تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     03-09-2021

آرگنائزیشن اور ریاست

2001ء کے اواخر میں دنیا کی 6 مضبوط اور کثیر بجٹ کی حامل خفیہ ایجنسیوں‘ سی آئی اے، را، موساد، ایم آئی سکس، این ڈی ایس اور جرمنی کی بی این ڈی نے اپنے بے پناہ وسائل اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ کابل میں ڈیرے ڈال لیے تھے‘ جہاں اگلے بیس سال تک ان کے سامنے سب سے بڑا نشانہ پاکستان اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسیاں تھیں۔ را نے این ڈی ایس اور موساد کے ساتھ پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ شروع کر دی اور اس کیلئے چند ملین نہیں بلکہ اربوں ڈالر کی بارش کی گئی، جس کی وجہ سے اب تک پاکستان کے 70 ہزار سے زائد شہری اور دس ہزار کے قریب سکیورٹی سے متعلق اداروں کے افسران اور جوان شہید ہو چکے ہیں، کئی سو ارب ڈالر کا مالی اور تجارتی نقصان الگ ہے‘ جس نے پاکستان کی معیشت کو ابھی تک سنبھلنے نہیں دیا اور یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ داعش، بی ایل اے، ٹی ٹی پی اور فضل اللہ جیسے گروپوں کی دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہو گیا جو پاکستان اب بھی کسی نہ کسی صورت میں بھگت رہا ہے۔ نائن الیون کی جو قیمت پاکستان نے ادا کی ہے‘ دنیا کے کسی ملک نے نہیں کی۔ پاکستا ن کے مقابلے میں اس بیس سالہ جنگ میں افغانستان کے 47 ہزار 245 شہری ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کے 444 امدادی کارکن اور 72 صحافی ہلاک ہوئے، نیٹو کے 1144 فوجی، افغان فوج اور پولیس کے 66 ہزار اہلکار جبکہ طالبان اور دوسرے عسکری گروہوں کے 51 ہزار جنگجو اس جنگ کا نوالہ بنے۔ بلیک واٹر اور اس جیسی دوسری تنظیموں کے 3846 کنٹریکٹرز اور 2461 امریکی فوج ہلاک ہوئے۔ یہ سب اعداد و شمار ایک ایسے جنگ زدہ ملک کے ہیں جو بیس سال تک مسلسل حالتِ جنگ میں رہا جبکہ ان سب کے برعکس پاکستان اس جنگ میں شریک نہیں تھا بلکہ یہ نہ تو افغانستان پر حملہ آور ہوا اور نہ ہی میدانِ جنگ میں موجود تھا۔
خدا خدا کر کے اب جب افغانستان کا امن بحال ہوا ہے تو بھارت اور اس کے نظریاتی اتحادیوں کو کسی پل چین نہیں مل رہا کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ کابل کا امن پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا راستہ ہے جو ان کو کسی طور منظور نہیں۔ پاکستان کو اب پہلے سے بھی زیادہ محتاط رہ کر اپنے فیصلے کرنا ہوں گے اور اپنے دفاع کو مزید مضبوط بنانا ہو گا۔ پاکستان اور اس کے فیصلہ سازوں کے سامنے مسئلہ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ طالبان کی حکومت کو کس طرح تسلیم کرتے ہیں‘ جب بھی وہ اس پر سوچ بچار کریں تو ان کے سامنے طالبان نامی کوئی تنظیم نہیں بلکہ افغان حکومت ہونی چاہئے۔ امریکیوں نے جب دنیا بھر کے سامنے اپنی دھونس اور دھاندلی سے اشرف غنی کو لا بٹھایا تھا تو اس وقت پوری دنیا نے امریکا کی خواہشات کے جبر کے سامنے سر جھکاتے ہوئے اشرف غنی کی جس طرح مدد کی‘ وہ یقینا ایک غلط فیصلہ تھا کیونکہ اسے تو برائے نام ہی ووٹ ملے تھے۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ آپ اشرف غنی کو نہیں بلکہ افغان حکومت کو تسلیم کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس بھی اس وقت یہی دلیل تھی کہ ہم اشرف غنی اور اس کے سرپرست بھارت کے نہیں بلکہ افغان حکومت کے ساتھ چل رہے ہیں۔ اسی طرح آج اگر کوئی طالبان کے ماضی یا اس سے وابستہ واقعات کے حوالے سے ملا ہبۃ اللہ کی سربراہی میں چلنے والی حکومت کو تسلیم کرنے یا اس کے ساتھ چلنے پر اعتراضات اٹھاتا ہے یا یورپی یونین یا کسی دوسرے بلاک کی جانب سے اس فیصلے پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں تو میرے خیال میں ہمارے سامنے ایک واضح اور سادہ سا جواب یہ ہونا چاہیے کہ ہم محض افغانستان کی حکومت کو تسلیم کر رہے ہیں اور ہم اس حکومت کے شانہ بشانہ چلنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ یہ امر بھی پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ یہ وہ طالبان ہیں جنہیں اقوام متحدہ نے ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد کرنے کے بعد دنیا بھر میں امن کی تلاش اور بات چیت کیلئے سفر کرنے کی اجا زت دے رکھی ہے۔ یہ وہی طالبان ہیں جن سے امریکا اور وائٹ ہائوس نے برابری کی سطح پر مذاکرات کیے اور خود امریکا سمیت دنیا کے متعدد ممالک نے امن کیلئے ان سے مذاکرات کیے۔ یہی وہ طالبان ہیں جو افغانستان میں موجود غیر ملکیوں کے دنیا کے کسی بھی خطے میں جانے کیلئے بھرپور مدد کرتے ہوئے انہیں سکیورٹی بھی فراہم کر رہے ہیں۔ خود ایک وقت کی روکھی سوکھی کھاتے ہوئے وہ تمام غیر ملکیوں کے لیے بھرپور خوراک کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے ہرممکن کوشش کر رہے ہیں۔
اشرف غنی اور اس سے قبل حامد کرزئی کی قانونی حیثیت صفر کے برابر ہونے کے با وجود میرٹ سے ہٹ کر ان کی کامیابی کیلئے بے ا نتہا جتن کیے جا سکتے ہیں تو پھر طالبان کی شکل میں نئی افغان حکومت‘ جس کے ساتھ افغان عوام کی90 فیصد سے زائد تعداد نے بھرپور جشن مناتے ہوئے ان کی کابل آمد پر والہانہ استقبال کر کے ان پر اپنی تائیدی مہر ثبت کر دی‘ کو تسلیم کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا برطانیہ کے سکائی نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں یہ کہنا بالکل درست ہے کہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے افغانستان کو تنہا چھوڑنا خطرناک آپشن ہوگا کیونکہ یہ دراصل افغان عوام کو چھوڑنے کا باعث بنے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا 1990 کی دہائی میں بھی اس غلطی کی مرتکب ہوئی تھی اور اب عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا کوئی عمل مت دہرائے۔ کسی تنظیم، جماعت اور آرگنائزیشن کے مقابلے میں ملک اور ریا ست کی اہمیت کہیں زیادہ ہوتی ہے اور یہی وہ نکتہ ہے جو طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ موجودہ افغان حکومت سے تعاون کرنا اور اس کی حتی المقدور حمایت اور مدد کرنا ہم پر واجب ہے۔
اس وقت بھارت اور اسرائیل سمیت ان کے اتحادیوں کو سب سے زیادہ جو غم کھائے جا رہا ہے وہ افغانستان میں موجود معدنی ذخائر ہیں، اس میں بھی جس چیز کی انہیں سب سے بہت زیادہ تکلیف اور پریشانی ہے وہ افغانستان میں لیتھیم سمیت دوسری انتہائی قیمتی اور اہم ترین معدنیات کا ہیں۔ دو روز ہوئے‘ ہندوستان ٹائمز نے افغانستان کے حوالے سے ایک سٹوری ''بریک‘‘ کرتے ہوئے کہا کہ طالبان میں اس وقت حکومت سازی اور وزارتوں کی تقسیم پر زبردست اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ہندوستان ٹائمز کے بقول‘ حقانی گروپ اور ملا عمر کے صاحبزادے ملا یعقوب میں اس حوالے سے تلخ کلامی بھی ہوئی۔ یہ اس میڈیا کا حال ہے جو اب تک گلبدین حکمت یار کو ''طالبان رہنما‘‘ لکھ رہا ہے۔ طالبان ترجمان نے ایک بیان میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حقانی گروپ کوئی الگ جماعت نہیں بلکہ طالبان کا حصہ ہے مگر بھارت کے سوشل میڈیا سیل اور ہزاروں کی تعداد میں تخلیق کیے گئے جعلی فیس بک اور ٹویٹر اکائونٹس سے وہی کھیل کھیلا جا رہا ہے جو یورپ بھر اور کابل کے صدارتی محل سمیت مختلف بھارتی ہائی کمیشنوں سے فیک نیوز پھیلا کر کھیلا جا رہا ہے۔
پاکستان کو امریکا سے جہاں بہت سے فوائد اور امداد میسر آئی ہے وہیں اس نے مصیبت اور مشکلات کے وقت وہ دھوکے اور کچوکے دیے کہ ان زخموں کی کسک ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ پاکستان نے امریکا کی یقین دہانی پر ہی کشمیر اور اپنی سرحدوں کو سیدھا کرنے کا آسان موقع اس وقت ضائع کر دیا تھا جب 1962ء میں نیفا کے محاذ پر چین بھارت کی گردن دبوچے ہوئے تھا۔ اس وقت پاکستان چاہتا تو بہت کچھ کر سکتا تھا، مگر امریکی وعدوں اور یقین دہانیوں پر اس موقع کو ضائع کر دیا گیا۔ اسی طرح 6 ستمبر 1965ء کو جب بھارت اپنے لائو لشکر کے ساتھ لاہور پر حملہ آور ہوا تو امریکا نے پاکستان کی فوجی امداد بند کر دی مگر دوسری طرف بھارت کیلئے تمام دروازے کھول دیے گئے۔ اسی پر بس نہیں، 1971ء میں پاکستان چھٹے بحری بیڑے کا انتظار کرتا رہا مگر ہمارے ''دوست‘‘ پاکستان کو دولخت کرنے کیلئے بھارت کا ساتھ دے رہے تھے۔ 1979ء کا وہ وقت کسے یاد نہیں جب امریکی صدر جمی کارٹر نے پاکستان کی ہر قسم کی امداد اس شبہ کی بنیاد پر بند کر دی کہ پاکستان بھارت جیسی ایٹمی قوت کا مقابلہ کرنے میں امریکی فنڈز استعمال کر رہا ہے۔ لہٰذا ہمیں امریکا یا یورپ نہیں‘ اپنے اور علاقائی مفاد کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہو گا اور وقت کا تقاضا یہی ہے کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی بھرپور معاونت کی جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved