تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     30-08-2021

یہ بچے اگر آپ کے ہوتے؟

یہ دل خراش مناظر ہر صبح سویرے کئی سالوں سے اسلام آباد کے اس حصے میں‘ جہاں ٹھکانہ ہے‘ مسلسل دیکھ رہا ہوں۔ دل کڑھتا نہیں‘ دُکھتا ہے۔ اپنی‘ معاشرے اور حکومت کی بے بسی پر ترس آتا ہے۔ طلوع آفتاب سے ایک ساعت پہلے گھر سے باہر نکل کر قریبی پارک میں واک روزانہ کا معمول ہے۔ میرے گلی میں نکلنے اور پارک میں جانے سے بھی پہلے میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس اکثر ننگے پائوں بچوں کی ٹولیاں مرکز کی طرف دوڑتی نظر آتی ہیں۔ کچھ بوریاں ہاتھوں میں اٹھائے کچرے کی دھاتی ٹوکریوں سے پلاسٹک کی بوتلیں تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ پارک سے فارغ ہو کر یہ بچے چوکوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور سارا دن اشاروں پر رکی گاڑیوں کا پیچھا کرتے ہیں۔ ہر گاڑی کی کھڑکی پر ٹھونگا مار کر اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا ہے کہ گھر کے بڑے موٹر سائیکلوں پر چار چار پیچھے بٹھائے شہر کے مختلف مقامات پر بچوں کو بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ آتے ہیں۔ ان کے درمیان آپ عورتوں کو دیکھ سکتے ہیں‘ جو شیر خوار بچے بغل میں دابے خیرات مانگ رہی ہوتی ہیں۔ معذور افراد اخبار یا کھلونے تھامے گاڑیوں کا پیچھا اب تو وطنِ عزیز کے ہر شہر میں کر رہے ہوتے ہیں۔ بھیک مانگنا ضرورت نہیں پیشہ بن چکا ہے۔ کئی علاقوں میں مشاہدہ کیا ہے کہ بڑے شہروں میں بھیک مانگنے والے اپنی آبائی بستیوں میں سود پر قرضے دینے کا کاروبار کرتے ہیں۔ شہروں میں بھیک مافیا کے کئی گروہ ہیں‘ جو ٹریفک سگنلز پر کھڑے پیشہ ور گداگروں سے باقاعدہ حصہ وصول کرتے ہیں۔ ان کی مرضی اور اجازت کے بغیر کوئی گداگر ایک منٹ بھی نہیں ٹھہر سکتا۔ عورتیں‘ معذور اور بچے‘ سب ان کے اور اہل خانہ کے لیے گداگری کا پیشہ کرتے ہیں۔ کتنی شرمناک بات ہے کہ ہماری شہری انتظامیہ‘ پولیس اور سیاسی حکومتیں یہ سب کچھ روزانہ دیکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرتیں۔
میں آج صرف گداگروں اور ایسے بچوں کے بارے میں کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں‘ جنہیں اس دھندے اور دوسرے کاموں میں ڈال کر تعلیم سے محروم کیا جا رہا ہے۔ جن بچوں کی بات میں نے شروع میں کی‘ وہ سب افغانستان کے مہاجرین ہیں اور اب کے نہیں‘ بیالیس سال سے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ سرخ فوج کی افغان جنگ کے مظلوم۔ انہیں چونکہ روزانہ دیکھتا ہوں‘ معلوم ہوتا ہے کہ کبھی نہانے کے لیے یا کپڑے دھونے کے لیے پانی تک نصیب نہیں ہوا۔ میاں نواز شریف کی تیسری حکومت کے نامور وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان‘ جن کے لیے دل میں بہت عزت و احترام ہے‘ نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ اب آپ کسی بھیک مانگنے والے کو اسلام آباد کے چوکوں میں نہیں دیکھیں گے۔ چودھری صاحب تو ناراض ہو کر کناروں پر بیٹھ گئے‘ ان کے بعد نہ جانے کتنے وزیر داخلہ آئے اور گئے‘ لیکن ابھی تک تو کوئی کچھ نہیں کر سکا۔ سوچتا ہوں‘ ان معصوم بچوں کی زندگی محفوظ کرنے کی ذمہ داری معاشرے میں کون اٹھائے گا‘ اگر والدین ہی انہیں ایسے کاموں میں ڈال دیں؟ یہ بھی میرے ذاتی مشاہدے میں ہے کہ رمضان کے مہینے میں سرائیکی وسیاب کے علاقوں سے والدین اپنے بچے گداگر گھرانوں کو دیہاڑی پر دیتے ہیں۔ گداگر ان بچوں کو بڑے شہروں میں لا کر ان سے سارا دن پیسے اکٹھے کرنے کا کام سخت نگرانی میں کراتے ہیں۔ اسی طرح افغان بچوں کو بھی ان کے اہل خانہ نے بھکاری بنایا ہوا ہے۔ دن بھر میں ہر بچہ سینکڑوں بنا لیتا ہے۔ بڑی گاڑیوں میں بیٹھے خواتین و حضرات ترس کھا کر صدقے میں چھوٹے بڑے نوٹ ہاتھ باہر نکال کر دے مارتے ہیں اور مانگنے والے کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ کچھ تو آپ ترس کریں کہ اس قسم کی بیہودہ حرکت سے آپ ان کو بھکاری بنا رہے ہوتے ہیں‘ ترغیب دے رہے ہوتے ہیں اور حوصلہ افزائی کر رہے ہوتے ہیں کہ پیشہ ور گداگر زیادہ تعداد میں بچے چوکوں پر لائیں۔ کدھر ہے ہماری ریاست؟ کہاں ہیں باہر کے ملکوں میں کھربوں چھپانے والے سیاست دان اور ہمارا اقدار پر قابض حکمران طبقہ؟ کہاں ہے وزیر اعظم عمران خان کی ''ریاستِ مدینہ‘‘؟ کتنا مشکل کام ہے بچوں کی گداگری اور بھکاری مافیا کو ختم کرنا؟ نہ جانے اس دکھ پر کتنا کچھ میرے جیسے کئی لوگ لکھ چکے ہیں؟ کچھ بھی تو تبدیل نہیں ہوتا۔
آپ ہوں یا میں‘ خود تعلیم سے ہی سنورے ہیں۔ لاکھوں بلکہ کروڑوں بچوں کی زندگیاں ہماری آنکھوں کے سامنے برباد ہو رہی ہے‘ اور ہم اقتدار کی جنگ اور ایک دوسرے کو گرانے اور پست کرنے کی بیکار سیاست میں پڑے ہوئے ہیں۔ روزانہ سکرینوں پر بھی وہی چہرے‘ ان کی کہانی‘ ان کی کرپشن اور بد عنوانی کا دفاع ہوتا ہے۔ میں نے تو ان بھکاری بچوں اور شیر خوار بچوں کو بغل میں لٹکائے بھیک مانگتی عورتوں کے بارے میں اپنے سینکڑوں چینلوں پر آج تک کوئی پروگرام نہیں دیکھا۔ اس کے لیے تو سیاسی اور سماجی تحریکوں کی ضرورت ہے۔ یہ کام فرد یا سماجی تنظیمیں نہیں کر سکتیں۔ یہ ذمہ داری ریاست کی ہے۔ گداگری ساری دنیا میں جرم ہے۔ شاید ہماری قانون کی بوسیدہ کتابوں میں بھی ہو‘ مگر جب معاشرے اور سیاست میں اعلیٰ عہدے حاصل کرنے والوں کے بارے میں قانون اور انصاف کا رویہ لچک دار ہو تو پھر تپتے موسموں میں بے چارے بھکاریوں کو کیوں ان کے حال پر چھوڑ کر ہم گھروں کے ٹھنڈے کمروں میں آسودہ رہیں؟ بچوں کی گداگری میرے نزدیک اجتماعی جرم ہے اور سب سے بڑے مجرم وہ ہیں‘ جن کی قانونی اور انتظامی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو اس ظالمانہ دھندے سے محفوظ کریں۔
مجھے یاد ہے کہ آزادی کے بعد تعلیم لازمی تھی۔ بچوں کو سکول نہ بھیجنے پہ والدین کو تھانے سے بلاوا آتا تھا‘ بہرحال تھانوں میں جانے کی نوبت ہی نہ آتی تھی۔ سکول کے چپڑاسی کی یہ ڈیوٹی تھی کہ غیر حاضر بچوں کے گھر پہنچ کر کونوں کھدروں میں چھپے اور درختوں کے ساتھ چمٹے بچوں کو کھینچ کر سکول لائے۔ راستے میں میاں غلام قادر مرحوم دو چار ایسی ٹکاتا کہ بھگوڑے نانی نانی کی فریادیں کرتے۔ سوچتا ہوں‘ تعلیم لازمی نہ ہوتی تو نہ جانے میں کیا ہوتا‘ کچھ بھی نہیں۔ وہ دن زندگی کا قیمتی ترین دن تھا‘ کبھی وہ سین یادوں میں دھندلایا نہیں۔ اس روز ہماری جنگل کی چھوٹی سی بستی میں دو اساتذہ تشریف لائے۔ سب بچوں کو اکٹھا کیا‘ ان کے نزدیک تین سکول جانے کی عمر کے تھے‘ جن میں‘ میں بھی شامل تھا۔ تینوں کی لائن بنوائی‘ جس میں میرا پہلا نمبر تھا‘ اور کہا کہ کل سے سکول آنا ہے۔ میرے والد محترم نے درخواست کی کہ یہ ابھی بہت چھوٹا ہے‘ تین میل کی مسافت روزانہ نہیں طے کر سکتا۔ سید کاظم حسین شاہ نے کہا: میں ادھر سے گزرتا ہوں‘ سائیکل پر بٹھا کر لے جائوں گا۔ وہ چند دن لے بھی گئے۔ دل ایسا لگا کہ تین میل کا سفر کھیل ہی تھا۔ اب تو ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں۔ سائیکل تو پُرانی بات ہے‘ اب تو فراٹے بھرتی موٹر سائیکلیں ہیں‘ غریبوں کے پاس کچھ اور ہو یا نہ ہو‘ موٹر سائیکل اور سیل فون ضرور ہوتے ہیں‘ اگر نہیں تو شعور‘ تہذیب اور زندگی گزارنے کا سلیقہ نہیں۔ یہ سب کچھ تقریروں اور تحریروں سے نہیں قانون پر عمل درآمد اور اندازِ حکومت سے ہوتا ہے۔ مغربی دنیا میں اب بھی تعلیم لازمی ہے۔ سولہ سال کی عمر تک کوئی بچہ سکول سے باہر نہیں رہ سکتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے نسل در نسل بچوں کو تعلیم سے محروم رکھ کر کروڑوں انسانوں کی زندگیاں تباہ کر ڈالی ہیں۔ وہی تو ہیں جو غربت کی چکی میں پِس رہے ہیں‘ سروں پر اینٹیں‘ پتھر اور بوریاں اٹھائے‘ ریڑھیاں لگائے اور جسم کی مشقت بیچنے کیلئے آجر کی راہ تکتے چوکوں میں بیٹھے ہوئے۔ سب وہی جو سکول نہ جا سکے۔ تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ کدھر ہے ہماری ریاست اور کدھر ہیں ہمارے کپتان صاحب؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved