ایک تاریک شب کے بطن سے صبح صادق کا سورج نمودار ہو سکتا ہے مگر ایک ٹیڑھی بنیاد پہ پائیدار عمارت تعمیر نہیں کی جا سکتی۔ جس جمہوریت کی بنیاد ہی جعلی الیکشن ہیں‘ عام آدمی کے لیے سایہ اور ثمر وہ کیسے لائے گی؟ نہیں جناب‘ ہرگز نہیں! ٹیلی ویژن پروگرام میں نواز شریف کو ایک بیچارے کے طور پر پیش کیا گیا۔ ان کی راہ میں دشواریاں اس قدر ہیں کہ قوم سے خطاب کرنے میں وہ تامل کا شکار ہیں ۔ وزیراعظم منتخب ہونے کے فوراً بعد پارلیمنٹ میں‘ جس کا انہوںنے وعدہ کیا تھا‘ اس تقریر میںانہوںنے یہ کہا تھا کہ ایک جامع منصوبہ انہوںنے بنا لیا ہے اور تیس دن کے اندر قوم تبدیلی کے آغاز کا مشاہدہ کرے گی ۔ کون سی تبدیلی ؟ اور کیا یہ وہی صاحب نہیں جو بار بار یہ کہتے تھے کہ وہ قوم کی تقدیر بدل ڈالیں گے ۔ انتخابی مہم کے دوران ایک اشتہار ان کی پارٹی نے جاری کیا تھا ، جس میں وہ ایک مجمع کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر گا رہے ہیں ۔ اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی پہلا کارنامہ تو انہوںنے یہ انجام دیا کہ تین سو ارب روپے کے نوٹ چھاپ کر بجلی کمپنیوں کو دے دیے ۔ اتنی بڑی تعداد میں کرنسی چھاپنے کا غالباً یہ منفرد واقعہ ہے۔ گوارا ہوتا اگر اس کے عوض بجلی کمپنیوں سے کوئی رعایت حاصل کی جاتی ۔ یہاں تو سوال یہ ہے کہ کیا ان کمپنیوں کے حسابات کا آڈٹ کیا گیا، جن کی رقوم واجب الادا تھیں؟ شیخ رشید تو دھڑلے سے کہہ رہے ہیں کہ اس عمل میں بڑے پیمانے کا گھپلا ہوا ۔ اگر ان کا الزام غلط ہے تو حکومت تردید کرے اور آڈٹ کے شواہد قوم کی خدمت میں پیش کیے جائیں ۔ دوسراکارنامہ آئی ایم ایف سے 5.3بلین ڈالر کے قرضے کا حصول ہے ۔ وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار شیر کی طرح دھاڑتے رہے کہ پاکستان اپنی شرائط پر قرضہ لے گا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر۔ اول تو یہ بات ہی مضحکہ خیز ہے کہ قرض خواہ مقروض کی شرائط تسلیم کرے ، پھر معاملہ آشکار ہوا تو پتہ چلا کہ عالمی مالیاتی ادارے کی ایک ایک قدغن تسلیم کر لی گئی ہے ۔ سپریم کورٹ کی کوشش کے باوجود سیلز ٹیکس کی شرح میں تو اضافہ ہوا ہی، یہ اعلان بھی ہوا کہ قوم کو اگر بجلی درکار ہے تو نرخوں میں اضافہ قبول کرنا ہوگا۔ آپ نے کیا تیر مارا؟ داد کے مستحق تو آپ تب ہوتے اگر بجلی چوری روکنے کا کوئی قابلِ عمل منصوبہ پیش کرتے۔ تیسرا کارنامہ چین کا دورہ ہے‘ اس طرح‘ جس کا چرچا کیا گیا‘ جیسے یہ ایک عبقری ذہن کی اختراع ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان کا نہیں بلکہ یہ چین کا منصوبہ ہے؛ اگرچہ پاکستان کو اس سے فائدہ پہنچے گا لیکن اس سے زیادہ یہ خود عوامی جمہوریہ چین کی ضرورت ہے۔ اول یہ کہ عالمی تجارت کے لیے 6000 کلو میٹر کا فاصلہ کم ہو جائے گا‘ ثانیاً ریل کی پٹڑی اور موٹروے کے ساتھ صنعتی علاقے وجود میں آتے ہیں تو چین کو نسبتاً کم قیمت افرادی قوت میسر آ سکے گی۔ چینیوں نے یہ منصوبہ پیپلز پارٹی کے دور میں پیش کیا تھا۔ با خبر ذرائع یہ کہتے ہیں کہ لین دین پر ا تفاقِ رائے نہ ہو سکا؛ چنانچہ موخر کردیا گیا۔ کیا اس دورے میں وزیراعظم نے پانی سے بجلی پیدا کرنے کے کسی منصوبے پر تبادلۂ خیال کیا؟ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی کہ چینی کمپنیاں اس سلسلے میں کیا خدمات انجام دے سکتی ہیں؟ خاص طور پر ندیوں اور نہروں پر چھوٹے منصوبے‘ جو چھ سے آٹھ ماہ میں مکمل ہو سکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس طرح کے منصوبوں سے سال بھر میں 5000 میگاواٹ بجلی پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس جناب والا بھارت سے اڑھائی ہزار میگاواٹ خریدنے کے لیے بے چین ہیں‘ جس طرح کہ وہ من موہن سنگھ کو اپنی تقریب حلف برداری میں مدعو کرنے کے لیے بے تاب تھے۔ کیا یہ منصوبہ چند ہفتوں میں پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا؟ ظاہر ہے کہ ہرگز نہیں۔ پھر کیا یہ اسی امریکی حکمتِ عملی کا حصہ نہیں‘ جس کا مقصد پاکستان کو بھارت کی ذیلی ریاست بنانا ہے۔ یہ شبہ اس لیے بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک بھارتی افسر نے سمجھوتہ ایکسپریس والے حادثے کی طرح‘ پارلیمنٹ اور ممبئی کے خونی واقعات کو خود بھارتیوں کا ڈرامہ قرار دیا تو وزیراعظم نے چپ سادھ لی؛ حتیٰ کہ ان کے قلمی کارندوں نے بھی۔ غالباً وزارتِ خارجہ بھی خاموش ہی رہتی۔ میری معلومات کے مطابق عسکری قیادت نے حکومت کی توجہ دلائی تو بھارت سے وضاحت طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ حیف ہے اس لیڈر شپ پہ‘ جو اپنی قوم کی توہین‘ تذلیل اور کردار کشی پر اس درجہ مصلحت کیش ہو۔ چینی دورے کے حوالے سے اب تک اس سوال کا جواب بھی نہیں دیا گیا کہ ایک خاص صنعت کار اور ا س کے رفقاء کار ہی کو ساتھ کیوں لے جایا گیا۔ شریف خاندان کے دو صاحبزادوں کو کس لیے‘ جو حکومتی سرپرستی میں خود بڑے پیمانے کے کاروبار کرتے ہیں۔ کیا چینی کمپنیوں کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ اگر انہیں پاکستان میں کاروبار کرنا ہے تو کن لوگوں سے رابطہ رکھنا ہوگا؟ پھر نندی پور کا معاملہ۔ بظاہر پورے پندرہ بیس ارب روپے کا گھپلا ہے۔ حیرت ہے کہ وزیراعظم کو اس پر تحقیقاتی کمیٹی بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ان کے چھوٹے بھائی میاں محمد شہباز شریف نے علی الاعلان اس کمپنی کے ساتھ مذاکرات کی داد وصول فرمائی تھی۔ جو باقی تین آدمی ملوث ہو سکتے ہیں‘ اسحق ڈار‘ خواجہ آصف اور احسن اقبال ہیں۔ وہ خود ان سے پوچھ گچھ کیوں نہیں کرتے؟ حمزہ شہباز شریف کا کارنامہ یہ ہے کہ شیخوپورہ کے ایک سستے بازار کا مشاہدہ کرنے عالی جناب سرکاری ہیلی کاپٹر پر وہاں تشریف لے گئے۔ ہیلی پیڈ سے شہر کی طرف روانہ ہوئے تو 19 گاڑیاں ان کے جلو میں تھیں۔ کن چیزوں پر پاکستانی عوام کا پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ پھر یہ کہ اس پر عدالتیں خاموش کیوں ہیں؟ سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ صوبوں میں بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں۔ ادھر نادرا کے چیئرمین طارق ملک نے اعلان کیا ہے کہ ان کے ادارے نے ایک دن میں انگوٹھوں کے ایک لاکھ نشانات جانچنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ کس لیے؟ بلدیاتی الیکشن اگر اسی پولیس اور پٹوار کے اہتمام سے ہوں گے‘ اگر اسی طرح سرکاری رسوخ بروئے کار آئے گا تو اس سے حاصل کیا؟ اگر الیکشن کمیشن وہی ہوگا اور محکمہ تعلیم سے تعلق رکھنے والے خوف زدہ کارندے بھی وہی تو نتیجہ معلوم۔ اس پر طرّہ یہ کہ پنجاب حکومت نے بلدیاتی نظام تبدیل کر کے جنرل محمد ضیاء الحق کے عہد کا طریق بحال کردیا ہے۔ سبحان اللہ‘ سبحان اللہ۔ نہیں جناب چیف جسٹس! جمہوریت نہیں‘ یہ سب دکھاوا ہے‘ یہ سب شعبدہ بازی ہے۔ موٹروے بن جائے گی اور بلٹ ٹرین بھی مگر عام آدمی کو خون اسی طرح پیا جاتا رہے گا۔ وہی رونا‘ جو اقبالؔ نے عہدِ غلامی میں رویا تھا۔ خواجہ از خونِ رگ مزدور سازد لعلِ ناب ازجفائے وہ خدایاں کشت و دہقاناں خراب ایک تاریک شب کے بطن سے صبح صادق کا سورج نمودار ہو سکتا ہے مگر ایک ٹیڑھی بنیاد پہ پائیدار عمارت تعمیر نہیں کی جا سکتی۔ جس جمہوریت کی بنیاد ہی جعلی الیکشن ہیں‘ عام آدمی کے لیے سایہ اور ثمر وہ کیسے لائے گی؟ نہیں جناب‘ ہرگز نہیں!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved