تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     29-08-2021

’’یہ سب کچھ تو ہمارا ہے ہی نہیں‘‘

دنیا میں بہت کچھ ہے۔ ہمیں بھی بہت کچھ ملا ہے۔ ایسا بہت کچھ ہے جو ہمارا ہونا چاہیے مگر ہمارا نہیں۔ اور ایسا بھی بہت کچھ ہے جو ہمارے لیے نہیں مگر ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ بعض حالات میں ہمارا اپنی زندگی پر کچھ خاص اختیار نہیں ہوتا۔ ہم چاہیں بھی تو بہت سے معاملات کو اپنے حق میں درست نہیں کرسکتے۔ عام آدمی کو بالعموم اندازہ بھی نہیں ہو پاتا کہ کب اُس کی زندگی میں غیر متعلق معاملات داخل ہوتے ہیں اور کب کام کی باتیں ایک طرف یا بالائے طاق رہ جاتی ہیں۔
ڈاکٹر عتیق بھی خوب ہی واقع ہوئے ہیں۔ لوگ اُن کے پاس جو شکایات لے کر پہنچتے ہیں وہ تو ایک طرف پڑی رہ جاتی ہیں اور موصوف معاشرے کے انحطاط اور اخلاقی و تہذیبی اقدار کی پامالی پر اظہارِ خیال فرماکر اچھی خاصی ''برین واشنگ‘‘ فرماتے ہیں۔ کل بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ہماری اکلوتی نورِ نظر صباحت نے سینے میں معمولی سی تکلیف کا ذکر کیا تو ہم اُسے لے کر ڈاکٹر عتیق کے پاس پہنچے۔ صد شکر کہ سینے کی تکلیف خطرناک نہیں تھی۔ غالباً گیس کے نتیجے میں یہ شکایت پیدا ہوئی تھی۔ بلڈ پریشر بھی قابو میں تھا۔ ڈاکٹر صاحبان جب مرض کی تشخیص کرنے کی راہ پر سفر شروع کرتے ہیں تو سوال داغتے چلے جاتے ہیں۔ مقصود یہ ہوتا ہے کہ باتوں باتوں میں اصل سبب تک پہنچا جائے اور تدارک کی سبیل نکالی جائے۔ خیر‘ باقی تمام معاملات ایک طرف ہٹاکر ڈاکٹر عتیق نے پہلا سوال یہ کیا کہ نیم دراز حالت میں موبائل فون دیکھنے کی عادت تو نہیں ہے۔ یہ ایک منطقی استفسار تھا کیونکہ فی زمانہ نئی نسل موبائل فون استعمال کرنے کی اس قدر عادی ہے کہ ایسے کسی بھی استفسار کا درست جواب ملنے پر ڈاکٹر کو مرض کی جامع تشخیص میں خاطر خواہ حد تک مدد مل سکتی ہے اور ملتی ہی ہے۔
موبائل فون کے بعد باری آئی ماحول سے مطابقت یا عدم مطابقت رکھنے والے معاملات کی۔ بات جب معمولات تک پہنچی تو معمولاتِ خوراک تک پہنچے بغیر نہ رہ سکی۔ پاکستان میں کسی بھی ڈاکٹر کے لیے مرض کی بہترین تشخیص کھانے پینے کے بارے میں پوچھے بغیر ممکن نہیں اور اس سے آسان طریقہ بھی کوئی نہیں۔ لوگ سوچے سمجھے بغیر اور بعض حالات میں تو محض دل پشوری کے لیے خدا جانے کیا کیا کھا جاتے ہیں اور پھر ڈاکٹرز کی طرف بھاگتے ہیں۔ اب کم و بیش پورا معاشرہ ہی کھانے پینے کے معاملات میں حُسن و توازن کھوچکا ہے۔ ڈاکٹر عتیق کو آپ اُن لوگوں میں شمار کیجیے جو کھانے پینے کے معاملے میں اختیار کی جانے والی لاپروائی کو کبیرہ گناہوں کے زُمرے میں رکھنے کے حامی ہیں! دانش و حکمت سے تعلق رکھنے والے ہر ڈاکٹر کی طرح اُن کا بھی یہی کہنا ہے کہ انسان کھانے پینے کی بے ہنگم عادات کے ہاتھوں بُرے حال کو پہنچتا ہے۔ اُن کی بات ہے بھی ایسی کہ متفق ہوئے بغیر چارہ نہیں۔
نئی نسل نے ایسا بہت کچھ اپنالیا ہے جو مجموعی طور پر ہمارا ہے ہی نہیں۔ ڈاکٹر عتیق کے لیے یہ بات بہت رنج کی ہے کہ ہم نے اپنی اخلاقی اور تہذیبی اقدار کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کے معاملات میں بھی دوسروں اور بالخصوص گوروں کی غلامی اختیار کرلی ہے۔ بچے بھی بہت کچھ الٹا سیدھا کھاتے رہتے ہیں اور نوجوان تو خیر اس معاملے میں الل ٹپ ہی واقع ہوئے ہیں۔ دن بھر کچھ نہ کچھ کھاتے پیتے رہنے کی عادت ایسی پروان چڑھی ہے کہ اب اِس سے جان چُھوٹتی دکھائی نہیں دیتی۔ لوگ پانی کم پیتے ہیں اور ٹھنڈے‘ کاربونیٹیڈ مشروبات پر زیادہ فریفتہ دکھائی دیتے ہیں۔ جو لوگ کاربونیٹیڈ مشروبات کم و بیش یومیہ بنیاد پر پیتے ہیں اُن کی صحت بہت تیزی سے جواب دے جاتی ہے کیونکہ ''تیز پانی‘‘ پیٹ میں پہنچ کر بہت تیزی دکھاتا ہے اور جب تک معاملہ کھل کر سامنے آتا ہے یعنی اندر ہی اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کا پتا چلتا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ یہ معاملہ دو چار افراد کا نہیں بلکہ اس وقت معاشرے میں اکثریت اُن کی ہے جو کھانے پینے کے معاملات میں لاپروائی برتنے کے نتیجے میں مختلف عوارض کا شکار ہوکر اپنی زندگی کو خواہ مخواہ داؤ پر لگارہے ہیں۔
عصرِ حاضر کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ اہلِ پاکستان کی اکثریت کھانے پینے کے معاملے میں قطعی لاپروا واقع ہوئی ہے۔ بھوک لگی ہو تو انسان کچھ بھی کھا لیتا ہے۔ یہ بالکل فطری بات ہے۔ یہاں معاملہ ہے کہ بھوک لگی ہو یا نہ لگی ہو‘ جب بھی دل چاہتا ہے کچھ نہ کچھ کھالیا جاتا ہے۔ بھوک نہ ہونے کی صورت میں کھانے پینے سے بہت کچھ الٹ پلٹ جاتا ہے۔ پیٹ کو طلب نہ ہو اور صرف زبان چٹخارا مانگ رہی ہو تب کھانے پینے سے معاملات خرابی ہی کی طرف جاتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ آج ہمارے ہاں کھانے پینے کی عادات انتہائی بے ہنگم ہوچکی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ معاملہ پیچیدہ تر ہوتا جارہا ہے۔
ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے کھانے پینے کے شوق میں اپنے اور بیگانے کا فرق بھی فراموش کردیا ہے۔ ڈاکٹر عتیق کہتے ہیں کہ آج ہمارے ہاں ایسا بہت کچھ کھایا جارہا ہے جو کسی بھی اعتبار سے ہمارا ہے ہی نہیں۔ جو اقوام قدرے پھیکے کھانے کھاتی ہیں اُن کی ڈشیں بھی ہمارے ہاں شوق سے کھائی جارہی ہیں۔ کھٹے‘ میٹھے اور تیکھے آئٹم تو سمجھ میں آتے ہیں‘ پھیکے اور بے ذائقہ پکوان کس خوشی میں اپنائے جارہے ہیں؟
ملبوسات کے فیشن پر غور فرمائیے۔ جن کپڑوں میں ہم اچھے لگتے ہی نہیں وہ بھی خوب پہنے جارہے ہیں۔ اس معاملے میں خواتین کا معاملہ بہت قابلِ رحم ہے کیونکہ وہ بہت سے ایسے ملبوسات بھی اپناتی ہیں جنہیں زیبِ تن کرنے سے دل کشی تو کیا بڑھے گی‘ اچھی خاصی شخصیت مضحکہ خیز ہو جاتی ہے۔ جو کچھ کبھی صرف سرکس میں پہنا جاتا تھا وہ آج کل شرفا کی اولاد نے اپنالیا ہے اور وہ بھی اچھی خاصی دل جمعی سے۔ کھانے پینے کے معاملے میں برتی جانے والی لاپروائی بھی ایسے ہی نتائج پیدا کر رہی ہے۔ جو آئٹم ہمارے موسم اور مزاج کے مطابق ہیں ہی نہیں وہ بھی ہم نے اپنا رکھے ہیں۔ فاسٹ فوڈ کے نام پر ایسی چیزیں کھائی جارہی ہیں جو ہماری زندگی کو فاسٹ فارورڈ کر رہی ہیں۔ بہت سے مشروبات محض تنوع کی خاطر پیے جارہے ہیں۔ اُن سے جسم کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی جارہی۔ ڈاکٹر عتیق نے اس بات پر بہرحال اطمینان کا اظہار کیا کہ بیشتر بچے اب بھی بریانی شوق سے کھاتے ہیں۔ بریانی بہرحال فاسٹ فوڈ کے نام پر کھائی جانے والی بے ڈھنگی چیزوں سے تو بہتر ہے اور ہماری درخشاں روایات کا حصہ بھی ہے۔ بریانی اور ایسے ہی چند دوسرے کھانوں کے ذریعے ہم اپنے شاندار ماضی سے جُڑے ہوئے ہیں۔ ہم اپنے بہت سے اچھے کھانے چھوڑ کر دوسرے خطوں کی ایسی ڈشوں کی غلامی اختیار کرتے جارہے ہیں جن میں ذائقہ برائے نام ہے۔ یورپ اور وسطِ ایشیا کے کئی پھیکے پکوان اپناکر ہم نے اپنے منہ کا ذائقہ خراب کرلیا ہے۔
اور صرف کھانوں اور کپڑوں ہی کا کیا رویا جائے؟ یہاں تو قدم قدم پر ایسی چیزیں ہیں جو ہماری نہیں ہیں مگر ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ جب کوئی قوم اپنی ثقافت بھول کر دوسروں کی ثقافت و روایات کو کسی واضح جواز کے بغیر اپناتی ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ کھانے پینے کے معاملات ہوں یا نظریات‘ اخلاقی اقدار ہوں یا عملی زندگی کے اطوار‘ جب ہم یہ طے کرلیتے ہیں کہ اپنے اجتماعی وجود کے لیے اثاثہ سمجھی جانے والی اشیا کو نظر انداز کرتے رہنا ہے تب معاملات اجتماعی خرابی کی طرف جاتے ہیں۔ سوچے سمجھے بغیر اپنائی جانے والی روایات اور نظریات کے بطن سے بھی ویسی ہی پریشانیاں ہویدا ہوتی ہیں جیسی غیر متعلق کھانوں کو نذرِ شکم کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔
دنیا بھر کی متعلق و غیر متعلق اشیا و خدمات اور نظریات و رجحاجات کو اپنانے کے نتیجے میں آج ہم نفسی اور فکری اعتبار سے بند گلی میں کھڑے ہیں۔ اس بند گلی سے ہمیں کسی نہ کسی طور باہر نکلنا ہے تاکہ سفر جاری رکھنے کی سبیل نکلے۔ کھانے ہوں‘ کپڑے ہوں یا پھر نظریات ... جو کچھ ہمارا ہے اُسے دل و جان سے اپنایا جائے اور جو کچھ کسی بھی درجے میں ہمارا نہیں اُس کی غلامی ترک کردینے ہی میں ہمارے لیے عافیت کا سامان ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved