تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     31-08-2021

… راستہ کوئی اور ہے!

سوچے سمجھے بغیر شروع کیا جانے والا ہر کام بالآخر بند گلی تک پہنچاکر دم لیتا ہے۔ ہم زندگی بھر ایسی ہی غلطیاں کرتے رہتے ہیں۔ انفرادی سطح پر بہت سے فیصلے عجلت اور بے صبری کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ایسے فیصلے انسان کو بند گلی میں لاکر غائب ہو جاتے ہیں۔ پھر بند گلی سے نکلنے میں ایک عمر کھپ جاتی ہے۔ انفرادی معاملات تک بات ہو تو کوئی غم نہیں۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ریاستی سطح پر غلط فیصلے کیے جاتے ہیں اور اِن فیصلوں کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے جبکہ اُس کا کوئی قصور بھی نہیں ہوتا۔ آج کی دنیا بہت سے حوالوں سے انتہائی عجیب ہے۔ کبھی کبھی کسی جواز کے بغیر ہمیں فائدہ پہنچ جاتا ہے اور کبھی کسی جواز کے بغیر انتہائی نوعیت کے نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ یہ دنیا جیسی بھی ہے ویسی ہی قبول کرنا پڑے گی۔ اِسے تبدیل کرنے کی کوئی بھی کوشش اب بلا جواز ہے۔ سوال اب دنیا کو تبدیل کرنے کا نہیں بلکہ اپنے آپ کو بدلنے کا ہے۔ وہی کامیاب رہتے ہیں جو دن رات اپنے آپ کو حالات کے موافق بنانے کے لیے تگ و دَو کرتے رہتے ہیں۔
سوچے سمجھے بغیر کیے جانے والے فیصلے بالعموم فائدے کا باعث بنتے ہیں، فریقِ ثانی کے لیے! ہر دور میں حالات کو نظر انداز کرنے والے خسارے ہی سے دوچار رہے ہیں۔ آج بھی وہی کامیاب ہیں جو حالات و واقعات پر نظر رکھتے ہیں۔ جب وہ تمام معاملات کا اچھی طرح جائزہ لے کر کوئی فیصلہ کرتے ہیں تب معاملات کے سلجھنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ یہی کامیابی کی اصل بنیاد ہے۔ جو لوگ تمام متعلق معاملات میں گہری دلچسپی لیتے ہیں وہ کامیابی سے ہم کنار بھی ہوتے ہیں۔ سلیم کوثر نے کہا ہے ؎
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھا نہیں، دیکھنا اُنہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
اس وقت امریکا کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ایک راستے پر دو عشروں تک چلنے کے بعد امریکی پالیسی میکرز کو اندازہ ہوا کہ غلط راستہ چُنا گیا تھا، اب راستہ بدلنا چاہیے۔ افغانستان میں جو کچھ ہوا‘ وہ امریکا کی طرف کی طرف غلط راستے کے چُناؤ ہی کا تو نتیجہ ہے۔ واشنگٹن کے اعلیٰ و ارفع ذہن بہت سوچ سمجھ کر جو راستہ منتخب کرتے ہیں‘ وہ ہر حال میں درست اور موزوں ترین ہونا چاہیے مگر افسوس کہ معاملہ یہ ہے نہیں۔ امریکا نے بارہا یہی غلطی کی ہے۔ غلطیوں کو دُہرانے میں بھی امریکی پالیسی میکرز کا کوئی جواب نہیں۔ جن غلطیوں سے ایک دنیا کو شدید تکلیف پہنچتی ہے وہی غلطیاں دہرائی جاتی رہی ہیں۔ بات کچھ یوں ہے کہ ؎
دریا کو اپنی موجوں کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
ہمارا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ رہا ہے۔ ایک زمانے تک ایک راستے پر چلتے رہنے کے بعد اچانک دل و دماغ پر یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ غلط راستہ چُنا گیا ہے۔ تب تک اتنا نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے کہ راستہ بدل لینے سے خفیف سی بھی تلافی نہیں ہو پاتی۔ اس وقت بھی یہی کیفیت ہے۔ امریکا اور یورپ کے ساتھ چلنے کی عادت نے ہمیں بند گلی میں پہنچا دیا ہے۔ دنیا بدل رہی ہے مگر ہم بدلنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اب اگر خود کو بدلنا ہی پڑے تو بہت کچھ ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ امریکا اور یورپ نے جن راستوں پر چلنے کی عادت اپنائی اُن میں بیشتر صرف اور صرف خرابی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اب تک یہی سمجھا جاتا رہا ہے کہ مغربی طاقتیں دوسرے خطوں کو شدید نقصان سے دوچار کرکے اپنی طاقت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جو کچھ مغربی طاقتوں نے کیا‘ وہ ہر اعتبار سے پریشان کن ہی نہیں، تباہ کن بھی رہا ہے۔ کئی خطوں کو ان طاقتوں نے تنِ تنہا یا مل کر پامال کیا ہے۔ اب یہ بات بھی کھل کر سامنے آرہی ہے کہ کسی کو کمزور کرنے یا تباہی سے دوچار کرنے کی پاداش میں اپنی طاقت بھی داؤ پر لگ سکتی ہے۔ امریکا اور یورپ کو اب یہ احساس ہو رہا ہے کہ جو کچھ انہوں دوسروں کے ساتھ کیا ہے وہ پلٹ کر بھی آسکتا ہے۔ مکافاتِ عمل کا اصول یا کلیہ افراد کی طرح اقوام، معاشروں اور ریاستوں پر بھی اطلاق پذیر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جس میں کوئی بھی شخص یا ملک باقی دنیا سے الگ تھلگ ہوکر زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ یہ بات انفرادی معاملات کی طرح اجتماعی معاملات پر بھی اطلاق پذیر ہے۔
امریکا کو اب اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ غلط راستوں پر چلتا رہا ہے۔ یورپ کو یہ احساس بہت پہلے ہوچکا تھا۔ یہی سبب ہے کہ بیشتر یورپی قوتیں سخت قوت کے بجائے نرم قوت کی راہ پر گامزن ہیں۔ وہ جدید ترین ٹیکنالوجی، صنعت و تجارت اور سرمایہ کاری کے ذریعے اپنی طاقت برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کم و بیش یہی طریقہ اب تک چین نے بھی اپنایا ہے۔ چین کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ ایسے کسی راستے پر چلنے سے گریز کیا جائے جس پر بہت آگے جاکر اندازہ ہو کہ انتخاب غلط تھا۔ چین کی پالیسیوں میں توازن نمایاں حد تک پایا جاتا رہا ہے۔ اس نے اب تک نرم قوت ہی کو آگے بڑھنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ افغانستان، عراق، شام اور لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے بعد امریکی پالیسی میکرز کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ جس راستے پر انہوں نے چلنا پسند کیا تھا وہ غلط تھا اور اب واپسی کا سفر شروع کیا جانا چاہیے۔
اس وقت امریکا بھی قابلِ دید ہے۔ اُس نے جو غلطیاں کی ہیں اُن کا خمیازہ اندرونی سطح پر بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ امریکا نے جو یک طرفہ جنگیں کمزور ریاستوں پر مسلط کیں اُن کے نتیجے میں خود امریکی فوجیوں کی اکثریت ضمیر کی خلش محسوس کر رہی ہے۔ جن کمزور ممالک کو تباہی سے دوچار کیا گیا، بڑے پیمانے پر قتلِ عام کی راہ ہموار کی گئی وہاں خدمات انجام دینے والے امریکی فوجیوں میں بہت سے ایسے ہیں جو اب مختلف ذہنی، نفسی اور روحانی عوارض میں مبتلا ہیں۔ کمزوروں اور بالخصوص بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کی ہلاکت میں ملوث امریکی فوج ریٹائرمنٹ کے بعد ضمیر کی خلش کے ہاتھوں انتہائی پریشانی سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ انسان چاہے کتنا ہی جاہل اور سفاک ہو، اپنی غلطیوں اور گناہوں پر نادم ضرور ہوتا ہے۔ سابق امریکی فوجیوں میں ایسے لوگ اب اچھی خاصی تعداد میں ہیں جو کمزور خطوں میں سفاکی کا مظاہرہ کرنے کے باعث اب ضمیر کی خلش کے ہاتھوں ذہنی و روحانی اذیت سے دوچار ہیں۔ ذہنی و روحانی عوارض کے علاج کے مراحل سے گزرنے والے سابق امریکی فوجیوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ ہمیں بھی بدلتے ہوئے عالمی حالات سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ بڑی طاقتوں کے کھیل میں شریک ہونے سے ہمارے معاشرے کی عجیب حالت ہوچکی ہے۔ یہ احساس شدت اختیار کرتا جارہا ہے کہ ہم نے غلط راستوں کا چُناؤ کرکے اپنے قومی وجود کو بارہا مشکل میں ڈالا۔ افغانستان کے معاملے میں ہم سے فاش غلطی یہ ہوئی کہ امریکا اور یورپ کے مفاد میں ہم کچھ زیادہ ہی آگے نکل گئے۔ یہ حقیقت بھی ہمارے پالیسی میکرز نے نظر انداز کردی کہ امریکا اور یورپ تو چلے جائیں گے، ہم کہیں نہیں جانے والے۔ ہمیں اِسی خطے میں جینا اور مرنا ہے۔ طالبان کے خلاف جاکر امریکا اور یورپ کا ساتھ دینے کی پاداش میں ہمیں بہت کچھ بھگتنا پڑا ہے۔ اب لازم ہے کہ خارجہ پالیسی کے معاملے میں زمینی حقیقتوں پر نظر رکھی جائے، راستوں کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ بہت آگے جاکر ہمیں اندازہ ہو کہ یہ راستہ تو ہمارا ہے ہی نہیں۔ امریکا اور یورپ کو بخوبی اندازہ ہوچکا ہے کہ نصف صدی کے دوران منتخب کیے جانے والے بیشتر راستے غلط تھے اور اُن پر چند قدم بھی نہیں چلنا چاہیے تھا۔ محض عسکری قوت کی بنیاد پر پوری دنیا کو اپنا نہیں بنایا جاسکتا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لے کر معقول پالیسیاں مرتب کی جائیں تاکہ مزید بگاڑ پیدا نہ ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved