تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     02-09-2021

دعا کس نے مانگی؟

وہ یتیم بچی‘ جو اپنی شوگر کی مریضہ معذور ماں کے ساتھ لاہور کی ایک کچی اور نواحی آبادی میں رہ رہی ہے‘ جس کی گزر اوقات اور بیمار ماں کے علاج کیلئے ایک نیک اور خدا ترس انسان ہر ماہ اپنی کمائی کا کچھ حصہ چند برسوں سے بلاناغہ بھیج رہا ہے۔ یہ بچی‘ جو اب قرآنِ پاک کی حافظہ بھی بن چکی ہے‘ نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ جس خاتون سے اس نے قرآنِ مجید پڑھنا سیکھا تھا‘ وہ بہت سخت پریشان ہے اور ان کا ایک سال کا بچہ اور بوڑھی ماں بھوک سے بلک رہے ہیں۔ وہ بچی یہ منظر دیکھ کر اٹھ گئی اور گھڑی دیکھ دیکھ کر انتظار کرنے لگی۔ صبح سویرے ہی ان کے گھر جا پہنچی۔ استانی جی نے اسے گھر کے اندر بلا لیا مگر اسے حیرانی اس بات پر ہوئی کہ اس کے آنے کے باوجود اس کی استانی جی نے اپنا عبایا نہیں اتارا۔ اس وقت بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کمرے میں سخت گرمی اور حبس تھا۔ لاہور کے نواحی علاقے میں ٹیڑھی میڑھی تنگ گلیوں کے اندر یہ ایک چھوٹا سا گھر‘ جہاں بجلی دس سے بارہ گھنٹے تک آنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی‘ ویسے بھی کافی حبس زدہ تھا۔ جب اگلے چند منٹوں بعد بھی استانی جی نے برقع نہیں اتارا تو اس بچی نے کہا: آپی جی آپ عبایا اتار کیوں نہیں دیتیں؟ اس پر اس خاتون نے جو وجہ بتائی‘ اس نے بچی کو تڑپا کر رکھ دیا۔ اس خاتون کا کہنا تھا کہ اس کا لباس پرانا اور بوسیدہ ہونے کی وجہ سے کئی جگہ سے تار تار ہے اور وہ شرم و حیا کی ماری خود کو اس حبس اور گرمی کے موسم میں بھی عبایا میں چھپا رہی ہے۔
استانی جی جب بیاہ کر سسرال گئیں تو انہوں نے سسرال والوں کو صاف صاف بتا دیا تھا کہ وہ گھر میں آنے والے غیر محرم افراد سے پردہ کریں گی جس پر کافی لے دے شروع ہو گئی تھی۔ یہ سلسلہ چند ماہ تک چلتا رہا، آئے روز شوہر اور ساس سمیت دوسرے سسرالیوں سے ان کا جھگڑا رہنے لگا لیکن وہ ہر دفعہ ان کے سامنے قرآنِ پاک کی سورۃ النسا کی مذکورہ آیات پیش کرتیں اور کہتیں کہ میں چونکہ خود قرآنِ مجید کی حافظہ ہوں‘ اس لیے اس کے ہر حکم پر عمل کرنا میرے لیے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ شوہر اور سسرال والے ان دلیلوں سے مطمئن نہ ہو سکے اور جھگڑا مزید بڑھنے لگا، نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ عرصے کے بعد‘ ایک بچے کے ساتھ انہیں طلاق ہو گئی اور وہ اپنی ماں کے پاس آ گئیں جو خود کرائے کی ایک کوٹھری میں رہ رہی تھی۔ یہ اسی معاشرے کی بات ہو رہی ہے کہ جہاں ایک جانب ایک ٹک ٹاکر اور ہماری سوسائٹی کا تاریک چہرہ ہے اور دوسری طرف یہ خاتون‘ جس نے احکامات الٰہی کی پابندی کی خاطر پوری دنیا کو ٹھکرا دیا۔ یہ معاملہ معاشرے اور سوسائٹی پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ ان باتوں سے کیا سبق لیتے اور ان سے متعلق کیا سوچتے ہیں، ہم یہاں پر کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر رہے۔ بات ہو رہی تھی اس یتیم بچی کی‘ جس نے خواب میں اپنی استانی جی کو پریشان حالت میں دیکھا تھا۔ وہ خود اپنی معذور ماں کے ساتھ دوسروں کی مدد سے اپنا گزارہ کر رہی تھی۔ استانی جی کی کہانی سننے کے بعد وہ تیزی سے گھر کو پلٹی اور اپنے کچھ اَن سلے کپڑے اور اپنی بچت میں سے چند ہزار روپے لے کر گئی اور وہاں جا کر استانی جی کے قدموں میں بیٹھ گئی۔ استانی جی کے گھر میں آج بھی کسی غیر محرم کو جانے کی اجازت نہیں ہے، اگر کوئی تصدیق کرنا چاہے تو کوئی گھریلو خاتون وہاں جا سکتی ہے۔
لاہور میں واقع ایک انتہائی مہنگے اور جدید ہسپتال کے آئی سی یو کے باہر تین چار مالدار تاجر حضرات کو سینئر ڈاکٹرز کے آگے ہاتھ جوڑ کر‘ ان کے ترلے منتیں کرتے ہوئے یہ کہتے سنا ''ڈاکٹر صاحب! میں اسی وقت آپ کو کروڑ‘ دو کروڑ دینے کو تیار ہوں اللہ کا واسطہ ہے کہ میرا بچہ بچا لیجیے‘‘۔ تمام ڈاکٹرز مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے انہیں سمجھا رہے تھے کہ معاملہ اب میڈیکل سائنس سے نکل کر خدا کے ہاتھوں میں جا چکا ہے، آپ اللہ سے اپنے بچے کی زندگی مانگئے۔
ایک نوجوان‘ جو شاید کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتا تھا‘ کا بچہ پیدا ہوتے ہی نجانے کس پیچیدہ بیماری میں مبتلا ہو گیا کہ اسے فوری طور پر آئی سی یو میں ایڈمٹ کر لیا گیا اور نوجوان کو فوری طور پر دس لاکھ روپے جمع کرانے کا کہا گیا۔ وہ چند گھنٹے کی مہلت لے کر گیا اور جب واپس آیا تو پسینے میں شرابور تھا۔ ہاتھوں میں پکڑے نوٹوں کے بنڈل لیے وہ تیزی سے کیش کائونٹر کی جانب بڑھا۔ تھوڑی دیر بعد پتا چلا کہ وہ اپنی نئی گاڑی ایک شو روم پر بیچ کر آیا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اپنے بچے کی زندگی بچانے کے لئے اگر اسے اپنا گھر بھی بیچنا پڑا تو وہ ایک لمحے کا توقف نہیں کرے گا۔
مڈل کلاس کا ایک خاندان‘ جس کو قدرت نے بیس برس بعد پوتے کی شکل میں نرینہ اولاد سے نوازا تھا‘ ابھی خوشیاں منا ہی رہا تھا کہ نومولود کو اپنی پیدائش کے دوسرے ہی دن کچھ ایسی تکلیف ہوئی کہ اسے لاہور کے اسی ہسپتال کے چائلڈ آئی سی یو میں داخل کرا دیا گیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ شاید بیس برس بعد ان کے آنگن میں کھلنے والا یہ پھول انہیں زندگی بھر کا دکھ دے جائے گا۔ ہر ماہ کے اولین دنوں میں اس خاندان کا سربراہ ایک بیوہ اور اس کے دو معصوم بچوں کو راشن بھجوایا کرتا تھا جبکہ بجلی کے بل اور ماہانہ گزارے کیلئے بھی کچھ رقم بغیر کسی ناغے کے انہیں مل جاتی تھی۔ جب نومولود پوتے کی سانس کی ڈوری ٹوٹنا شروع ہوئی اور ڈاکٹروں نے بے بسی سے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے انہیں دعا کرنے کا کہا تو دادا کی آنکھیں دکھ اور تکلیف سے نمناک ہو گئیں اور اس نے وہیں ہسپتال کی انتظار گاہ میں سجدے میں گر کر اللہ سے بچے کی زندگی کے لیے رو رو کر فریاد کرنا شروع کر دی۔ سجدے کی حالت میں ہچکیاں لیتے ہوئے اس کی آنکھوں کے سامنے ایک منظر گھوم گیا۔ اس نے دیکھا کہ وہی بیوہ اور یتیم بچے‘ جنہیں ہر ماہ وہ راشن اور کچھ رقم بھیجتا ہے‘ ہاتھ اٹھائے آسمان کی طرف منہ کیے اس کے پوتے کی طویل عمر اور اچھی زندگی کیلئے دعا کر رہے ہیں۔ پھر وہ معجزہ اس ہسپتال کے ڈاکٹرز سمیت سب نے دیکھا کہ سجدے میں گرے دادا جی اور بچے کے باپ کو وہیں انتظار گاہ میں خبر دی گئی کہ بچے کی سانسیں بحال ہو گئی ہیں اور اب بچہ خطرے سے باہر ہے۔ پھر دو دنوں بعد وہ بچہ صحت مند ہو کر اپنے گھر چلا گیا۔
آئی سی یو اور سی سی یو کے باہر ہسپتال کی ایئر کنڈیشنڈ اور آرام دہ انتظار گاہ میں بے چینی سے گھومتے ہوئے جوڑے کبھی ہسپتال کے انچارج اور توکبھی کسی سینئر اور اپنے شعبے کے ماہر پروفیسرز کے کمروں میں لاکھوں روپے لیے ایسے بھاگ دوڑ کر رہے تھے جیسے ان کی کوئی بہت ہی قیمتی چیز کہیں گم ہو گئی ہے جسے یہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ جیسے ہی آئی سی یو کا دروزہ کھلتا‘ یہ لوگ بھاگ کر وہاں سے نکلنے والے کی منت سماجت کرنے لگتے۔ یہ تو ظاہر تھا کہ چونکہ یہ ایک انتہائی مہنگا اور مشہور ہسپتال ہے‘ لہٰذا یہاں کوئی شوق سے، گھومنے پھرنے یا ہسپتال کو شاپنگ مال سمجھ کر نہیں آتا، اور یہ وارڈ تو ویسے بھی پیدائش کے فوری بعد نومود بچوں کی بیماریوں یا ان کے وجود میں پیدا ہونے والے کسی پیچیدہ نقص کے علاج کیلئے مخصوص تھا۔ جب آئی سی یو وارڈ سے سٹاف نے اُس بچے سے متعلق بتایا کہ وہ اب نارمل ہو کر سانسیں لے رہا ہے تو سب حیران ہونے لگے۔ یہ خبر آئی سی یو سمیت کیش کائونٹراور لیبارٹری سے ہوتے ہوئے پورے ہسپتال میں پھیل چکی تھی۔ نرسیں اور دوسرا سٹاف اس خاندان کو مبارکباد دے رہے تھے۔ ایسے میں وہ دوسرے مریض اور ان کے لواحقین جو کروڑوں روپے دیتے ہوئے اپنے بچوں اور عزیزوں کی زندگیوں کے لیے تڑپ رہے تھے‘ فوری طور پر بچے کے دادا جان کی طرف بھاگے اور آ کر ان سے پوچھنے لگے: انکل جی آپ نے سجدے میں گر کر روتے ہوئے جو دعا مانگی تھی‘ ہمیں بھی بتا دیں، اس پر انہوں نے کہا: بیٹا دعا میں نے نہیں‘ ایک بیوہ اور اس کے دو یتیم بچوں نے مانگی تھی، میں تو بس سجدے میں گرکر بے بسی سے رو رہا تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved