افغانستان اور پاکستان کی کہانی 1973ء سے شروع ہوتی ہے جب افغانستان میں ظاہرشاہ کا تختہ الٹ کر سردارداؤد خان نے حکومت سنبھالی اورنئی حکومت کے سوشلسٹ نظریات اور سوویت یونین سے قربت کی وجہ سے افغانستان کے اسلام پسند نوجوان بغاوت پر اتر آئے۔ اس وقت پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو تھے جنہوں نے ان حالات سے فائدہ اٹھانے کا منصوبہ بنایا کیونکہ داؤد خان نے پاکستان مخالف عناصر کی پشت پناہی شروع کررکھی تھی۔ ان کی حکومت باقاعدہ دہشتگردوں کی مدد کرتی جو خیبرپختونخوا میں بم دھماکے کرتے تھے؛ چنانچہ ذوالفقار علی بھٹونے اس وقت کے آئی جی ایف سی میجرجنرل نصیراللہ بابرکی ذمہ داری لگائی کہ وہ افغانستان کے اندر داؤد خان کے خلاف جدوجہد کرنیوالے نوجوانوں بالخصوص تاجک نوجوانوں کی مدد کریں۔ جیسے ہی پاکستان سے ان نوجوانوں کو مدد ملنا شروع ہوئی بغاوت نے شدت پکڑلی۔ سردار داؤد خان کو اندازہ ہوگیا کہ اگر پاکستان میں مداخلت جاری رکھی توان کیلئے مشکلات پیدا ہوتی رہیں گی؛ چنانچہ اپنے ملک میں امن وامان کی بحالی کیلئے سردار داؤد نے بھٹو کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور یہ تاثردیا کہ وہ ڈیورنڈ لائن کو عالمی سرحد تسلیم کرلیں گے۔ ذوالفقارعلی بھٹو اور پاکستان کا مقصد تو پورا ہو گیا مگر ان نوجوانوں پرافغانستان کی زمین تنگ ہو چکی تھی۔ پروفیسر برہان الدین ربانی‘ صبغت اللہ مجددی‘ قلب الدین (گلبدین) حکمت یار اور احمد شاہ مسعود پناہ کیلئے پشاور پہنچ گئے جہاں قاضی حسین احمد ان کے میزبان تھے۔
1979ء میں سوویت یونین کے افغانستان پرقبضے کے ساتھ کہانی کا رخ بدلا اور قاضی حسین احمد کے مہمان نوجوان اپنے ملک کی بازیابی کیلئے سرگرم ہوگئے۔ چونکہ جماعت اسلامی بھٹو کے خلاف جنرل ضیاالحق کی حلیف بن چکی تھی‘ چنانچہ جب امریکہ اورپاکستان کی مدد سے افغانستان میں جہاد شروع ہوا تو اسکی پناہ میں آئے ہوئے سبھی افغان پاکستان کا اثاثہ بن گئے۔ جہاد کے آغاز کے ساتھ ہی قاضی حسین احمد جماعت اسلامی میں اہمیت اختیارکرتے چلے گئے۔ 1987ء میں قاضی صاحب جماعت اسلامی کے امیر بنے تو وہی دن تھے جب سوویت یونین افغانستان سے نکلنے کی تیاری کررہا تھا۔ ہم نے اسے اپنی فتح سمجھا اور چونکہ جماعت اسلامی ہماری فاتح ٹیم کا حصہ تھی اس لیے اسے اقتدار میں لانے کیلئے اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ بنایا گیا۔ اس اتحاد کا فائدہ کسی اور کو تو کیا ہونا تھا‘ نواز شریف افغان جہاد کے طفیل رہبری کے راستے پر چل پڑے۔ جہاد کے دوسرے دور میں سوویت یونین کو شکست دینے والوںکو جب کوئی بیرونی دشمن میسر نہیں آیا تو انہوں نے آٹھ سال تک اپنے ہی ملک میں جنگ کا الاؤ دھکائے رکھا۔ مجاہدین کی باہمی لڑائیوں سے تنگ آکر طالبان کی تحریک اٹھی اوراس کے ساتھ ہی پاکستانی سیاست میں جماعت اسلامی کا زوال شروع ہوگیا کیونکہ اب افغانستان سے فائدہ اٹھانے کی باری جمعیت علمائے اسلام کی تھی۔
افغانستان کی کہانی کا تیسرا باب طالبان کے نام ہے۔ بیشتر طالبان چونکہ پاکستان میں قائم دیوبندی مدارس کے پڑھے ہوئے لوگ تھے اس لیے فطری طور پرانہیں جمعیت علمائے اسلام سے یگانگت محسوس ہوتی تھی۔ ان کی تحریک نے زور پکڑا تو پاکستان میں بے نظیربھٹو کا دوسرا دور حکومت تھا جس میں مولانا فضل الرحمن ان کے اتحادی تھے۔ مولانا کے حکومت میں ہونے کا فائدہ طالبان کو بھی پہنچا۔ پاکستان کی ریاستی سرپرستی اب طالبان کو میسر آگئی اور انہوں نے دن دگنی رات چگنی ترقی شروع کردی۔ جب یہ لوگ بھی کابل پر قابض ہوگئے تو انہوں نے پاکستان سے ہر وہ بات منوا لی جوان کے فائدے کی تھی اور ہر اس بات سے انکار کردیا جو ہم ان سے منوانا چاہتے تھے۔ طالبان کے ساتھ بھی ہمارے کل رابطے اتنے ہی رائیگاں ثابت ہوئے جتنے مجاہدین کے ساتھ۔ انہیں کنٹرول کرنے کے شوق میں ہمارے اپنے اندر ہی طرح طرح کے گروہ وجود میں آگئے جو مختلف علاقوں میں ریاستی رٹ کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے گئے‘ حتیٰ کہ نواز شریف بھی ان کا نظریاتی شکار ہوکر امیرالمومنین بننے کے راستے پر چل نکلے۔
افغان کہانی کا چوتھا باب 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے سے شروع ہوتا ہے۔ اس حملے سے پاکستان میں طالبان کی حامی قوتوں کو نئی سیاسی زندگی مل گئی۔ نواز شریف کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے باوجود مشرف کی آمرانہ حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم کرلیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن کی 'ولولہ انگیز‘ قیادت میں قاضی حسین احمد اور دیگر مذہبی جماعتوں کے اتحاد کو وہ کچھ مل گیا جس کا وہ تصور نہیں کرسکتا تھا۔ ایک صوبے کی حکومت اور مرکز میں قائد حزب اختلاف کی نشست کا حصول پاکستان میں ان کا اب تک سب سے بڑا کارنامہ ہے‘ جس کا اس سے پہلے تصوربھی نہیں کیا جا سکتا تھا‘ اور ہاں یہیں سے عمران خان کے عروج کا سفر بھی شروع ہوگیا۔
افغانستان کے اتار چڑھاؤ سے پاکستانی سیاست کا مدوجزر ایک پراسرار انداز میں جڑا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور عوامی نیشنل پارٹی کے درمیان نفرت کی حد کو پہنچا ہوا اختلاف ہو یا عمران خان اورمولانا فضل الرحمن کے مابین حائل گہری خلیج‘ زمانے کے فرق کے ساتھ ان کی بنیادی وجہ افغانستان ہی ہے۔ خاکسار نے تو صرف سیاسی نشیب و فرازپر ایک نظر ڈالی ہے‘ آپ مجھ سے زیادہ سمجھدار ہیں۔ ذرا ادھر ادھر توجہ کریں گے توآسانی سے پتا چلا لیں گے کہ پاکستان کے کون کون سے شعبہ ہائے زندگی پر افغانستان کے واقعات اپنا اثر چھوڑ جاتے ہیں۔ تجربہ بتاتا ہے کہ افغانستان میں ہر تبدیلی کے ساتھ ہی پاکستان کے اندربچھی طاقت کی بساط پربھی کھلاڑی بدل جاتے ہیں۔ سوویت یونین اور افغان مجاہدین کے ساتھ جنرل ضیاالحق‘ نوازشریف اور جماعت اسلامی ابھرے۔ طالبان کے متوازی جنرل پرویز مشرف‘ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کے رنگ نکھرے۔ ضیاالحق کی وجہ سے مجاہدین خود کو نواز شریف کے قریب محسوس کرتے تھے اور آج کے طالبان عمران خان سے واقف ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے سوا پیپلزپارٹی کا مجاہدین سے کوئی سروکار تھا نہ طالبان سے کچھ لینا دینا ہے۔
ہماری سیاسی قیادت میں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے طالبان کے افغانستان کو ہمیشہ امریکا کی نظر سے دیکھا جبکہ عمران خان غلط یا صحیح طورپر ہمیشہ اپنے تصورات کی روشنی میں اس مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ زرداری جب صدر بنے تو اپنی حلف برداری پر اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی کو بلا کر واضح پیغام دیاکہ افغانستان کے اندر انکی ہمدردیاں کس کے ساتھ ہیں۔ نواز شریف کے تیسرے دور حکومت میں تو امریکی نقطہ نظر اتنا توانا تھا کہ ایوانِ وزیراعظم میں ہونے والے اجلاسوں میں عسکری قیادت کی پالیسی کو ملک کیلئے نقصان دہ بتایا گیا۔ اس کے برعکس عمران خان افغانستان پر امریکی حملے سے بھی پہلے سیاسی اور غیرفوجی حل پر زور دیتے رہے ہیں۔ انکی یہ سوچ 2012ء کے بعد سے مقتدرہ کی سوچ سے ملنا شروع ہوگئی۔ سوچ کے اس اشتراک سے پاکستان میں جو سیاسی واقعات رونما ہوئے‘ اتنے پرانے نہیں کہ یاد دلانے کی ضرورت پڑے۔
آج جب امریکی فوج افغانستان سے نکل چکی ہے تو یہیں سے افغانستان کی کہانی کا پانچواں باب شروع ہو رہا ہے۔ افغان مسئلے کے سیاسی حل کی سوچ عملی طور پرعالمی سطح پر بھی تسلیم کرلی گئی ہے‘ گویا عمران خان کا خیال حقیقت بننے کے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ جہاں تک باقی تمام سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے تو امریکا طالبان معاہدے کے ڈیڑھ سال بعد بھی وہ افغانستان کے واقعات پر کوئی نپی تلی رائے نہیں بنا سکیں۔ شاید انہیں یہ ادراک بھی نہیں کہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں پاکستان کا واحد مسئلہ افغانستان ہوگا۔ یہ جماعتیں بھول رہی ہیں کہ افغانستان کی کہانی کا ہر نیا باب نئے کرداروں سے لکھا گیا ہے۔ اب کے بھی یہی ہوگا۔ جو کہانی میں اپنی جگہ بنا گیا‘ بنا گیا۔ دوسروں کیلئے فی الحال تو لندن یا لاہور برابر ہیں۔