تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     29-08-2021

دانستہ پسپائی

''نکل بھاگے‘‘، ''چھوڑ دیا‘‘، ''ہوا کے جھونکے کے ساتھ بکھر گئے‘‘ افغانستان کے تکلیف دہ مناظر سے اسی کی عکاسی ہوتی ہے۔ امریکی فضائیہ کا ایک طیارہ پرواز کرنے جارہا ہے ۔ لوگ اس کے پہیوں کے ساتھ لٹکے ہوئے ہیں۔ جب طیارہ ہوا میں بلند ہوتا ہے تووہ گرکے جاں بحق ہوجاتے ہیں۔کابل ائیرپورٹ پر ہزاروں افرادجمع ہیں۔ دھکم پیل کرتے ہوئے اس طرح جہازوں پر چڑھ رہے ہیں جیسے یہ شہر میں چلنے والی بس ہوتی ہو۔عمارتوں کی چھتوں پر ہیلی کاپٹر اتررہے ہیں۔ بینکوں کے باہر رقم نکلوانے والوں کی طویل قطاریں لگی ہیں۔ اس دوران اشرف غنی بھی تیزی سے ہوائی جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کسی ہمسایہ ملک میں غائب ہوچکے ہیں۔ افغان عوام مزید خوف‘ مایوسی اور غیر یقینی پن کا شکار ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ جو لوگ عشروں سے اُن کے نجات دہندہ اور مسیحا کہلانے کے دعوے دار تھے وہ اُن کے ملک کو بے آسرا ‘ کسی حکومت‘ پولیس‘ فوج‘ انتظامیہ‘ سرکاری ایجنسیوں کے بغیر حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ کر فرارہورہے ہیں۔
یہ مناظر ناقابلِ یقین ہیں ۔ چند ہزار لوگوں نے پرانی بندوقوں اور بے سروسامانی کے عالم میں دولت اور اسلحے کی بے پناہ طاقت کو اُڑا کررکھ دیا ۔ جو کچھ ہوا ہے وہ تعجب خیز تو نہیں لیکن جس رفتار سے اس کے اختتامی مناظر دیکھنے میں آئے وہ ناقابل یقین ہے ۔ ہر طرف سے ہر قسم کے بیانات آرہے ہیں ۔ امریکا اور اقوام متحدہ اپنے لوگوں کو بحفاظت کابل سے نکالنے کی یقین دہانی کرارہے ہیں لیکن جو پیچھے رہ جائیں گے کیا اُن کے بارے میں کوئی سوچنے کی زحمت کررہا ہے ؟ کیا کوئی منصوبہ سازی کررہا ہے کہ سکیورٹی کے بغیر ایک ملک کس طرح محفوظ ہوگا؟ کیا ایئرپورٹ‘ بینکوں اور سڑکوں پر مچی ہوئی افراتفری کی کسی کو تشویش ہے ؟ وہ جو چند دن پہلے تک بیان دے رہے تھے کہ افغان فوج طالبان کی پیش قدمی کو روکنے کے قابل ہے ‘ اب الفاظ اُن کا ساتھ نہیں رہے ہیں ۔ وہ خود بد حواس ہیں ۔ امریکی تاریخ کی اس طویل ترین جنگ میں ہونے والی سب سے بڑی خرابی امریکا کے جدید ترین انٹیلی جنس نظام کے اندازے کی مہان غلطی تھی ۔
1۔ غیر ملکی تسلط غیر ملکی ہی رہتا ہے : امریکی طرز کا کنٹرول اور قبضہ ایک بوجھ بن جاتا ہے ۔ ویت نام نے یہ بات واضح کردی تھی لیکن افغانستان نے تو اس حقیقت کو بالکل بے نقاب کردیا ہے ۔ سوشل میڈیا کے توانا بازو رکھنے والاامریکا ‘ بھارت اور اتحادیوں کا بیانیہ بھی اس امتحان میں ناکام ہوگیا۔ پہلے افغانستان کی تعمیرِ نو کا دعویٰ کیا گیا۔ اس کے بعد انسانی بنیادوں پر امداد کی بات کی گئی ۔ پھر افغان فوج کی سکت بڑھانے کی نوید سنائی گئی۔ یہ سب دعوے یکے بعد دیگرے ہوا میں تحلیل ہوتے گئے۔ امریکی نظام اور مغربی اقدار نافذ کرنے کی جتنی کوشش کی گئی ‘سخت جان افغانوں کی طرف سے اتنی ہی مزاحمت بھی دیکھنے میں آئی ۔ طاقت کا مقابلہ تشدد سے کیا جانے لگا۔ تشدد کے جواب میں مزید بمباری کی گئی ۔ خون کے بدلے مزید خون بہانے کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا ‘ لیکن آخر کار قابض فورس کو رخصت ہونا پڑا ۔ اُنہیں پتہ چل گیا تھا کہ وہ انسانوں کو تباہ کرسکتے ہیں‘ اُن کی جان لے سکتے ہیں‘ لیکن نظریات کو ختم نہیں کرسکتے ۔
2۔ سبق سیکھنے کا عمل : اگرچہ امریکی اپنی غلطیوں سے کوئی سبق سیکھتے دکھائی نہیں دیتے ‘ طالبان نے اپنی غلطیوں سے ضرور بہت کچھ سیکھا ہے ۔ وہ غیر متوقع طور پر کابل میں پر امن طریقے سے داخل ہوئے اورسب کے لیے عام معافی کا اعلان کردیا۔ عالمی برادری کے لیے یہ بھی چونکا دینے والی خبر تھی ۔ وہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ طالبان قتل وغارت گری کا بازار گرم کریں گے تو اُنہیں افغانستان پر حملے کا جواز مل جائے گا لیکن اب اتحادیوں کے پاس نہ الفاظ تھے اور نہ حکمت عملی ۔ اس کا جائزہ لیے جانے کی ضرورت ہے کہ جو تدبیرSaigon (ویت نام) میں ناکام ہوئی ‘ اسے کابل میں کیوں دہرایا گیا ؟ اس پر نظر ثانی کی ضرورت کیوں محسوس نہ کی گئی ۔دیگر ممالک پر قبضہ کرنے ‘ اپنا تسلط جمانے اور تباہی پھیلانے کے شغف کا محاسبہ ہونا چاہیے ۔
3۔ منتخب شدہ راہ نما: امریکا کا ایک مسئلہ شر وع سے ہی رہا ہے۔ وہ ہمیشہ کٹھ پتلی حکومتوں کی مدد کرتے ہیں ۔ اشرف غنی اپنے ذاتی ایجنڈے پر گامزن تھے ۔ اُن کی بدعنوانی کوئی راز نہیں۔ وہ بھارتی ایجنڈے کے مطابق پاکستان کے خلاف کام کررہے تھے۔ صرف یہی نہیں‘ وہ امریکا کو بھی گمراہ کن معلومات فراہم کررہے تھے ۔ صدر بائیڈن نے اپنی تقریر میں تسلیم کیا کہ صدر غنی اُن سے کہتے رہتے تھے کہ افغان فورسز اپنے طور پر لڑنے کے قابل ہوچکی ہیں۔ حامد کرزئی سے لے کر اشرف غنی تک امریکیوں کی کوشش تھی کہ یہاں کی کٹھ پتلی حکومتوں کوخوش رکھا جائے لیکن ایسے انتخاب میں مسئلہ یہ ہے کہ قوم پر مسلط کیے گئے راہ نما خود غرض ہوتے ہیں ۔ اُن کے دل میں نہ عوامی مفادات کے لیے کئی جگہ ہوتی ہے اور نہ ہی امریکہ کے لیے ۔
تو کیا اس وقت سب کچھ ہاتھ سے نکل چکا؟ نہیں۔ پاکستان اور دنیا کو کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے ؟
1۔ رابطے میں رہیں اور بات چیت کی راہ نکالیں: پاکستان کا موقف کہ وہ امن کا شراکت دار ہے ۔ امریکہ اوردنیا کو تمام افغان دھڑوں کی شمولیت سے افغانستان میں حکومت قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔پر امن مذاکرات جاری رہنے چاہئیں ۔ پاکستان کو تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت ہے ۔پاکستان مغرب اور افغانستان کے درمیان پُل کا کردار ادا کرسکتا ہے ۔ اس وقت پاکستانی سفارت خانہ غیر ملکیوں کو ویزے کے حصول کے لیے سہولت فراہم کررہا ہے ۔ اسے دیگرامور کا بھی سہولت کار بننا چاہیے ۔ برطانیہ‘ جرمنی ‘ ڈنمارک کے سربراہوں کا پاکستانی وزیر اعظم سے بات کرنا خوش آئند ہے۔ خطے میں امن‘ استحکام اور سکیورٹی کو یقینی بنانے والے ملک پاکستان کے ساتھ تزویراتی ابلاغ جاری رہنا چاہیے ۔
2۔ انسانی وسائل کی ترقی پر توجہ : سب سے اہم شعبہ یہی ہے ۔ انسانی وسائل کی ترقی کے لیے تعلیم اور صحت ناگزیر ہیں۔ طالبان نے اعلان کیا ہے کہ اب وہ لڑکیوں کی تعلیم اور اُن کے ملازمت کرنے پر قدغن نہیں لگائیں گے ۔ پاکستان کو اس بات کو آگے بڑھانا چاہیے کیوں کہ دونوں ممالک کے مخصوص علاقہ جات کا کلچر مماثلت رکھتا ہے ۔ خیبرپختونخوا میں تعلیم اور صحت کے ماڈل نے صوبے میں تحریک انصاف کو دوبارہ انتخابی کامیابی دلائی ۔ اسی ماڈل کو افغان مقامی ثقافت کے ساتھ ہم آہنگ کرکے رائج کیا جاسکتا ہے ۔ پاکستان کو ترقیاتی کاموں میں مدد دینے والی ایجنسیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے ساتھ مل کر انسانی مسائل پر قابو پانے کے لیے قائم ہونے والی نئی افغان حکومت کی مدد کریں ۔
3۔ تجارت اورعلاقائی ترقی کو سہولت دیں: افغانستان ایشیا کا دل ہے ۔ یہ وسطی ایشیا کی راہداری ہے ۔پاکستان قائم ہونے والی نئی افغان حکومت کی حوصلہ افزائی کرے کہ وہ بھی وسطی ایشیائی ترقی کے تصور کا حصہ بنے ۔ ٹرانزٹ ٹریڈ‘ ریلوے لائن ‘ سی پیک اور گوادر وہ مفید منصوبے ہیں جو دہشت گردوں اور اُن کے سرپرستوں کا ہدف ہیں ۔
پاکستان کے لیے یہ تاریخ کا فیصلہ کن لمحہ ہے ۔ دنیا نے افغانستان میں بیس سال تک جنگ لڑ کر دیکھ لی ۔ اب اگلے بیس سال تک امن کو موقع ملنا چاہیے ۔ افغانوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا موقع ملنا چاہیے ۔ ضروری ہے کہ ملک اپنی ثقافت اور اقدار کو ترقی دے ۔ افغانوں کو امن سے رہنا چاہیے ۔ امریکااور اس کے اتحادی افغانستان سے منہ موڑ کر فرار ہورہے ہیں ۔ لاتعلق ہوجانے سے لے کر قبضہ کرنے اور پھر لاتعلق ہونے کا تسلسل تباہی کا نسخہ ہے ۔ اس کے برعکس‘ اس کے ساتھ رابطے میں رہنا امن کے لیے ضروری ہے ۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اس کے لیے سنجیدہ تزویراتی حرکیات کا موقع ہے ۔ پاکستان کثیر جہتی کردارادا کرسکتا ہے ۔ یہ خطے میں امن کا سہولت کاربن سکتا ہے ۔ یہ افغانستان میں مغربی اتحادیوں کو سروسز فراہم کرنے کے علاوہ طالبان اور عالمی برادری کے درمیان رابطے کا پل بن سکتا ہے ۔ اسے یقینی بنانا ہے کہ افغانستان سے دہشت گردی کا صفحہ پھاڑ دیا گیا ہے ۔ اگر یہ کردار کرنے میں غفلت ہوگئی تو ہاتھ آئے مواقع ضائع ہوجائیں گے ۔ لیکن اگر پاکستان نے اپنا کردارمہارت اور عمدگی سے نبھایا تو یہ خطے کی ترقی‘ روابط اور خوش حالی کا مرکزی اور فعال عامل بن جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved