تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     02-09-2021

سونے اور ڈالر کے ملکی معیشت پر اثرات

پاکستانی معیشت کی درستی کا کسی حد تک انحصار احتساب کے نظام پر ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں آمدن کے ذرائع اور اسے ریکارڈ کرنے کے طریقہ کار بھی بدل گئے ہیں‘ اس لیے کسی غلطی اور بدعنوانی کو پکڑنے کے اصول بھی بدلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستانی معیشت کو بھی انہی اصولوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی گائیڈ لائنز اس حوالے سے کافی واضح ہیں۔ میں پچھلے کالموں میں اس بات کا ذکر کر چکا ہوں کہ ایف اے ٹی ایف پاکستان کے لیے زحمت سے زیادہ رحمت ہے‘ جس نے دہائیوں کی کمزوریوں پر تقریباً چار سالوں میں قابو پانے کے لیے راستہ فراہم کیا ہے۔ اس کے ساتھ حکومتی مشینری نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ بینک اکائونٹس کو بائیومیٹرک کرنے کا معاملہ سب کے سامنے ہے۔ اعلیٰ عدلیہ سمیت تمام اداروں نے اسے ممکن بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا جس سے بے نامی اکائونٹس پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے لیکن کچھ معاملات پر اب بھی تحفظات ہیں جن میں سونے کی تجارت سر فہرست ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت سے پہلے ایف بی آر نے اس معاملے کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔ حالیہ کچھ سالوں میں سونے کے کاروبار کے حوالے سے ایف بی آر میں اصلاحات سود مند ثابت دکھائی دے رہی ہیں۔ تحریک انصاف کی جانب سے 2019ء میں دی گئی پہلی ایمنسٹی سکیم میں سونے کے تاجروں کے لیے کوئی کالم شامل نہیں تھا۔ جب سونا رکھنے والوں نے ایمنسٹی حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو ان کے لیے خصوصی راستہ نکالا گیا جس کے بعد مبینہ طورپر پہلی مرتبہ پاکستان میں سونے کا کاروبار کرنے والوں نے ایمنسٹی حاصل کی۔ اس طریقۂ کار کے تحت سونے کی درآمد اور برآمد کرنے والے کئی تاجر ٹیکس نیٹ کا حصہ بنے لیکن مطلوبہ تعداد سے اب بھی خاصی کم ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 22 ہزارسے زیادہ سونے کے تاجر ایف بی آر میں رجسٹرڈ ہیں جبکہ ٹوٹل تاجروں کی تعداد تقریباً 60 ہزار سے کچھ زیادہ ہے۔ ان میں سے تقریباً 15 فیصد یعنی 9 ہزار ٹیکس فائلر ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں سے صرف اعشاریہ بیاسی فیصد ہی ایسے ہیں جنہوں نے ایک لاکھ روپے سے زیادہ ٹیکس جمع کرایا ہے۔ سیلز ٹیکس رجسٹرڈ افراد کی تعداد تقریباً گیارہ سو ہے جن میں سے ایکٹو 157 ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حکومت یہ جانتی ہے کہ 60 ہزار لوگ کاروبار کر رہے ہیں تو انہیں مکمل طور پر ٹیکس نیٹ میں لانے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے؟ غیر رجسٹرد لوگوں کے شناختی کارڈز کو نیشنل ٹیکس نمبر میں تبدیل کر کے انہیں مخصوص مدت تک ریٹرنز جمع کروانے کا پابند کر کے اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے نادرا اور ایف بی آر کے درمیان کئی میٹنگز ہو چکی ہیں لیکن ابھی تک کوئی نتیجہ نکلتا دکھائی نہیں دے رہا۔
پاکستان میں سونے کی تجارت ایک مخصوص قانون کے تحت ہوتی ہے۔ کاروباری حضرات ''انٹرسٹمنٹ سکیم‘‘ کے تحت سونا درآمد کر سکتے ہیں۔ قانون کے مطابق پاکستان سے سونے کی برآمدات کے 120 دن کے اندر اس سے متعلقہ ڈالرز اکائونٹ میں آنے چاہئیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو کمرشل بینکوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سٹیٹ بینک آف پاکستان اور ٹریڈ ڈویلپمنٹ آف پاکستان کو فوری طور پر آگاہ کریں تا کہ متعلقہ کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔ ایف بی آر کے اِن لینڈ ریونیو شعبے کی حالیہ تحقیقات کے مطابق‘ سونے کے درآمد اور برآمد کنندگان نے مبینہ طور پر ''انٹرسٹمنٹ سکیم‘‘ کا غلط استعمال کیا ہے، تقریباً 50 ارب روپے کا سونا واپس برآمد نہیں کیا گیا۔ سرکاری افسران نے بھی معاملے کو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر نظر انداز کیا ہے۔ اب تک کی رپورٹس کے مطابق‘ مبینہ طور پر کمرشل بینکوں نے بھی سٹیٹ بینک کو آگاہ نہیں کیا۔ یہ معاملہ شاید دبا ہی رہ جاتا اگر ٹیکس گوشواروں اور ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈیٹا کو آپس میں کراس چیک نہ کیا جاتا۔ یہ کنٹرولز ایف اے ٹی ایف کے تحت لگائے گئے ہیں جس سے ٹیکس اور ٹریڈ کا سسٹم اَپ ڈیٹ ہوا ہے۔
یاد رکھیے کہ پہلے سونے کے کئی تاجر ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کرواتے تھے اس لیے پتا ہی نہیں چلتا تھاکہ کتنا رپورٹ ہوا اور کتنا نہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت ان کے خلاف کیا ایکشن لے گی۔ کیا ذمہ دار تاجروں، بینکوں اور سرکاری آفیسرز کا احتساب ہو سکے گا؟ اگر ماضی پر نظر دوڑائیں تو زیادہ امید دکھائی نہیں دیتی۔ مئی 2019ء میں بھی اس طرح کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جب تقریباً 1 ارب 36 کروڑ روپوں کا سونا ہیر پھیر کرنے کی اطلاعات تھیں۔ وفاقی ٹیکس محتسب نے کسٹم حکام اور ملازمین کے خلاف تحقیقات کرنے کا کہا تھا لیکن گونگلوئوں پر سے مٹی جھاڑ کر مبینہ طور پر فائلیں بند کر دی گئیں۔ موجودہ کیس میں کیا تحقیقات ہوتی ہیں، کیا نتائج نکلتے ہیں اور کسے ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے‘ اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کے باعث اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا ضروری ہو جائے گا۔
اس وقت ایک طرف ملک میں سونے کی قیمتیں روز افزوں ہیں تو دوسری طرف ملک کو نقصان پہنچانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق‘ پچھلے پانچ سالوں میں سونے کی قیمت میں تقریباً 100 گناسے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ دنیامیں بڑھتی ہوئی سونے کی قیمت ہے لیکن سونے کی سمگلنگ اور کمزور چیک اینڈ بیلنس بھی ایک بڑی وجہ ہے جس پر خصوصی توجہ دی جانے کی ضرورت ہے۔ ان حالات میں وزیراعظم صاحب سے گزارش ہے کہ معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس لیں کیونکہ یہ رائے تقویت اختیار کرتی جا رہی ہے کہ جس ملک میں سونے کی تجارت پر حکومتی کنٹرول نہ ہو‘ وہاں ڈالر کا ریٹ بڑھنے کی وجہ بھی سونے اور ڈالر کی سمگلنگ ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ پچھلے چار ماہ میں ڈالر کی قیمت میں تقریباً 13روپے اضافہ ہو چکا ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ یہ اضافہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ملکی زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کو 2 ارب 75کروڑ ڈالرکورونا امداد کی مد میں دیے ہیں۔ پاکستانی معیشت میں ڈالروں کا آنا مثبت عمل ہے لیکن اس مرتبہ آئی ایم ایف نے نسبتاً بہت کم امداد دی ہے۔ تقسیم کرنے کے لیے ٹوٹل بجٹ 650 بلین ڈالر تھا۔ اسے آئی ایم ایف کی تاریخ کی سب سے بڑی ایس ڈی آر ایلوکیشن کہا جا رہا ہے۔ کم ڈالر ملنے کی وجہ پاکستان کی جانب سے ماضی میں آئی ایم ایف فنڈ میں جمع کرائی گئی امداد کا کم ہونا ہے لیکن فی الحال یہ امداد پاکستانی معیشت کے لیے کافی محسوس ہوتی ہے۔
ملکی ذخائر 27 ارب چالیس کروڑ ڈالر تک پہنچ گئے ہیں‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں ضرورت کے مطابق ڈالر موجود ہیں اور کوئی بڑی ادائیگی بھی نہیں کی ہے۔ ان حالات میں ڈالر کا بڑھ جانا کسی شک و شبہے سے خالی نہیں ہے۔ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ حکومت آئی ایم ایف سے ڈالر کی قیمت بڑھانے کا معاہدہ کر چکی ہے جس کی تکمیل کی جارہی ہے۔ ڈالرکی اڑان کو برآمد کندگان کی خوشحالی سے جوڑنا بھی مناسب نہیں ہے۔ پاکستان سے برآمد کرنے کے لیے جو سامان تیار ہوتا ہے اس کا خام مال درآمد کرنا پڑتا ہے۔ اگر ڈالرز کی آمد بڑھے گی تو اس کی ادئیگی بھی بڑھ جائے گی۔ اس کے علاوہ ڈالرکی قیمت بڑھنے کا اثر مہنگائی پر بھی پڑ سکتا ہے کیونکہ پاکستان کا سب سے بڑا امپورٹ بل پٹرولیم مصنوعات کا ہے۔ ان حالات میں مہنگائی کے ممکنہ نئے طوفان کو روکنے کے لیے ڈالرکی بڑھتی ہوئی قیمت پر قابو پانا ضروری ہو چکا ہے۔ سونے کی تجارت میں بے ضابطگیاں اورڈالر کی اڑان کے ملکی معیشت پر نہایت منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ حکومت سے گزارش ہے کہ مؤثر حکمت عملی کے ذریعے ان مسائل کا بروقت حل تلاش کرے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved