بالآخر 31اگست کی ڈیڈ لائن گزر گئی۔ افغانستان سے آخری امریکی فوجی بھی پرواز کرگیا۔ دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے بلکہ مجھے تو کئی مصرعے اور نظم کے ٹکڑے یاد آنے لگے۔ احمد مشتاق نے کہا تھا: گئی وہ شب جو کبھی ختم ہی نہ ہوتی تھی۔ اور راشد کی نظم کا ٹکڑا ہے: شہر کی فصیلوں پر/ دیو کا جو سایہ تھا/ پاک ہوگیا آخر/ رات کا لبادہ بھی چاک ہوگیا آخر/ خاک ہوگیا آخر۔ لیکن یہ گھڑی بہت کٹھنائیوں کے بعد آئی۔ میں اس آخری امریکی میجر جنرل کی تصویر دیکھ رہا تھا جو تھکے قدموں اور شکست خوردہ بدن کی زبان کے ساتھ جہاز پر سوار ہونے آرہا ہے، اور مجھے وہ سب کٹے پھٹے بدن یاد آرہے تھے جنہوں نے لاکھوں کی تعداد میں قربان ہونا قبول کیا تھا لیکن غیرملکیوں تلے رہنا قبول نہیں کیا تھا۔
پچھلے کالم میں بات اس تکون کی چل رہی تھی جسے پاکستان، افغانستان اور ہندوستان کہتے ہیں۔ پاکستان، ہندوستان‘ وہ دو ازلی حریف جو اس مٹی اڑاتی زمین پر بیس سال تک بغیر فوج کے جنگ لڑتے رہے‘ اور آخر اس جنگ کا نتیجہ پاکستان کے حق میں نکل آیا۔
ہندوستان اور طالبان کی آپس میں ایک دوسرے کے لیے ناپسندیدگی بالکل عیاں تھی جس کی بنیاد نظریاتی اور مذہبی تھی لیکن اس میں کئی تلخ واقعات نے اضافہ کردیا تھا۔ ایسے میں جب کابل حکومت تاش کے پتوں کی طرح گری اور اشرف غنی نے اچانک راہِ فرار اختیار کی تو یہ باقی دنیا کی طرح ہندوستان کے لیے بھی بہت غیرمتوقع تھا۔ یہ تو ہندوستان کے پالیسی ساز دماغوں کو بھی نظر آرہا تھاکہ یہ سب ہونا ہے اورکچھ عرصے سے دوحہ میں ہندوستان نے طالبان نمائندوں سے ملاقات اور رابطے کی کوششیں بھی شروع کردی تھیں‘ لیکن ایسا اچانک انہدام کسی نے نہیں سوچا تھا‘ چنانچہ ایک سکتے میں رہ جانے والے ہنوز مستقبل کا فیصلہ نہیں کرپا رہے۔ تجربہ کار سفارتکاروں نے یہی مشورہ دیا تھا کہ دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی ہی ان حالات میں سب سے بہتر ہوگی۔ ایسے میں ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ڈھکی چھپی ٹویٹ کی جس میں نام لیے بغیر طالبان پر تنقیدکی اور انہیں دہشت گرد قرار دیا۔ اس کے جواب میں ملا شہاب الدین دلاور نے‘ جو طالبان کے اہم رہنما مانے جاتے ہیں، پلٹ کر سخت جواب دیا جس میں ہندوستانی حکومت کو تلقین کی گئی تھی کہ وہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہے۔ اس مکالمے نے معاملات اور تلخ کردئیے۔ ہندوستان کے پاس بظاہر اب طالبان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے اور نرم رویہ رکھنے کے سوا کافی مدت تک کے لیے کوئی آپشن نہیں بچا۔ میرے خیال میں وہ دو اہم معاملات جنہوں نے ہندوستان کوافغانستان کی گیم سے باہر کردیا یہ ہیں کہ اول انہوں نے طالبان سے رابطے کرنے میں بہت دیر کردی۔ دوسرے دوحہ مذاکرات سے ہندوستان کا باہر اور غیرمتعلق رہ جانا وہ حتمی معاملہ تھا جس نے ہندوستان کو بالکل چت کردیا‘ اور جس پرآخری کیل کابل پر قبضے نے ٹھونک دی۔ نئی دہلی اب مسلسل انتظار کی کیفیت میں ہے۔ سلامتی کونسل کی قرارداد جو کل ہی پاس ہوئی‘ اس پالیسی میں بنیادی تبدیلی کا اشارہ ہے جو ہندوستان میں خواہی نخواہی متوقع ہے۔
پاکستان2001 کے بعد سے ایک کانٹوں اور پتھروں بھری راہ سے گزرا ہے۔ نہایت ہی مشکل راستہ جس میں پرویز مشرف کی سنگین غلطیوں اور فیصلوں کے باوجود پاکستان مجموعی طور پر چلتا رہا۔ مجھے نہیں معلوم کہ2001 کے افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف سے کس طرح آنکھیں چار کی جائیں گی جنہیں گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کردیا گیا تھا۔ اسی طرح دیگر طالبان رہنماؤں سے بھی جنہیں قید و بند اور سختیوں کی زندگی برداشت کرنا پڑی لیکن طالبان کو یہ اندازہ ضرور ہوگا کہ چند افراد کی ان غلطیوں سے قطع نظر ان کو حمایت و تائید بھی ملتی رہی۔ اس کے لیے حد درجہ دباؤ بھی برداشت کرتی رہیں اور مالی نقصان سمیت جانی قربانیاں بھی ہزاروں کی تعداد میں دی گئیں۔
بین الاقوامی اور مقامی میڈیا کی تمام تر چیخ و پکار اور الزام تراشی کے باوجود یہ بات شروع سے عیاں تھی کہ یہ جنگ پاکستان کے نہ صرف مفاد میں نہیں ہے بلکہ اس کا ایک مقصد پاکستان کو گھیرنا اور تباہ کرنا ہے۔ ہندوستان کو زبردستی افغان معاملات میں فریق بنانا اس کا واضح اشارہ تھا جس کا مقصد پاکستان کی مغربی سرحد کو غیرمحفوظ کرنا اور دباؤ ڈال کر من پسند پالیسیاں بنوانا تھا‘ لیکن حکومت، انٹیلی جنس ایجنسیز اور فوج کے ان فیصلہ سازوں کو بہرحال یہ کریڈٹ دینا پڑے گا جنہوں نے یہ دباؤ برداشت کیا لیکن اپنے بنیادی مؤقف سے نہیں ہٹے۔
ا س استقامت کا صلہ 15اگست کو مل گیا۔ اس کے آثار بہت پہلے سے واضح ہونا شروع ہوگئے تھے۔ پاکستانی اور عالمی فوجی ماہرین بتا چکے تھے کہ امریکہ اور نیٹو یہ جنگ ہار رہے ہیں لیکن جس سرعت کے ساتھ یہ سب کچھ ہوا اس نے دوستوں اور دشمنوں سب کو ششدر کرکے رکھ دیا۔ الجزیرہ نیوز نے 29 اگست کو ولسن سنٹر کے ایشیا پروگرام کے ڈپٹی دائریکٹر مائیکل کوگلمین کا تبصرہ نقل کیا ہے کہ ہندوستان کابل حکومت کے قریب ترین پارٹنر کی حیثیت سے اچانک خطے میں سب سے زیادہ نقصان میں رہنے والا ملک بن گیا ہے۔ وائس آف امریکہ کے 25اگست کے آرٹیکل پاکستان کی فتح؟ میں کہا گیا کہ پاکستان میں خوشی کا اظہار وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان سے بھی ہوتا ہے کہ افغانستان نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔ (اس بیان پر ہندوستانی اور عالمی میڈیا نے بہت سے تبصرے کیے ہیں)۔ پاکستان کے لیے ایک اہم تبدیلی عبدالقیوم ذاکر کا بطور افغان وزیر دفاع تقرر ہے۔ عبدالقیوم ذاکر2010 سے کافی مدت گوانتانامو کی پُراذیت جیل میں رہے ہیں۔ ان کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عبدالقیوم ذاکر کی رہائی بھی پاکستانی کوششوں سے ہوئی تھی۔ وائس آف امریکہ کے اس آرٹیکل میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستانی ایجنسی کے دباؤ کی وجہ سے بلوچستان ڈرون حملوں سے باہر رکھا گیا جہاں مبینہ طورپر طالبان رہنماؤں کی قیادت موجود تھی۔ پاکستان پر ڈبل گیم کا الزام تو ہمیشہ سے رہا ہے۔ سابقہ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے بھی یہی الزام صاف لفظوں میں دہرایا تھا لیکن رچرڈ ہالبروک کے الفاظ یاد کریں جو انہوں نے اپنے دور میں افغانستان میں تھک ہار کر کہے تھے۔ کہا تھا: مجھے لگتا ہے کہ ہم غلط ملک میں غلط دشمن سے لڑرہے ہیں۔ ماضی میں ڈبل گیم کی بات بہت بار کی گئی اور ہر ایک نے اس معاملے کو اپنے مفاد اور اپنی عینک سے دیکھا‘ لیکن اگر یہ راہ اختیار نہ کی جاتی تو آج بہت سے مسائل کا سامنا ہو سکتا تھا ۔ سٹریٹیجک گہرائی کا نظریہ ہی وہ نظریہ تھا جس نے بالآخر پاکستان کو کامیابی سے ہم کنار کیا۔
لیکن یہ معاملات ایک طرف، پاکستان کے خدشات اور اندیشے دوسری طرف۔ جب تک مغربی سرحدیں بالکل محفوظ نہیں ہو جاتیں۔ جب تک ٹی ٹی پی کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ جب تک بلوچستان کے شر پسند عناصر افغانستان سے بے دخل نہیں کر دئیے جاتے، جب تک دونوں ملکوں میں بہترین تجارتی روابط شروع نہیں ہو جاتے اور سب سے اہم یہ کہ جب تک تمام افغان مہاجرین پاکستان سے واپس نہیں چلے جاتے۔ افغان مہاجرین کی وجہ سے جنہیں اسلامی اخوت اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہی پناہیں دی گئی تھیں، پاکستان اندرونی طور پر بہت انتشار کا شکار رہا اور شر پسندوں کو بھی یہ پناہ گاہیں راس آتی رہیں۔ موجودہ اطمینان اپنی جگہ درست لیکن جب تک یہ معاملات حل نہیں ہوتے یہ کامیابی، یہ عمارت زیر تعمیر ہی رہے گی۔ (ختم)