تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     31-08-2021

زبانِ خلق نقارۂ خدا

پولیس کے دفتر میں موجود اُن افراد کو دیکھ کر ہی بخوبی اندازہ ہورہا تھا کہ وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ چہروں پر ابھی تک کچھ بے یقینی کے تاثرات تھے مگر ساتھ ہی خوشی بھی جھلک رہی تھی۔ اِن میں سے د و افراد تو بڑی عمر کے تھے جبکہ تین نوجوان تھے۔ پیشہ ورانہ جبلت سے مجبور ہوکر وہاں اُن کی موجودگی کی وجہ دریافت کی تو معلوم پڑا کہ آج دس سالوں کے بعد‘ اُن کو ان کا گھر واپس مل رہا ہے۔ کہانی وہی تھی جو ہمارے معاشرے میں ہرجگہ دکھائی اور سنائی دیتی ہے۔ کسی کے گھر پر قبضہ تھا تو کوئی اپنی ہی اراضی سے محروم کیا جاچکا ہے۔ کوئی دس سال پہلے اُنہوں نے اپنا گھر کسی کو کرایے پر دیا تھا۔ پانچ سال پہلے جب کرایہ دار کو گھر خالی کرنے کے لیے کہا گیا تو پہلے اُس نے حکمِ امتناعی حاصل کرلیا اور بعد میں جعلی دستاویزات تیار کرکے دعویٰ کردیا کہ یہ گھر اُس کا ہے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اِن لوگوں نے اپنا گھر خالی کرانے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے ہوں گے۔ بالآخر اِس تمام معاملے کی بابت سی سی پی او کو درخواست دی گئی۔ درخواست قبضہ گروپوں کے خلاف کارروائی کے لیے قائم سپیشل سیل تک پہنچی۔ معاملے کی تحقیقات ہوئیں تو کرایہ دار ہرجگہ پر غلط ثابت ہوا جس پر اُسے گھر خالی کرتے ہی بنی۔ اب وہ لوگ اپنے گھر کا قبضہ حاصل کرنے کے لیے دفتر میں موجود تھے۔ ہمیں اندازہ تھا کہ اِن افراد کی خوشی کا کیا عالم ہوگا۔ اصل مالکان اپنا ہی گھر واپس لینے کے لیے دربدرکی ٹھوکریں کھاتے رہے اور گھر پر قابض شخص مزے سے زندگی گزارتا رہا۔ بار بار یہی سوچ ستا رہی تھی کہ اگر اِن کا مسئلہ یہاں بھی حل نہ ہوتا تو نجانے اُنہیں مزید کتنے عرصے تک دھکے کھانا پڑتے۔ بے شک ہمارے ہاں نظامِ عدل اپنے فرائض انجام دے رہا ہے لیکن قانونی لڑائی میں کسی بھی کیس کو طویل کرنے کے بے شمار راستے موجود ہیں۔ جائیداد کے ایسے کتنے ہی معاملات ہیں جو دہائیوں سے زیرِسماعت ہیں لیکن اُن کا فیصلہ نہیں ہوپارہا۔ اِن حالات میں اگر پولیس کی سطح پر شہریوں کو ایک اچھی سہولت فراہم کی گئی ہے تو یقینا اِس کی تحسین کی جانی چاہیے۔
یہ تو صرف ایک کہانی ہے ورنہ دیکھا جائے تو قبضہ کلچر نے ہمارے معاشرے میں نچلی ترین سطح پر بھی اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ قبضوں کی اِس دیگ میں سے ایک دانہ چکھ لیجئے ، ایک شخص ''بم‘‘، صرف اِس اکیلے شخص کے خلاف قبضے کے 70سے زائد مقدمات درج ہیں۔ کوئی یہ تصور بھی کرسکتا ہے کہ اِس کا م میں اُسے بااثر افراد کی معاونت حاصل نہیں ہوگی؟چند سال پہلے تب کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے اِس معاملے پر از خود نوٹس لیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ دورانِ سماعت جب پولیس افسران سے پوچھا گیا کہ اتنے زیادہ مقدمات درج ہونے کے باوجود اِس شخص کو گرفتار کیو ں نہیں کیا گیا تو جواب ملا کہ جب بھی ہم اِسے گرفتار کرنے کی کوشش کرتے تھے تو ہمیں ''اوپر سے‘‘ فون آجاتا تھا۔ کس کا فون آتا تھا؟یہ پوچھے جانے پر عدالت میں موجود پولیس افسران نے حکمران جماعت کے ایک رکنِ قومی اسمبلی کا نام لیا۔ تب عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ جو بھی پولیس افسر اِس کے خلاف کارروائی کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ اُسے جھوٹے مقدمات میں گھسیٹ لیا جاتا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر ہی تب انتظامیہ نے اس شخص سے 80کنال اراضی واگزار کرائی تھی جس کی مالیت 5 ارب روپے کے لگ بھگ تھی۔ گزشتہ دنوں اِس شخص کے بھتیجوں اور بیٹوں سمیت پندرہ افراد کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ الزام وہی ہے کہ یہ لوگ کسی کی اراضی پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہے تھے۔آپ اندازہ لگا لیجئے کہ یہ صرف ایک شخص کی کہانی ہے‘ پورے ملک میں ایسے افراد جا بجا پھیلے ہوئے ہیں۔ جس کا جہاں داؤ چلتا ہے وہ کارروائی کرگزرتا ہے۔ اگر قبضوں کی اِس دوڑ میں شامل چند پردہ نشینوں کے نام ہی سامنے آ جائیں تو سننے والے انگلیاں دانتوں تلے داب لیں۔ جب کوئی برائی اوپر کی سطح پر جڑیں پکڑ لیتی ہے تو پھر اُسے نیچے تک آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں بھی یہی کچھ ہوا ہے۔
اگر پولیس نے اِن تمام حالات میں شہریو ں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے کوئی قدم اُٹھا یا ہے تو اُس کی یقینا تحسین کی جانی چاہیے۔ اِس قسم کی ورداتوں کے حوالے سے ایک سپیشل سیل قائم کیا گیا ہے جو کسی بھی جگہ قبضے کی اطلاع ملنے پر فوری کارروائی کرتا ہے۔ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سیل قائم ہونے کے بعد قبضے کی کوششوں میں کافی کمی آئی ہے۔ آئے روز ایسے افراد کو بلا یا جاتا ہے جنہیں اُن کی جائیدادکا قبضہ واپس دلایا جاتا ہے۔ رواں سال‘ اب تک 380 شہریوں کو اُن کے پلاٹوں‘ گھروں وغیرہ کا قبضہ واپس دلایا گیا ہے۔ مجموعی طور پر 4300 کنال اراضی واگزار کرائی گئی ہے۔پنچایتوں کے ذریعے متبادل نظام قائم کرنے والوں پر بھی کافی سخت ہاتھ ڈالا گیا ہے اور 570 بدمعاشوں کو قانون کی گرفت میں لایا گیا ہے۔ یقینا یہ روش قابلِ تحسین ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ پولیس اصلاحات کی منزل ہنوز بہت دور ہے۔
صرف پولیس ہی کیا‘ اب تو سول بیوروکریسی بھی شاید اپنے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ عہدے بکنے کی باتیں پہلے اندرونِ خانہ ہوا کرتی تھیں لیکن اب تو چوک چوراہوں میں یہ باتیں سننے میں آرہی ہیں۔ متعدد اضلاع کے اعلیٰ سول افسران کے نام لے کر بات ہوتی ہے کہ فلاں نے اتنے میں یہ عہدہ حاصل کیا ہے۔ بتانے والے تو یہ بھی بتاتے ہیں کہ صورتحال کے اس نہج پر پہنچ جانے کے بعد تمام صورت حال سے وزیراعلیٰ صاحب کو آگاہ کیا گیا جس کے بعد اس کی روک تھام کے لیے کچھ اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔
بے شک یہ اِسی آپا دھاپی کا کیا دھرا ہے کہ اخلاقیات کے سب اشاریے تنزلی کی طرف جارہے ہیں۔ بس جھوٹ، جھوٹ اور صرف جھوٹ۔ بچپن سے دیکھتے آرہے ہیں کہ تجاوزات کے خلاف کارروائیاں مستقل بنیادوں پر جاری رہتی ہیں لیکن قبضہ گیری کی ورداتوں میں ہرگزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ مسئلہ لاینحل ہے، معاملہ یہ ہے کہ کوئی یہ مسئلہ حل کرنا ہی نہیں چاہتا۔ تجاوزات کے خاتمے کی آڑ میں جس کا مرضی ساما ن ضبط کر لو‘ پھر اُسے پیسے لے کر چھوڑ دو۔ یہاں ایسے ہی چلتا آیا ہے اور شاید ایسے ہی چلتا رہے گا۔ اِن حالات میں اگر ایک پھل یا سبزی فروش داؤ لگا کر گلی سڑی سبزیاں اور پھل گاہک کو تھما دیتا ہے تو پھر اِس میں اچنبھے کی کیا بات ہے؟ اِن حالات میں اگر ملک میں روزانہ بیس کروڑ لیٹر سے زائد ملاوٹ شدہ دودھ فروخت ہورہا ہے تو حیرانی کیسی؟ ان حالا ت میں اگر ادویات تک جعلی بک رہی ہیں تو حیرت کیوں؟ یہی تو وہ حالات ہیں کہ جس کا جو دائو لگتا ہے‘ وہ پل بھر کا بھی توقف نہیں کرتا۔ جب قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا خوف باقی نہ رہے تو پھر ایسے ہی حالات بنا کرتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اب حیرت اِس بات پر ہورہی ہے کہ یکایک پولیس کو کیا سوجھی کہ وہ قبضہ گروپوں کے خلاف میدان میں آگئی۔ قبضہ گروپوں کے خلاف پولیس پہلی مرتبہ اتنی متحرک دکھائی دے رہی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ بیماری سے پہلے کچھ دوا‘ دارو کرنے کا چلن عام ہوجائے۔ اللہ کرے کہ تھانوں کے اندر بھی عام آدمی کی عزت بحال ہوجائے۔ دعویٰ تو یہ ہے کہ پولیس کو سختی سے ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ تھانوں میں شکایات کے لیے آنے والوں کے ساتھ عزت سے پیش آئے لیکن اِس کی گواہی عام شہریوں کی طرف سے بھی ملنی چاہیے۔ ایسے ہی تو نہیں کہا جاتا کہ زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھیں۔ اِن دعووں کو تبھی حقیقت سمجھا جائے گا جب عام آدمی بھی اِس کی گواہی دے گا۔ جب یہ باتیں عام ہونا شروع ہوجائیں گی تو بہت سے منفی کردار معاشرے سے خودبخود ختم ہو جائیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved