جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کسی جمہوری حکومت میں ہونے والی سب سے زیادہ تبدیلیاں ہیں۔ ایف بی آر کی مثال ہی لے لیجیے تین سالوں میں سات چیئرمین ایف بی آر تعینات کیے گئے ہیں۔ اوسطاً ایک چیئرمین نے پانچ مہینے پندرہ دن کام کیا ہے۔ اس سے ادارے کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے لیکن بعض اوقات سخت فیصلے وقت کی ضرورت بن جاتے ہیں۔ میں نے پچھلے کالم میں ایف بی آر سسٹم ہیک ہونے کے بارے بتایا تھا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ 14 دن گزر جانے کے بعد بھی 90 فیصد ڈیٹا ریکور ہو پایا ہے۔ ابھی بھی 10 فیصد ڈیٹا ریکیور ہونا باقی ہے۔ یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سیلز ٹیکس کے ڈیٹا کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہیکنگ کی آڑ میں کچھ کمپنیوں کا ڈیٹا جان بوجھ کر ختم کیا جا رہا ہو تا کہ سیلز ٹیکس چھپانے والوں کوفائدہ پہنچایا جا سکے۔ معاملے کو اس رخ سے دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔
میں نے ذکر کیا تھا کہ ایف بی آر کی ویب سائٹ ہیک ہو جانے کی ذمہ داری چیئرمین پر عائد ہوتی ہے جس کا احتساب ہونا چاہیے۔ وزیراعظم صاحب کی جانب سے عاصم احمد کو چیئر مین ایف بی آر کے عہدے سے ہٹانا بہتر فیصلہ محسوس ہوتا ہے لیکن یہ ناکافی ہے۔ ایف بی آر کی سائٹ ہیکنگ کے واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان کے حساس ڈیٹا تک دشمن کی رسائی ہوئی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ایف بی آر کا ڈیٹا 10 اگست سے پہلے ہی ہیکرز کے ہاتھ لگ چکا تھا جو کہ ڈارک ویب پر 26 ہزار ڈالرز میں بیچنے کے لیے لگایا گیا۔ اس کے بعد باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت 14 اگست کو ایف بی آر کی سائٹ کو غیر فعال کر دیا گیا یعنی ایف بی آر سکیورٹی کے علم میں آنے سے چار دن پہلے ہی ڈیٹا ہیک ہو چکا تھا۔ اسی پلیٹ فارم پر وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور Finance.gov.pkتک رسائی کی معلومات بھی بیچی جا رہی تھیں۔ ان اداروں کے سربراہوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ فی الحال وزیر خزانہ ڈیٹا بیچے جا نے کی خبر کی تردید کر رہے ہیں لیکن سائبر ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈارک ویب پر ڈیٹا بیچے جانے کی تفصیلات ابھی بھی موجود ہیں جسے چیک کیا جا سکتا ہے۔ عمومی طور پر ایسے معاملات میں ماہرین کی رائے ہی سچ ثابت ہوتی ہے۔ حکومت یا تو سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے حقائق سامنے نہیں لاتی اور کبھی کبھار سرکاری آفیسرز معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے اہل نہیں ہوتے۔ یاد رہے کہ شوکت ترین صاحب ایف بی آرڈیٹا ہیک ہونے سے پہلے انکار کرتے رہے لیکن بعدازاں اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا۔ اسی طرح امید ہے کہ وہ جلد ہی ڈیٹا بیچے جانے کا اعتراف بھی کر لیں گے۔ فی الحال ضرورت اس امر کی ہے کہ عاصم احمد کو کسی اور ادارے کا سربراہ لگانے کی بجائے آرام دیا جائے اور اس دوران ذمہ داری کی ادائیگیوں میں غفلت پر عدالتوں کے ذریعے ٹرائل چلنا چاہیے۔ ان لینڈ ریونیو سروس کے 21 ویں گریڈ کے آفیسرڈاکٹر محمد اشفاق احمد نئے چیئر مین ایف بی آر تعینات ہوئے ہیں۔ یہ کیاکارکردگی دکھاتے ہیں اس کا علم چند ماہ میں ہو جائے گا۔ فی الحال سب سے بڑا ہدف پانچ کھرب 829 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ٹیکس بیس بڑھائے جانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر وقار احمد کو رخصت کرنے کی ایک وجہ ٹیکس بیس اورآمدن نہ بڑھانا بھی تھا؛چنانچہ اب یہ ذمہ داری ڈاکٹر اشفاق پر ہے۔دوسری جانب وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق ڈاکٹر وقار کے مستعفی ہونے کی وجہ وزیر خزانہ شوکت ترین کے ساتھ اختلاف تھے کیونکہ یہ تاثر عام تھا کہ ڈاکٹر وقار ہر کام میں مداخلت کرتے ہیں لیکن جس کام کے لیے انہیں رکھا گیا ہے اسے پورا نہیں کرتے۔ بظاہر وزیراعظم کے یہ دو فیصلے بہتر محسوس ہوتے ہیں جس سے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
نئے چیئر مین ایف بی آر نے بھی آتے ہی بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کر دی ہیں جو کہ موجودہ حالات میں ناگزیر تھیں۔ تقریباً ً24 آفیسرز کو تبدیل کیا گیا ہے جن میں اچھی شہرت کے آفیسرز بھی ہیں اور بری شہرت والے بھی۔ جمعہ کو جاری کیے گئے نوٹس کے مطابق 21 گریڈ کے 14 اور 20 گریڈ کے 10 آفیسرز کے تبادلے کیے گئے ہیں۔ بورڈ کے اہم آفیسرز میں سے صرف دو تبدیل نہیں کیے گئے‘ جن میں سے ایک کو بے نامی زون میں تعینات کیا جا رہا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ اس طرح کی پوسٹنگ کے لیے وفاقی کابینہ سے منظوری کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس وقت پاکستان کی سیاست کا مرکز ہی بے نامی اکاؤنٹس ہیں۔ تحریک انصاف کے طرز حکومت کو مدنظر رکھا جائے تو یہ بات سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی ہے کہ اتنی اہم سیٹ پر وہ اپنے من پسند آفیسر کو ہی تعینات کریں گے۔ اس کے علاوہ اشفاق احمد تونیو کو ممبر انفارمیشن ٹیکنالوجی لگا دیا گیا ہے۔ پہلے اس عہدے پر ساجد اللہ صدیقی کام کر رہے تھے۔ یہ پوسٹنگ انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ آئی ٹی ڈپارٹمنٹ تقریباً 80 ملین ڈالرز کی خریداری کرنے جا رہا ہے جس میں شفافیت ہونا ضروری ہے۔یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جلد بازی میں خریداری سے بہت سے لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے چیئرمین اور وزیراعظم کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح چینی اور آٹا مافیا کے سکینڈلز سامنے آئے ہیں ایک اور سیکنڈل منظر عام پر آ جائے۔
ایک طرف ایف بی آر کی نااہلی نے حکومتی تین سالہ کارکردگی کا پول کھول دیا ہے اور دوسری طرف مہنگائی کا آنے والا طوفان عوام اور سرکار کے لیے مزید مشکلات پیدا کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں اگر حکومتی اور اپوزیشن کے ووٹرز کسی ایک بات پر متفق ہیں تو وہ مہنگائی کا بڑھنا ہے حتی کہ وزیراعظم صاحب بھی اپنی تقریر وں میں اعتراف کر چکے ہیں کہ ملک میں مہنگائی ہے لیکن اس کے سدباب کے لیے حکومتی کوششیں دکھائی نہیں دے رہیں۔ مانیٹری اینڈ فسکل پالیسیز کوآرڈی نیشن بورڈ نے بجلی پر دی جانے والی 170 ارب روپے کی سبسڈی ختم کرنے پر آمادگی کا اظہار کر دیا ہے۔ میں نے پچھلے کالموں میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ حکومت بجٹ میں بجلی کی قیمتیں نہ بڑھانے کا اعلان کر کے غلط بیانی سے کام لے رہی ہے حقیقت میں سرکار ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ساتھ بجلی کی قیمتیں بڑھانے کا معاہدہ کر چکی ہے۔ آج حکومتی فیصلے نے خبر کی تصدیق کر دی ہے۔سبسڈی 300 کی بجائے 200 یونٹس تک محدود کر دی گئی ہے۔ ہدف طے کیا گیا تھا کہ سبسڈی 240 ارب روپے سے کم کر کے 120 ارب روپے تک لائی جائے جسے حاصل کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیوب ویلز پر سبسڈی 75 ارب روپے سے 25 ارب روپے پر لانے کا ہدف ہے جسے ممکنہ طور پر موٹر کے سائز کی بنا پر دیا جائے گا۔ کمیٹی نے اس کی منظوری دے کر معاملہ وزیراعظم صاحب کو بھجوا دیا ہے۔ جہاں ممکنہ طور پر اسے قبول کر لیا جائے گا اور ملک میں مہنگائی کا نیا طوفان امڈ آئے گا۔
جن دو چیزوں پر سے سبسڈی ختم کی گئی ہے اس کا براہ راست اثر غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں پر پڑ رہا ہے لیکن امیر طبقے کے گرد شکنجہ تنگ کرنے کا کوئی راستہ نہیں نکالا جا رہا۔ امرا کے احتساب کا مؤثر راستہ ایف بی آر سے ہو کرگزرتا ہے۔ اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے نئے ایف بی آر چیئر مین کو سخت فیصلے کرنا ہوں گے تا کہ عوام میں یہ تاثر جا سکے کہ حکومت کسی مخصوص طبقے کے ساتھ نہیں ہے اور یہ تمام اقدامات ملکی آمدن بڑھانے اورمعیشت کو درست راستے پر رکھنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔