پہلے نواز شریف نے مجبور کیا، اب کسی نے
تنگ نہ کیا تو اگلا الیکشن نہیں لڑوں گا: شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''پہلے نواز شریف نے مجبور کیا، اب کسی نے تنگ نہ کیا تو اگلا الیکشن نہیں لڑوں گا‘‘ اور میری مجبوری یہ ہے کہ میں تنگ بھی بہت جلدی ہو جاتا ہوں جس کے لیے بس ایک اشارے کی دیر ہوتی ہے اور اگر اگلی بار عمران خان نے اشارہ نہ کیا تو میں الیکشن ہرگز نہیں لڑوں گا اور امید ہے کہ نواز شریف بھی مجھے پہلے کی طرح مجبور نہیں کریں گے اور اگر انہوں نے کسی طریقے سے مجبور کر لیا تو اور بات ہے لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ اس بار مجھے کون تنگ کرتا ہے اور کون مجبور، کیونکہ اس سلسلے میں سب میری زود آمادگی کے بھی معترف ہیں اور طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ انہیں اور کوئی کام ہی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
پنجاب میں میوزیکل چیئر کا کھیل کھیلا جا رہا: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''پنجاب کے انتظامی امور میں میوزیکل چیئر کا کھیل کھیلا جا رہا ہے‘‘ اور نت نئے تبادلوں سے افسران کو تنگ اور پریشان کیا جا رہا ہے کیونکہ وہ ہمارے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں جبکہ یہ سارے ہمارے ہی لگائے ہوئے پودے ہیں‘جنہیں ہم نے اپنے ادوار میں بھرتی کیا تھا وہ اب اعلیٰ عہدوں تک پہنچ چکے ہیں اور ہمارے ساتھ اپنی وفاداری نبھا رہے ہیں۔ اس دور میں عہدوں کی سیل لگی ہوئی تھی اور ایک ایک گھر سے دو دو افراد بھرتی کیے جا رہے تھے اور اب وہی دور اندیشی ہمارے کام آ رہی ہے یعنی کر بھلا سو ہو بھلا۔آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
نواز شریف عدالتی نظام پر اعتماد کرتے
ہوئے واپس آئیں: فرخ حبیب
وزیر مملکت فرخ حبیب نے کہا ہے کہ ''نواز شریف عدالتی نظام پر اعتماد کرتے ہوئے واپس آئیں‘‘ اگرچہ نظام پر ان کے اعتماد ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ آنے کا نام نہیں لے رہے کیونکہ انہیں اچھی طرح سے علم ہے کہ وہ سزا یافتہ ہیں‘ نیز واپسی کا وعدہ کرنے کے باوجود واپس نہیں آ ر ہے کہ قانون پر عملدرآمد کرتے ہوئے انہیں اپنی سزا بھگتنے کے لیے جیل بھیج دیا جائے گا اور جس کا مطلب یہ ہے کہ نظام پر پہلے ہی ان کا پختہ یقین ہے اور حکومت بھی ان کی کوئی مدد نہیں کرے گی کہ حکومت ہی کو بیوقوف بنا کر وہ باہر جانے میں کامیاب ہوئے تھے۔آپ اگلے روز نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
قومی حکومت‘ شہباز شریف کا ذاتی نظریہ ہے:مریم
نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف کی قومی حکومت والی بات ذاتی نظریہ‘ پارٹی سے متعلق نہیں‘‘ اور یہ پارٹی میں اتحاد کا مظہر ہے کیونکہ ہماری جماعت ایک جمہوری پارٹی ہے جس میں ایک دوسرے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہوتا اور اگر انہوں نے یہ بیان قومی حکومت میں شامل ہو کر اپنی سیاست بچانے کیلئے دیا ہے تو انہوں نے ایک فرض ادا کیا ہے کیونکہ جان بچانا فرض ہے اور اگر اس میں پارٹی کے قائد نواز شریف اور باقی لوگوں کی جان بچانا بھی شامل ہے تو ان کی اجازت کے بغیر وہ ایسا بیان نہیں دے سکتے۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
ہر پاکستانی اب ایک لاکھ پچھتر ہزار
کا مقروض ہو چکا ہے: شیری رحمن
پیپلز پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمن نے کہا ہے کہ ''ہر پاکستانی اب ایک لاکھ پچھتر ہزار کا مقروض ہو چکا ہے‘‘ اور جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک سے غربت واقعی ختم ہو رہی ہے کیونکہ ایک غریب آدمی کو اتنا قرضہ کون دے سکتا ہے اور یہ قرضہ اس نے ضرور کسی کاروبار پر لگایا ہو گا جس سے اب وہ کھاتے پیتے لوگوں میں شمارہونے لگا ہے اور حکومت کے اس دعوے پر یقین کرنا ہی پڑتا ہے کہ ملکی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکی ہے اور امید ہے کہ اس قرضے میں روز بروز اضافہ ہوتا جائے گا اور غریبوں کی سرمایہ کاری بھی اسی حساب سے بڑھتی جائے گی اور دولت بھی‘ اور یہ ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی بھی ہے کہ اگر غریبوں کی یہ کایا کلپ ہوتی رہے گی تو اگلے الیکشن میں ہمیں کون پوچھے گا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
شہباز شریف دھکے سے حکومت میں
شامل ہونا چاہتے ہیں: فواد چودھری
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف دھکے سے حکومت میں شامل ہونا چاہتے ہیں‘‘ جبکہ اس دھکے سے وہ حکومت کو تو گرا نہیں سکے حالانکہ حکومت پر کئی مراحل ایسے بھی آئے تھے کہ حکومت کی دیوار گرانے کے لیے صرف ایک دھکا ہی درکار تھا لیکن یہ ٹولہ اس کے بجائے آپس میں ہی دھکم پیل کرتا رہا اور حکومت ان کی طرف رحم کھاتی ہوئی نظروں سے دیکھتی رہی اور ساتھ ساتھ اپنی گرتی ہوئی دیوار کی مرمت بھی کرتی رہی اور اس طرح اپوزیشن نے ایک سنہری موقع کھو دیا جبکہ ایسے مواقع زندگی میں بار بار نہیں آتے حتیٰ کہ ان کا انتظار کرتے کرتے آدمی کا وقت پورا ہو جاتا ہے اور اسے عبرت حاصل کرنے کی بھی فرصت نہیں ملتی۔ آپ اگلے روز کابینہ اجلاس کے بعد پریس کو بریفنگ دے رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں قمر رضا شہزاد کا تازہ کلام:
ایک آنسو ہی بہا سکتا میں
شہر کو جس میں بہا سکتا میں
کوئی رکتا کہ نہ رکتا، لیکن
ایک آواز لگا سکتا میں
دیکھتا رہتا ہوں پتھر کی طرف
کاش رستے سے ہٹا سکتا میں
قید میں اتنی اجازت ہوتی
اپنی زنجیر ہلا سکتا میں
خیر دنیا سے تو کیا لڑ سکتا
خود سے ہی جان چھڑا سکتا میں
کیا تھا اس کارِ سُخن میں درکار
ایک دوشعر کما سکتا میں
٭......٭......٭
لہر لے جائے، نائو لے جائے
اب جدھر بھی بہائو لے جائے
میں بھی یوسف نہیں کہ تُو مجھ کو
ایک اٹی کے بھائو لے جائے
اس جہنم کدے سے ہر اک شخص
اپنا اپنا الائو لے جائے
میں یہاں آخری مسافر ہوں
کب مجھے میری نائو لے جائے
آج کا مطلع
چلو اتنی تو آسانی رہے گی
ملیں گے اور پریشانی رہے گی