تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     31-08-2021

افغان طالبان‘ اسلام اور پختون ولی

آج کل عالمی میڈیا پر ایک سوال تواتر سے پوچھا جا رہا ہے کہ افغانستان میں قائم ہونے والی نئی حکومت کیا اسلامی شرعی حکومت ہو گی یا مغربی طرز کی جمہوریت۔ اس سوال کا جواب فتح یاب طالبان نے صراحت سے دے دیا ہے کہ آنے والی ریاست امارتِ اسلامی ہو گی۔ اس سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ مستقبل قریب کے افغانستان میں مغربی طرز کی جمہوریت قائم نہیں ہو گی۔ مغربی میڈیا کا خیال ہے کہ امارات ِاسلامی ملک میں مخصوص اسلامی نظام لائے گی جو شمولیت (Pluralism) نہیں لا سکے گا اور تمام لسانی اور مذہبی گروہوں کو مطمئن نہیں کر پائے گا اور شاید اس نظام میں حقوقِ نسواں کی بھی مکمل پاسداری نہ ہو سکے گی۔ مذہب کا ریاست میں کتنا عمل دخل ہونا چاہیے‘ یہ بحث صدیوں سے چل رہی ہے۔ مغرب نے ایک عرصہ پہلے فیصلہ کر لیا تھا کہ کلیسا اور ریاست دو مختلف اکائیاں ہیں اور انہیں اکٹھا نہیں کرنا چاہیے۔ اس اندازِ فکر کو سیکولر ازم کہا جاتا ہے۔ مسلم ممالک میں یہ بحث ابھی جاری ہے۔ اسلامی دنیا میں سیکولر ازم کے قریب ترین ملک ترکی ہے۔ ہمارے ہاں سیکولر ازم کو لادینیت کے مترادف سمجھا جاتا ہے جو صحیح نہیں ہے۔ ترکی میں مساجد آباد ہیں۔ سیکولر ازم کا بنیادی اصول یہ ہے کہ مذہب انسان کا پرائیویٹ معاملہ ہے۔ بہت سے سیکولر معاشرے مذہبی آزادی کی پاسداری کرتے ہیں مثلاً امریکہ اور کینیڈا میں مساجد‘ مندر اور گوردوارے موجود ہیں۔
اب سوال یہ بھی ہے کہ مسلمان معاشروں میں اسلامی حکومت کا تصور کیا ہے۔ یہاں بھی مختلف ماڈل بنائے جاتے ہیں۔ اولین سعودی دور حکومت 1744ء میں قائم ہوا جب آل سعود اور آل شیخ میں معاہدہ ہوا کہ سیاسی حکومت آل سعود کی ہو گی جبکہ مذہب کی پاسداری آل شیخ کا فریضہ ہو گا۔ آج بھی سعودی عرب میں وزارتِ عدل اور وزارتِ تعلیم میں آل شیخ کا عمل دخل ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب نے 1979ء میں موروثی بادشاہت کو ختم کیا اور علما کی نگرانی میں محدود جمہوریت آئی۔ علما کے سربراہ آیت اللہ خامنہ ای ہیں جو پارلیمنٹ کے فیصلوں کو ویٹو کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔
سلطنت عمان میں یہ بحث عرصے تک جاری رہی کہ حکمرانی کا حق امام کے پاس ہو گا یا سلطان کے پاس۔ بالآخر درمیانی راستہ یہ نکالا گیا کہ سلطان کے لیے اسلامی فقہ کا علم لازمی ہو گا۔ سعودی عرب اور ایران میں شراب نوشی پر پابندی ہے مگر سلطنت عمان میں حکومت بڑے بڑے ہوٹلوں میں شراب نوشی سے صرفِ نظر کرتی ہے۔ اکثر خلیجی ممالک میں مجلسِ شوریٰ حکمران کو صرف مشورہ ہی دے سکتی ہے۔ پاکستان یقینا اسلامی ملک ہے مگر ہمارے ہاں مغربی جمہوریت کو فالو کیا جا رہا ہے۔کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتالیکن اس کے علاوہ پارلیمنٹ خود مختار ہے‘ ہماری جمہوریت قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کی فکر سے متاثر ہے‘ یہ اور بات کہ ڈیموکریسی پاکستان میں آئیڈیل طریقے سے نہیں چل سکی؛ تاہم یہ الگ بحث ہے۔ جب علامہ اقبال سے پوچھا گیا کہ اسلامی ریاست میں کون سا نظام چلے گا تو ان کا جواب تھا کہ اس بات کا فیصلہ عوام کے نمائندے کریں گے۔
اوپر دی گئی مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ عالم اسلام میں یکساں نظام کوئی نہیں ہر اسلامی معاشرے نے اپنی تاریخی روایات‘ سماجی اقدار اور طرزِ حکمرانی کے مطابق اپنا نظام وضع کیا ہے لہٰذا افغان طالبان اپنی طرز کا اسلامی نظام وضع کریں گے۔ اس میں لچک صرف اس حد تک آئے گی کہ اس بار بیرونی دنیا سے روابط طالبان کی مجبوری ہے لہٰذا وہ اپنے سیاق میں رہ کر حقوقِ نسواں کی بات بھی کر رہے ہیں۔ البتہ اگر مغربی ممالک یہ امید رکھیں کہ افغانستان میں اب مغربی طرز کی جمہوریت آئے گی یا مادر پدر آزاد سوشل آزادی آئے گی یا شراب نوشی کی اجازت ہو گی تو یہ خام خیالی ہو گی۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ ان کی بیس سالہ جدوجہد اسلامی نظام کے لیے تھی۔ وہ اپنے اسلامی تشخص کی ضرور نگہبانی کریں گے۔
اسلامی ممالک میں کئی جگہ اسلامی اصول اور سماجی اقدار مکس ہو گئے ہیں۔ ایک خلیجی ملک میں ماضی قریب تک خواتین کو کار چلانے کی آزادی نہیں تھی۔ غلط العام تصور یہ تھا کہ یہ پابندی اسلامی اصولوں کے مطابق ہے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ افغانستان میں ایک اور نمایاں سماجی حقیقت یہ ہے کہ شہری اور دیہاتی آبادی کی سوچ میں واضح فرق ہے۔ یہی تفاوت ہمیں پاکستان میں بھی نظر آتا ہے لیکن پاکستان میں شہری سوچ حاوی ہے۔ یاد رہے کہ افغان طالبان کا تعلق زیادہ تر دیہات سے ہے‘ افغان معاشرہ اپنی اقدار کا پاسبان ہے‘ وہاں سوویت یونین سوشلزم نہ لا سکا اور امریکہ مغربی جمہوریت نافذ نہ کر سکا۔
افغان سماجی اقدار میں پشتون ولی سمجھنے والی چیز ہے۔ یہ غیر مکتوبہ روایات ہیں جو صدیوں سے چلی آ رہی ہیں۔ اپنی زمین اور آزادی کی حفاظت ایک طرح کا قومی فرض ہے۔ جان و مال کا دفاع لازمی ہے اور اگر کوئی اس حق کو پامال کرے تو اس سے بدلہ لینا از بس ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص قتل کر دیا جائے تو اس کے بیٹے پر فرض ہے کہ بدلہ لے اور اگر بیٹا بدلہ نہ لے سکے تو پوتا ضرور لے گا۔ عورتوں کی عصمت کا دفاع بھی سماجی فرض ہے۔ اگر کوئی آپ سے پناہ مانگے تو نہ صرف اسے پناہ فراہم کرنا ہو گی بلکہ مہمان کی حفاظت کرنا بھی لازم ہے۔اس قسم کی روایات ہمیں قدیم عرب قبائل میں بھی ملتی ہیں لیکن افغانستان کا کمال یہ ہے کہ وہاں پشتون ولی اب بھی زندہ ہے اور توانا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ امریکہ نے ملا عمر سے ڈیمانڈ کی تھی کہ اسامہ بن لادن کو ملک بدر کر کے اس کے حوالے کر دیا جائے۔ پاکستان اور سعودی عرب کی سفارش کے باوجود ملا عمر نے اسامہ کو اپنے ملک سے نہیں نکالا حالانکہ ملا عمر کو بخوبی اندازہ تھا کہ امریکہ کی ناراضی کی بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے لیکن وہ نہ مانے۔ مجھے سابق سفیر سید افتخار مرشد نے بتایا تھا کہ ملا عمر اپنے تئیں اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کا سوچ رہے تھے لیکن پشتون ولی کی بے پناہ قوت نے انہیں ایسا نہ کرنے دیا اور اب یہی پشتون ولی کی طاقت ہے جس نے طالبان کی مزاحمت کو بیس سال تک زندہ رکھا۔
جیسا کہ اوپر مذکور ہے کہ اسلام اور سماجی بلکہ قبائلی اقدار اکثر ملکوں میں خلط ملط ہو گئی ہیں۔ افغانستان جب امارت اسلامی بنے گا تو طالبان لازماً قاضی کورٹس بنائیں گے جہاں جج خود طالبان ہوں گے۔ مگر جرگہ سسٹم بھی ساتھ ساتھ چلے گا کیونکہ یہ قبائلی روایات کا حصہ ہے۔ مغربی افکار کی رو سے شرعی قاضی کورٹس اور جرگہ سسٹم دونوں ناقص ہیں کیونکہ ملزم کو اپنے دفاع کا پورا حق نہیں ملتا لیکن طالبان کا افغانستان مغربی افکار کو رد کر چکا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ آج کے طالبان امریکہ‘ چین اور روس پر کفر کے فتوے لگانے کی بجائے ان سے بات کر رہے ہیں۔
طالبان سنی حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں لیکن افغانستان میں ایسے لوگ بھی رہتے ہیں جن کا مسلک مختلف ہے لہٰذا جہاں طالبان کو تاجک‘ ازبک اور ہزارہ جیسے لسانی گروہوں کے نمائندوں کو اپنی حکومت میں شامل کرنا ہو گا وہاں اس بات کی بھی پاسداری کرنا ہو گی کہ جذباتیت کی بنیاد پر جلدی میں نافذ کیا گیا یک مسلکی اسلامی نظام قومی وحدت کو کہیں نقصان نہ پہنچا ڈالے۔افغان وحدت کی کنجی Pluralism میں ہے۔ طالبان کو اس بات کا ادراک ہے کہ اکیسویں صدی میں عورت کو گھر میں بند کرنا بے حد دشوار ہے۔ یہ وقت چالیس سال کے زخموں پر مرہم رکھنے کا ہے۔ افغانستان میں امن اور استحکام لانے کا وقت ہے۔ کیا طالبان درمیانی راستہ نکال پائیں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved