تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     03-09-2021

بڑا کھیل جاری ہے!

امریکہ اور اس کے اتحادی گزشتہ کئی صدیوں کی طویل ترین جنگ آخر کار ختم کر کے اپنے ٹھکانوں کو سدھار چکے ہیں۔ صدر جو بائیڈن کا فیصلہ درست تھا؛ اگرچہ ان کی فوجی قیادت نے انہیں رام کرنے کی چند ماہ کوشش کی کہ چند ہزار فوجی وہاں رکھیں‘ جاسوسی کے اڈے قائم رہیں‘ جنگی ٹھیکے داروں سے کام لیا جائے اور ہمارے قیمتی مشورے کابل انتظامیہ کے شاملِ حال رہیں‘ تو وہ دن دور نہیں رہے گا جب کابل کے گماشتے طالبان کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ وہ بہت منجھے ہوئے سیاست دان اور میرے نزدیک زیرک اور مدبر ہیں۔ ساری زندگی امریکی اور عالمی سیاست کے میدانوں میں گزاری ہے۔ ان کا سوال تھا کہ افغانستان سے نکلنے اور جنگ ختم کرنے کا وہ سہانا موڑ کب آئے گا؟ جواب نہ انہیں ملا اور نہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو۔ دونوں کے سیاسی نظریات میں زمین آسمان کا فرق ہے‘ مگر افغانستان کی ''ابدی‘‘ جنگ سے جان چھڑانے پر اتفاق تھا۔ شروع ہی میں کچھ آوازیں امریکہ کے اندر اور ان کے اتحادیوں میں سے اٹھیں کہ افغانستان پر لشکر کشی کئے بغیر بھی القاعدہ کے جتھوں اور ان کی قیادت کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکتا ہے۔ ہماری طرف سے بھی یہی موقف تھا‘ مگر ملک کا نفسیاتی ماحول ایسا تھا کہ قیادت ''بدلہ‘ بدلہ‘‘ کے نعرے لگانے لگی تو جنگ کے طبل بھی بجنے لگے۔
بڑی طاقتیں مداخلت کر کے حکومتیں گرا تو سکتی ہیں‘ مگر موجودہ دور میں کٹھ پتلیوں کے ذریعے زیادہ دیر سیاسی شو برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ ہمارے امریکی دوستوں میں خود اعتمادی ہے اور انہیں اپنی خیرہ کن ترقی‘ سائنس اور علمی استعداد پر بہت فخر ہے۔ اپنی طاقت کا گھمنڈ تو ہر بڑی طاقت کو رہا ہے‘ مگر جسے انگریزی میں ہیوبرس (Hubris) کہتے ہیں‘ وہ ان میں ضرورت سے زیادہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ طاقت کے زور سے وہ افغانستان میں نئی قوم اور ریاست کی بنیاد رکھیں گے۔ یہ بڑی طاقت جب ریاست سازی کے اتنے بڑے منصوبے میز پر رکھتی ہے تو ہزاروں کی تعداد میں ہر نوع کے ماہرین ہر شعبے سے برسات کے مینڈکوں کی طرح نکل آتے ہیں اور ''کیک‘‘ پر ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں‘ جیسے ہماری بعض سیاسی جماعتوں کے کارکن کھانوں پر۔ جب لاکھوں ڈالر جیبوں میں بھرے جا رہے ہوں تو کون امریکی قیادت کو یہ مشورہ دے سکتا تھا کہ اول تو افغانستان اور طالبان کا نو گیارہ کے واقعات سے کوئی تعلق نہیں۔ عرب جنگجو‘ جو اس وقت وہاں موجود تھے‘ وہ امریکی سرد جنگ اور افغان سوویت لڑائی کی پیداوار اور باقیات تھے۔ ریاستی اداروں کی تعمیر یہ استعماری ریاست اپنے تجربے کے مطابق کرتی ہے۔ یہاں بھی امریکی سیاسی نظریات کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے‘ مگر اقتدار کن کے سپرد کیا گیا۔ جنگی سرداروں کے‘ جن کے ہاتھ طالبان اور افغانستان کے شہریوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔ ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادی انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں‘ دوسری طرف افغانستان میں طاقت ان کے حوالے کر دی گئی‘ جنہوں نے ان حقوق کی پامالی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ تقریباً دس سال ریاست سازی کی رٹ لگانے کے بعد بیانیہ تبدیل ہوا‘ کہ نہیں یہ ہمارا ''مشن‘‘ نہیں ہے۔ اندر کی باتیں سب کو معلوم تھیں۔ طالبان منتیں کرتے رہے کہ وہ ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار ہیں‘ با عزت طریقے سے وہ اقتدار سے دست بردار ہونا چاہتے ہیں۔ امریکی نہ مانے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو لاکھوں افغان جانیں بچ جاتیں اور افغانستان اور اس کے پس ماندہ عوام کو تباہ شدہ ملک ورثے میں نہ ملتا۔
برطانیہ کی پہلی افغان جنگ (1939-43) اور امریکہ کی اس بیس سالہ جنگ کے بعد کی صورت حال میں ایک عجیب مماثلت نظرآتی ہے۔ انگریز ہندوستانی فوج کے ساتھ حملہ آور ہوئے تو مقصد وہاں شاہ شجاع کو اقتدار پر بٹھا کر افغانستان کے خارجہ اور داخلہ معاملات کو اپنے ہاتھوں میں رکھنا تھا۔ قندھار میں پہلی جنگ ہوئی‘ افغانستان کے امیر دوست محمد خان کی فوج کو شکست ہوئی۔ چند ماہ بعد انگریزی فوج کابل کی طرف بڑھی تو خطرے کو بھانپتے ہوئے امیر دوست محمد ملک سے فرار ہو گئے‘ بخارا میں پناہ لی‘ مگر وہاں بھی انہیں قید میں ڈال دیا گیا۔ تین سال کے اندر انگریزوں کے خلاف مزاحمت شروع ہوئی تو اس کی قیادت امیر دوست محمد کے بیٹے وزیر اکبر خان نے کی۔ افغانوں کی تاریخ میں وزیر اکبر خان آج تک معتبر نام ہے۔ انگریز فوج کو کابل سے انخلا کے لیے معاہدہ کرنا پڑا کہ جلال آباد اور طورخم تک انہیں پسپائی کا راستہ دیا جائے گا۔ جب نکلے تو موسم سرد تھا۔ تب وہ جہاز نہ تھے‘ بلکہ تھے ہی نہیں‘ سفر گھوڑوں پہ اور پیدل تھا۔ چند لوگ ہی بچ پائے تھے۔ امیر دوست محمد خان دوبارہ مسندِ اقتدار پر آ گئے اور ہندوستان کی انگریز حکومت نے ان کے ساتھ معمول کے تعلقات ایک انتقامی فوج کشی کے بعد قائم کر لئے۔ امریکیوں کے انخلا اور انگریزی فوج کی پسپائی میں فرق صرف یہ ہے کہ طالبان نے معاہدے کی پاس داری کی‘ نکلنے کا پُرامن موقع دیا‘ ہوائی اڈے کے باہر حفاظتی حصار قائم کیا اور امریکہ کو تاریخ کا سب سے بڑا ہوائی انخلا سترہ دنوں میں مکمل کرنے کی راہ داری دی۔ امیر دوست محمد کی طرح‘ اب بھی وہی اقتدار میں آ رہے ہیں‘ جن کو بیس سال پہلے اقتدار سے محروم کیا گیا تھا۔
امریکہ اور باقی دنیا میں اب بحث اس بات پہ نہیں کہ امریکہ کو شکست ہوئی یا نہیں۔ امریکی خود کہہ اور لکھ رہے ہیں کہ انہیں صرف شکست نہیں ہوئی بلکہ ہزیمت کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ فتح طالبان کی بے مثال مزاحمت کی وجہ سے ہے‘ جو ہمارے خلاف پہلے ہی سے چھرے‘ نیزے تیز کئے بیٹھے تھے۔ وہ ملبہ سرحد کے اس پار ڈال کر ہمارے لئے مشکلات پیدا کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ وہاں بحث اس بات پہ ہے کہ امریکہ کی بطور عالمی طاقت ساکھ کتنی مجروح ہوئی ہے اور سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ جس طرح اس نے افغانوں‘ اتحادیوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر گھر کی راہ لی ہے‘ اس پر دیگر اتحادی کس حد تک بھروسہ کریں گے۔ کچھ تو یہ کہہ کر معاملے کو معمول کا واقعہ قرار دے رہے ہیں کہ ایسے واقعات کا امریکہ کو گزشتہ نصف صدی میں سامنا رہا ہے‘ اس سے اس کی برتری پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ یہ ویسے پرانا سوال ہے جو ویت نام سے انخلا کے وقت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا امریکہ زوال پذیر ہے یا اس کی عالمی اڑان میں کوئی واضح فرق نہیں آیا۔ میرے خیال میں ابھی تک امریکہ کے مقابلے میں کوئی اور طاقت نہیں‘ نعرے بازی اپنی جگہ۔ اس کی صدی‘ اس کی صدی فضول بحث ہے۔ آج بھی جسے آپ عالمی طاقت کہتے ہیں‘ اس کا سرچشمہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی ہیں۔ مغرب کا کوئی ثانی نہیں۔ دیگر ممالک یعنی چین‘ جاپان‘ روس اور ترقی پذیر ممالک ان کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔ صرف اپنی ثقافت‘ قومیت پرستی اور قومی سیاسی نظام کی قلعی گری کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر گزشتہ ایک صدی سے بڑا کھیل تزویراتی نہیں‘ نظریاتی ہے۔ تزویرات تو اس کا ایک پہلو ہے۔ جرمنی نے ایسے تو نہیں اعلان کیا کہ اگر طالبان نے شریعت نافذ کی تو ان کی طرف سے امداد کی کوئی توقع نہ رکھیں۔ ایران کا حال تو آپ کے سامنے ہے۔ دیکھتے ہیں‘ طالبان اپنی علیحدہ بستی آباد کرتے ہیں‘ اور اپنے حال میں رہتے ہیں یا عالمی سیاست کی چھتری تلے آتے ہیں اور ہم جیسی بسر اوقات کرتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved