موقع ملا تو کراچی کی قسمت بدل دیں گے: شہباز
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور نواز لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''آئندہ الیکشن میں موقع ملا تو کراچی کی قسمت بدل دیں گے‘‘ اور یہ محض ایک بیان نہیں ہے بلکہ ہم عملی آدمی ہیں جس کا واضح ثبوت اپنی قسمت کا تبدیل کرنا ہے اور 30سال میں اس سلسلے میں اتنا تجربہ حاصل کرچکے ہیں کہ کراچی چھوڑ‘ پاکستان کے کسی صوبے کی بھی قسمت تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس لئے جس جس صوبے کی اپنی قسمت کی تبدیلی مطلوب ہو، وہ ہم سے رابطہ کر سکتا ہے لیکن اگر خدانخواستہ موقع نہ ملا تو ہماری اپنی قسمت بھی دوبارہ تبدیل ہو جانے کے قابل ہو جائے گی ۔آپ اگلے روز کراچی میں پی ڈی ایم کے جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
شہباز شریف مگرمچھ کے آنسو نہ بہائیں، اپنے
دور میں کراچی کے لیے کیا کیا: گورنر سندھ
گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف مگرمچھ کے آنسو نہ بہائیں‘ انہوں نے اپنے دور میں کراچی کیلئے کیا کیا‘‘ ان کو چاہیے کہ خود اپنے آنسو بہائیں اور مگرمچھ بے چارے کے آنسوؤں پر ہاتھ صاف کر کے اس کے حقوق غصب نہ کریں جبکہ ویسے بھی کسی مگرمچھ نے اگر کبھی کسی انسان کے آنسو نہیں بہائے تواس کے آنسو بہانے کا کسی کو کیا حق حاصل ہے؟ اور اگر وہ اس طرح مسلسل مگرمچھ کے آنسو بہاتے رہے تو مگرمچھ کیا کرے گا کیونکہ اسے آنسوؤں کے بغیر ہی رونا پڑے گا جو کہ انسداد بے رحمیٔ جانوران کے قانون کی بھی خلاف ورزی ہے اور اگر دوسروں کے آنسو بہانا ضروری ہو تو مگرمچھ کو چھوڑ کر وہ دوسرے جانوروں کے آنسوؤں پر طبع آزمائی کر سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم کا جلسہ پیپلز پارٹی کیخلاف تھا: فواد چودھری
وفاقی وزیراطلاعات و نشریات فواد احمد چودھری نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم کا جلسہ پیپلز پارٹی کے خلاف تھا‘‘ حالانکہ انہیں بچھڑی ہوئی اس پارٹی کو دوبارہ اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ اس تنگی ماری تنظیم کو دوبارہ متحد ہونے کی ضرورت ہے کہ اگر حکومت کوگرا نہیں سکتی تو اسے پریشانی میں تو مبتلا کر ہی سکتی ہے جو پہلے ہی مہنگائی وغیرہ کے ہاتھوں بے حد پریشان ہے اور اسے دوچار دھکوں ہی کی ضرورت ہے لیکن یہ تنظیم اس قابل بھی نہیں رہی اور صرف زبانی جمع خرچ سے اپنا کام چلا رہی ہے حالانکہ اس کی ان حرکتوں سے حکومت کا کام زیادہ چل رہا ہے اور وہ بھی بالآخر اپنی کارکردگی دکھانے پر مجبور ہو رہی ہے جس کے لیے ہم اس کے شکر گزار بھی ہیں۔ آپ اگلے روز فرخ حبیب اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
سندھ کے عوام 1100ارب کی راہ تک رہے : کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''سندھ کے عوام 1100ارب کے پیکیج کی راہ تک رہے ہیں‘‘ جو دراصل سندھ حکومت ہی ہے جو اس کی راہ تک رہی ہے کیونکہ عوام کا اس پیکیج کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، اس طرح جو اس سے پہلے کئی ارب روپے دیے گئے تھے وہ بھی سندھ حکومت ہی کے کام آئے جس کے خرچے گوناگوں قسم کے ہیں؛ چنانچہ اب بے صبری سے وہ اس نئے پیکیج کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ وہ عوام کی خدمت کے اس سلسلے کو آگے بڑھا سکیں اور تاریخ کے اوراق میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھوا سکیں؛ اگرچہ تاریخ کے یہ سنہری حروف صرف پارٹی کے اعلیٰ عہدیداران اور ان کے خاص مقربین کے لیے ہی مخصوص ہو چکے ہیں۔ آپ اگلے روز حکومتی وزرا کی پریس کانفرنس کا جواب دے رہے تھے۔
عوام نہیں‘ وزیر خوشحال ہو رہے ہیں: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے سینئررہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''عوام نہیں، حکومت کے وزیر خوشحال ہو رہے ہیں‘‘ جبکہ ہمارے ادوار میں بھی ایسا ہی ہوا تھا اور اول خویش بعد درویش کے سنہری مقولے پر عمل کیا گیا تھا کیونکہ عوام کی درویشی کا تقاضا بھی یہی تھا اور 30سال تک وزرا کو خوشحال بنانے کے بعد جب عوام کی باری آئی تو ہماری حکومت کو ختم کر دیا گیا بلکہ ہماری باری کسی اور کو دے دی گئی۔ اب ہمارے وزیر ایک بار پھر خوشحال ہونے کے مستحق اور منتظر ہیں تاکہ وہ دوبارہ خوشحال ہو کر عوام کے بارے میں بھی کچھ سوچ سکیں جو خوشحالی کے کسی حد تک مستحق بھی ہیں۔ آپ اگلے روز نارووال میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
مرمت کی جانے والی سڑک پر ٹھیکیدار
کا فون نمبر لکھا جائے: مراد سعید
وفاقی وزیر برائے مواصلات مراد سعید نے کہا ہے کہ ''مرمت کی جانے والی سڑک پر ٹھیکیدار کا فون نمبر لکھا جائے‘‘ تاکہ عوام اس کی مرمت کے لیے دوبارہ حکومت کے بجائے ٹھیکیدار سے رابطہ کریں کیونکہ سڑک بنا دینا حکومت کی ڈیوٹی تھی‘ جو بنا دی گئی، اب عوام کا کام یہ ہے کہ ٹھیکیدار سے مرمت کا مطالبہ کریں کیونکہ حکومت کے پاس سڑکیں مرمت کرنے کے علاوہ بھی بہت سے کام ہیں اور اگر حکومت نے یہ دردِ سر بھی اپنے ذمے لے لیا تو ملکی مسائل کون حل کرے گا جو پہلے ہی عوام اپنی مدد آپ کے تحت حل کر رہے ہیں تاکہ جلد از جلد اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں جس میں حکومت ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کر رہی ہے تاکہ ہم اپنا شمار زندہ قوموں میں کر سکیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ضمیر طالب کی غزل:
کیسے ہنگام سے بلاتا ہے
گزرے ایام سے بلاتا ہے
اب نہیں دل کی سننے والا میں
پھر اُسی کام سے بلاتا ہے
ایک مہتاب ہے مرے دل میں
اور اِک بام سے بلاتا ہے
پیچھا کرتا ہے سایہ اک دن بھر
اک بدن شام سے بلاتا ہے
کسی آغاز سے پکارتا تھا
اب تو انجام سے بلاتا ہے
چاہ کر بھی میں جا نہیں پاتا
ایسے پیغام سے بلاتا ہے
وہ صدا دیتا ہے یقیں سے کبھی
کبھی ابہام سے بلاتا ہے
پہلے انداز خاص تھا اُس کا
اب تو بس عام سے بلاتا ہے
جب بھی ملتا ہے وہ ستم پرور
اک نئے نام سے بلاتا ہے
آج کا مطلع
یوں سمجھ لیجے کہ یہ سارا سفر دیوار ہے
وہ مسافر ہوں کہ جس کی رہ گزر دیوار ہے