ کہ تم کون ہو؟
آج کا مقطع
زردیاں ہیں مرے چہرے پہ ظفرؔ اُس گھر کی
اُس نے آخر مجھے رنگِ در و دیوار دیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved