تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     04-09-2021

کچھ رنگ و بو کچھ سرور ہو

زندگی میں کچھ چاشنی ہونی چاہئے نہیں تو جینے کا کیا مزا۔ کچھ شاعری ہو کچھ شرارت ہو دل میں تھرتھراہٹ ہو۔ انگریزی کی وہ کیا اصطلاح ہے سینس آف ایڈونچر، یہ ہونی چاہئے نہیں تو زندگی بے مزہ کے ساتھ ساتھ بے مقصد بھی ٹھہرتی ہے۔ ہم جو مسلمان کہلاتے ہیں جب تک ہماری تہذیب میں سینس آف ایڈونچر تھا توگھوڑوں کے قدم آگے بڑھتے رہے اور تلواریں لہراتی رہیں۔ دلوں کی تھرتھراہٹ گئی تو مسلمان دنیا کی زندگی ساکت ہو گئی۔ انگریزی میں جسے کہتے ہیں stagnate ہونے لگی۔ پھر مسلمان دنیا اندھیروں میں چلی گئی۔ اور اس کے مبلغین اندرونی بحثوں میں پڑ گئے کہ فلاں چیز کا کیا مطلب ہے اور فلاں کا کیا مفہوم۔ زوال ہمارا ختم نہیں ہوا کیونکہ اِنہی بحثوں میں ابھی تک پڑے ہوئے ہیں اور کسی نتیجے پہ پہنچنے سے قاصر ہیں۔
فاتح فاتح ہوتا ہے۔ دین یا عقیدے کو عذر کے طور پر ضرور استعمال کرتا ہے نہیں تو اُس کا مقصد اپنی شان و شوکت بڑھانا ہوتا ہے۔ محمود نے ہندوستان پہ حملے کئے اور سومنات کا مندر تباہ کیا۔ چونکہ تب ہندوستان کی آبادی ہندوؤں پہ مشتمل تھی اور محمود مسلمان تھے تو جو کہانیاں ہم نے لکھیں اُن میں یہ کہا کہ محمود نے دین کی خدمت کی حالانکہ اُس کا مقصد فاتحین والا ہی تھا۔ ہندوستان کی جو دولت محمود کے ہاتھ آئی غزنی کے حسن کو دوبالا کرنے میں صرف ہوئی۔ ایک غلطی البتہ محمود سے سرزد ہوئی۔ شاعر فردوسی سے وعدہ تھا کہ اُن کی تصنیف 'شاہ نامہ‘ کے ہر شعر کو سونے میں تولا جائے گا۔ دینے پہ آئے تو سونے کی جگہ چاندی پہ اکتفا کیا اور فردوسی نے جو شکایت کی وہ تاریخ کا حصہ بن گئی۔
ظہیرالدین بابر کو ہم یاد کرتے ہیں کیونکہ اپنی ذات میں عظیم فاتح اور بادشاہ تھے۔ سپاہ گر تو تھے ہی لیکن صاحبِ ذوق بھی۔ تزکِ بابری کیا کمال کی کتاب ہے۔ وہ اِس لئے نہیں پڑھی جاتی کہ ایک بادشاہ نے لکھی تھی بلکہ اپنے لٹریری اوصاف کی وجہ سے کتابوں کی دنیا میں اُس کا مقام ہے البتہ بابر نے اپنی شہنشاہت مسلمانوں سے لی تھی یا یوں کہئے افغانوں سے چھینی تھی۔ ہاں رانا سانگا کو بھی ہرایا تھا لیکن وہ بعد کی بات ہے جب ابراہیم لودھی کو میدانِ پانی پت میں شکست دے چکے تھے۔ بہرحال ہمیں یاد رہنا چاہئے کہ ہندوستان کی تاریخ میں مسلمانوں کے دو سب سے بڑے قتلِ عام مسلمانوں کے ہاتھوں ہی ہوئے۔ دہلی میں پہلا قتلِ عام عظیم فاتح امیر تیمور کے حکم پر ہوا۔ دوسرا زوال مغلیہ کے دوران نادر شاہ کے حکم پر۔ انگریزوں نے بھی بہت کچھ کیا لیکن امیرتیمور اور نادرشاہ کے پیمانوں تک کبھی نہ پہنچے۔
اِن واقعات کے ذکر کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ فاتحین کے سامنے اپنی فتوحات ہوتی ہیں۔ مسلمان تو اپنے عقیدے میں تب بھی مضبوط تھے آج بھی مضبوط ہیں۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ دلوں میں تھرتھراہٹ نہیں رہی۔ اقبال نے کیا کہا تھا ''نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ خم ہے زلفِ ایاز میں‘‘۔ مسلمان دنیا کو چھوڑیئے اپنا ہی حال دیکھ لیں۔ کہاں تڑپ نظر آتی ہے اور کس زلف میں خم ہے جس سے دلوں میں آگ لگے۔ مردہ جانیں، مرے ہوئے دل، لبوں پہ اور الفاظ دلوں میں مختلف کدورتیں۔ پاکستان کا بڑا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کرپشن ہے۔ کون سا معاشرہ ہے جس میں کرپشن نہیں؟ ہمارا بڑا گناہ یہ ہے کہ بزدل لوگ ہیں اور جھوٹ اور منافقت ہم میں کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے۔ گھٹن سے معاشرے کو بند نہیں کیا ہوا، بیمار کیا ہوا ہے۔ غور سے اپنے آپ کو ہم دیکھیں، کوئی رمق زندگی یا شرارت کی ہم میں نظر آتی ہے؟ پوچھا جاتا ہے اولمپِک کھیلوں میں ہم میڈل کیوں نہیں جیت سکتے؟ زندہ لوگ میڈل جیتتے ہیں۔ یہاں جو حال قوم کا کیا ہوا ہے، جن فرسودہ خیالات سے ذہنوں کو بھرا ہوا ہے اس سے وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جس سے کوئی نمایاں کارکردگی دکھائی جا سکے؟
پوری قوم کو لگا دیا ہے پلاٹوں کے کاروبار پہ۔ پلاٹوں کی کوئی اولمپک کھیلیں ہوں تو ہم سارے میڈل جیت جائیں۔ جو ہنرمند اِس کاروبار میں پڑے ہوئے ہیں ایسے ایسے کرتب دکھائیں کہ سب میڈل جیتنے کے ساتھ دنیا کو حیران کردیں۔ نہ سکولوں کا نصاب یہاں پہ ٹھیک سے مرتب ہو پاتا ہے نہ کالجوں اور جامعات میں وہ ذہنی آزادی ہے جس سے کوئی نئی سوچ پیدا ہو۔ پھر قوم کی پسماندگی کا ہم رونا روتے ہیں۔
ہم تو چھوٹی موٹی چوریوں اور فراڈ کے ماہر ہیں۔ برطانیہ، روس اور انگلستان کے چور اچکے اپنے اپنے میدان میں ہمارے چور اچکوں سے کہیں آگے ہیں۔ ہمارے بدمعاش‘ اُن کا ذوق بھی اِتنا ہوتا ہے کہ بات بات پہ ہوائی فائرنگ شروع کردیتے ہیں۔ امریکہ میں مستند مافیا کے لوگ کبھی ہوائی فائرنگ کرتے ہیں؟ کہنے کا مطلب یہ کہ وہ قومیں جرائم کی دنیا میں بھی ہم سے آگے بالکل اِسی طرح جیسا کہ باقی چیزوں میں وہ ہم سے آگے ہیں۔ بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ گھٹن زدہ معاشرے نہیں ہیں۔ ذہن آزاد ہیں اور آزاد ذہن ہی نئی چیزوں کی تخلیق کے قابل ہوتے ہیں۔ یعنی ذہن آزاد ہوں تو آپ جرائم کی دنیا میں creative اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی آگے۔ گھٹن کے شکار ذہن پست ہوتے ہیں۔ وہ کسی کری ایٹِو چیز کے قابل نہیں رہتے۔
اپنی حالت تو ہم دیکھیں کہ خوش ہو رہے ہیں امریکہ کی افغانستان میں شکست پر۔ امریکہ نے ویتنام میں بھی شکست کھائی تھی۔ وہ عراق میں بھی کامیاب نہیں ہوا۔ ناکامی کا احساس ہوا تو ہاتھ مل کے بہت سال پہلے ویتنام سے نکلے اور حالیہ دور میں عراق سے فارغ ہوئے اور اب افغانستان سے بھی چلے گئے‘ لیکن اِن امریکی شکستوں کے بعد کیا ہم ایک بڑی طاقت بن گئے ہیں؟ امریکی ناکامی کے بعد ہم وہی فقیر کے فقیر۔ وہی ہمارا کشکول اور اُس کے استعمال میں وہی ہماری ہنرمندی۔ ترقی مغربی دنیا کر رہی ہے یا چین اور جاپان۔ اِس وقت نیا مقابلہ بن رہا ہے امریکہ اور چین کے درمیان۔ اِن مقابلوں میں ہمارا کوئی ذکر ہے؟
امریکہ اب بھی دنیا کا طاقت ور ترین ملک ہے۔ افغانستان میں اُنہوں نے جھک ماری۔ وہ اُن کا میدان ہی نہیں تھا جیسا کہ ویتنام اُن کا میدان نہیں تھا۔ بڑے جب چھوٹوں سے فضول کی باتوں پہ لڑنے بیٹھ جاتے ہیں تو نقصان بڑوں کا ہوتا ہے۔ یہی حال امریکہ کا ہوا ہے۔ یہی حال اورنگزیب عالمگیر کا ہوا تھا جب اپنے آخری پچیس سال زندگی اور حکمرانی کے دکن میں گزار دیئے۔ مغل ایمپائر عروج پہ پہنچ چکی تھی اور اورنگزیب نے فضول کی جنگوں میں پڑ کر مغلیہ سلطنت کو تھکا دیا۔ اورنگزیب کی وفات کے بتیس سال بعد نادر شاہ ایران کی طرف سے حملہ آور ہوا تو اُسے کوئی روکنے والا نہیں تھا۔
امریکہ کو ہزیمت اٹھانا پڑی ہے۔ رسوائی بھی ہوئی ہے لیکن ویتنام کی شکست کے بعد بھی اُس کی بھرپور رسوائی ہوئی تھی۔ امریکہ کی طاقت ختم نہیں ہوئی۔ 1978ء میں چین نے بھی ایک جھَک ماری تھی جب اُس نے ویتنام پہ حملہ کیا۔ ویتنام کے اندر تو گھس آئے لیکن ویتنامیوں نے لڑائی کا مزہ خوب چکھایا۔ چینی عقل مند تھے جلدی واپس چلے گئے۔ 1839ء کی پہلی افغان جنگ میں برطانیہ نے تھوڑا نقصان اٹھایا تھا؟ سوائے ایک آدمی کے جو زندہ بچ کے آ سکا‘ برطانیہ کی ساری فوج ماری گئی تھی‘ لیکن اِس شکست سے برطانوی ایمپائر ختم تو نہیں ہوئی تھی۔ ایک سو سال بعد تک بھی انگریز ہندوستان پہ حکمرانی کرتے رہے‘ لہٰذا امریکہ بھی اپنے زخم چاٹ لے گا۔ پر ہم کہاں کھڑے ہیں، ہمارا کیا مستقبل ہے، ہمیں زیادہ فکر اس کی ہونی چاہئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved