تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     01-09-2021

صرف اور صرف مشق

لوگ زندگی بھر مہارت کے حصول کے لیے سرگرداں رہتے ہیں۔ یہ بالکل فطری امر ہے کیونکہ کم و بیش ہر انسان میں کسی نہ کسی حوالے سے مہارت کے حصول کی خواہش پائی جاتی ہے۔ جو لوگ اس خواہش کو ڈھنگ سے پروان چڑھاتے ہیں وہی کچھ کر پاتے ہیں۔ انسان میں کوئی بھی رجحان ہوسکتا ہے۔ اسی کو بنیادی صلاحیت (ٹیلنٹ) کہتے ہیں۔ محض بنیادی صلاحیت کا حامل ہونے سے کوئی زیادہ دور تک نہیں جا پاتا۔ سوال یہ ہے کہ رجحان کی شکل میں اللہ نے انسان کو جو صلاحیت بخشی ہے وہ اُسے پروان چڑھانے اور بروئے کار لانے کے لیے کیا کرتا ہے۔ بہت سے لوگ زندگی بھر زیادہ سے زیادہ مہارت کا حصول یقینی بنانے کے لیے پڑھتے بھی ہیں اور کامیاب افراد سے ملاقاتیں بھی کرتے ہیں تاکہ اُن کی مہارت اور عظمت کا راز جان سکیں۔ جب کوئی گلوکار اپنی کامیابیوں کے بارے میں بتارہا ہوتا ہے تب لوگ غور سے سنتے ہیں۔ جب کوئی کھلاڑی اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی جدوجہد کے بارے میں بتارہا ہوتا ہے تب بھی لوگ دھیان دیتے ہیں۔ ایسی باتوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے مگر سوال محض سیکھنے کا نہیں‘ کرنے کا ہے۔ جو کچھ کسی بھی کامیاب انسان نے کیا ہے وہی آپ کو بھی کرنا ہے تاکہ آپ بھی کامیابی کی منزل تک پہنچ سکیں۔
زندگی بھر غیر معمولی مہارت کا حصول یقینی بنانے کی خواہش کے حامل اس نکتے پر کم ہی غور کرتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہے وہ مشق کا نتیجہ ہے۔ جو جتنی زیادہ مشق کرتا ہے وہ اُسی قدر کامیاب رہتا ہے۔ فن کی دنیا پر نظر دوڑائیے تو اندازہ ہوگا کہ ہر بڑے فنکار نے زندگی بھر محنت کی ہے یعنی مشق کی منزل سے گزرا ہے۔ کسی کی باتوں سے متاثر ہونے اور مشق کے ذریعے اپنے معیار کو بلند کرنے میں بہت فرق ہے۔ یونان کے عظیم فلسفی ارسطو نے کہا تھا کہ کسی بھی شعبے میں غیر معمولی مہارت اس کے سوا کچھ نہیں کہ تواتر سے مشق کی جائے۔ کسی بھی کام کو سیکھ لینا کافی نہیں۔ اس کی بہترین مثال گلوکاری کی ہے۔ کسی استاد سے سبق لینے والا نوجوان راگوں کے بارے میں سب کچھ جان سکتا ہے۔ وہ گانا بھی سیکھ لیتا ہے مگر اس کے فن میں نکھار صرف مشق سے پیدا ہوتا ہے۔ مشق کے لیے کسی استاد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ کام انسان کو خود ہی کرنا ہوتا ہے۔ اگر کسی نے ستار بجانا سکھادیا ہے تو بس اتنا کافی نہیں۔ یومیہ بنیاد پر ستار بجانے کی مشق ہی کسی کو کامیاب ستار نواز بناسکتی ہے۔ کسی بھی بڑے فنکار کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اس کا زیادہ وقت مشق (ریاض) میں گزرتا ہے۔ مشق ہی سے کوئی بھی فنکار عظمت کا حامل ہو پاتا ہے۔ مہارت بذریعۂ مشق کے معاملے میں کنویں اور بورنگ کا اصول یاد رکھیے۔ جب ہم کہیں بورنگ کراتے ہیں تو دریافت ہونے والا پانی بالعموم تھوڑا سا کھاری ہوتا ہے۔ کہیں کہیں پانی انتہائی کھاری ہوتا ہے۔ اس پانی کو قابلِ استعمال بنانے کے لیے کیا کریں؟ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ کنویں کے پانی کو پینے کے قابل بنانے والا پلانٹ لگایا جائے۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو دوسرا، آسان تر مگر تھوڑا صبر آزما طریقہ یہ ہے کہ بورنگ کا پانی نکالا جاتا رہے۔ نکالے جاتے رہنے سے پانی کا معیار بلند ہوتا جاتا ہے اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جہاں سے کھاری پانی نکلتا تھا وہاں سے ایسا شیریں پانی بھی نکلنے لگتا ہے جو پینے کے قابل ہو۔
غور کیجیے تو انسان کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ جب ہم کوئی ہنر سیکھتے ہیں تو اُس کی مبادیات ہی سے واقف ہو پاتے ہیں۔ کسی بھی ہنر کی مبادیات یعنی بنیادی باتوں سے واقف ہو جانا مہارت کی علامت ہے نہ ضمانت۔ کوئی کسی سے سلائی سیکھتا ہے تو سیکھتے ہی ماہر نہیں ہو جاتا۔ مہارت پیدا ہوتی ہے دن رات وہ کام کرتے رہنے سے۔ دن رات کپڑے سیتے رہنے سے ہاتھ سیٹ ہو جاتا ہے یعنی ایسی مشق ہو جاتی ہے کہ جس چیز کو بھی سینے بیٹھیے اسے تیار کرنے کا دورانیہ گھٹتا جاتا ہے۔ فرنیچر تیار کرنے والے جب بہت کام کرتے ہیں تو ایسی روانی آ جاتی ہے کہ کام معیاری بھی ہوتا ہے اور کسی آئٹم کو تیار کرنے میں زیادہ وقت بھی نہیں لگتا۔ کسی بھی اداکار سے پوچھئے کہ اُس کی کامیابی کا راز کیا ہے تو بہت سے معاملات گِنوائے گا۔ وہ بتائے گا کہ اُس نے فلاں ادارے سے اداکاری کی تربیت حاصل کی اور فلاں فلاں اداکاروں کے فن سے متاثر ہوا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی بتائے گا کہ وہ فلاں فلاں فلم یا ڈرامے سے متاثر ہوا ہے۔ ہاں، ایک بات وہ زیادہ زور دے کر بیان کرے گا‘ یہ کہ ریہرسل کرتے رہنے سے فن کو جِلا ملتی ہے! کامیاب اداکاری اور کامیاب گلوکاری ریہرسل کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ مشق اور ریہرسل میں تھوڑا سا فرق ہے۔ مشق کہتے ہیں یومیہ بنیاد پر کی جانے والی وہ پریکٹس جو فن کو مجموعی طور پر جِلا بخشنے کے لیے کی جاتی ہے۔ ریہرسل وہ پریکٹس ہے جو کسی خاص چیز یا آئٹم کے لیے کی جائے۔ ایک زمانہ تھا کہ گلوکار کسی گانے کو جاندار، شاندار اور یادگار بنانے کے لیے کئی کئی دن ریہرسل کرتے تھے۔ ایسا بھی ہوا کہ کوئی گانا ریکارڈ کیا گیا مگر گانے والے کو مزا نہ آیا اور اُس نے خود ہی کہا کہ دوبارہ ریکارڈ کیا جائے۔ کبھی کبھی ایک ہی گانا متعدد مرتبہ ریکارڈ کیے جانے کے بعد اوکے ہوا۔ ایسے گانے آج تک زندہ ہیں۔ کوئی بھی فنکار اپنے فن کا جادو اُسی وقت جگا سکتا ہے جب اُس نے خوب مشق کی ہو، غیر معمولی ریہرسل کے مرحلے سے گزرا ہو۔
شہنشاہِ غزل مہدی حسن نے ''احسان‘‘ میں ایک شاندار غزل گائی تھی جس کا مطلع تھا ؎
اِک نئے موڑ پہ لے آئے ہیں حالات مجھے
دل نے جو مانگی وہی مل گئی سوغات مجھے
''احسان‘‘ کی موسیقی سہیل رعناؔ نے ترتیب دی تھی۔ اُنہوں نے جب اِس غزل کی دُھن مرتب کرلی تو مہدی حسن صاحب کو یاد کرانے کے بعد کہا: آئیے ریکارڈنگ کرتے ہیں۔ مہدی حسن صاحب نے ہنستے ہوئے کہا: بھائی پہلے پکا تو لینے دو۔ تین دن کے بعد ریکارڈنگ ہوئی۔ اس دوران مہدی حسن صاحب نے اس غزل کی درجنوں بار ریہرسل کی۔ مقصود یہ تھا کہ ریکارڈنگ میں وہی نزاکت اور نفاست دکھائی دے جو درکار ہے۔ اب اس پر حیرت کیوں ہو کہ یہ فلمی غزل آج بھی زندہ ہے۔ کچھ کچھ ایسا ہی معاملہ حمید کاشمیری مرحوم کا بھی تھا۔ انہوں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی جب لکھنے کے شوق کا اظہار کیا تو ابراہیم جلیس مرحوم نے مشورہ دیا کہ پانچ سال تک کچھ نہ لکھنا، صرف پڑھتے رہنا۔ مقصود یہ تھا کہ وہ سب کے اسلوبِ تحریر سے بھی وقف ہو جائیں، ذخیرۂ الفاظ بھی بڑھ جائے اور ذہن نئے خیالات کو پروان چڑھانے کی اہلیت کا حامل ہو جائے۔ حمید کاشمیری مرحوم نے ایسا ہی کیا۔ اور پھر جب وہ لکھنے کی طرف آئے تو منفرد اسلوب سے رات دن لکھتے ہی چلے گئے۔ پاپولر فکشن میں ان کا نام اب بھی زندہ ہے۔
مشق کا لطف بھی اُسی وقت آتا ہے جب انسان اپنے کام سے محبت کرتا ہے، اُس میں خاطر خواہ دلچسپی لیتا ہے۔ دلچسپی لینے سے کام کا معیار بلند ہوتا چلا جاتا ہے۔ دل سے کیا جانے والا کام انسان کو لطف بھی دیتا ہے اور مطلوبہ معیار تک پہنچنا کچھ زیادہ مشکل بھی نہیں رہتا۔ لکھاری بھی وہی کامیاب رہتے ہیں جو مطالعہ جاری رکھتے ہیں۔ باقاعدگی سے کیا جانے والا مطالعہ لکھاری کے فن کو زندہ ہی نہیں، تازہ بھی رکھتا ہے۔ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی جاننا ہے اور دوسروں کو بھی پڑھتے رہنا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اُن کی نقّالی سے بچنے اور کچھ نیا کرنے کا شعور پیدا ہوتا ہے۔
حتمی تجزیے میں کوئی ایک بھی فن یا ہنر ایسا نہیں جس کے بارے میں کوئی یہ دعویٰ کرسکے کہ وہ مکمل طور پر سیکھ لیا گیا ہے اور اب مزید کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ ہر فن اس امر کا متقاضی رہتا ہے کہ اُسے سیکھا جاتا رہے۔ سیکھنے کا لازمی مطلب یہ نہیں کہ کسی سے کوئی نئی بات سیکھی جائے۔ مشق بھی اپنے آپ کو کچھ نہ کچھ نیا سکھاتے رہنے ہی کا عمل ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved