تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     04-09-2021

آخری وارث

بیسویں صدی کے برصغیر میں جس مسلم رومان نے جنم لیا‘ اس کا آخری وارث رخصت ہوا۔
سید علی گیلانی نے جس سبز ہلالی پرچم کو عمر بھر لشکرِ آزادی کا علم بنائے رکھا‘ مرنے کے بعد بھی اس کے ساتھ اپنا رشتہ ختم نہیں ہونے دیا۔ اس پرچم میں لپٹا ہوا‘ ان کا جسدِ خاکی‘ سپردِخاک ہوا تو وہ خاموش نہیں تھا۔ ایک صدا تھی جو دنیا بھر کے حریت پسندوں نے سنی اورانہیں آزادی سے محروم رکھنے والوں نے بھی:
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا
پاکستان ایک رومان تھا۔ اس کا قیام‘ ایک خواب کی تعبیرتھی۔ یہ خواب سب سے پہلے جن آنکھوں میں جگمگایا‘ وہ آہستہ آہستہ بجھتی جاتی ہیں۔ علی گیلانی آخری 'صاحبِ نظر‘ تھے۔ آنے والی نسلوں نے وہ روغن فراہم نہیں کیا جواس چراغِ آرزو کی لو کو تیز کرتا۔ تیز کیا کرتا‘ اس کو روشن ہی رکھتا۔ اس کی لو ہر آنے والے دن مدہم ہوتی جا رہی ہے۔ رومان کی جگہ اب حقیقت پسندی کا ڈیراہے۔ صحافت میں اس رومان کی آخری نشانی مجید نظامی تھے۔ سیاست میں یہ رومان کب کا دم توڑ چکا۔ اس وادیٔ بے آب و گیاہ میں‘ پچھلے چالیس برسوں میں کوئی ایسی شخصیت نہیں اٹھی‘ میں جس کاحوالہ دے سکوں۔ ہرطرف حقیقت پسندوں کا راج ہے۔ تحریکِ پاکستان کے ساتھ ساتھ کچھ اور رومان بھی سفر کررہے تھے جن کا بیج اسی بیسویں صدی میں بویاگیا۔ ان میں ایک اسلامی انقلاب کا خواب بھی تھا۔ وہ بھی مدت ہوئی قصہ پارینہ بن چکا۔ معلوم ہوتا ہے بیسویں صدی میں جس جس رومان نے جنم لیا تھا‘ وہ اب گزری تاریخ کا ایک باب ہے۔ آج ہم ایک نئے عہد میں زندہ ہیں۔ اس کے خدوخال بہت مختلف ہیں۔
کشمیر کی آزادی‘ ہم یہ کہتے ہیں کہ تشکیلِ پاکستان کا ناتمام ایجنڈا ہے۔ مہاراجہ کا فیصلہ متنازع تھا۔ بھارت آج تک الحاق کی کوئی قابلِ بھروسہ دستاویز دنیا کونہیں دکھا سکا۔ اسی لیے اس نے اقوامِ متحدہ کے روبرو کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کو مان لیا۔ جب اس کی عملی شہادت کا وقت آیا تو الٹے پاؤں پھرگیا۔ اگست 2019ء میں اس نے ہر باہمی اور بین الاقوامی معاہدے کا مذاق اڑاتے ہوئے‘ تاریخ کے ساتھ جغرافیہ بھی بدل ڈالا۔ ان فیصلہ کن لمحات میں‘ خواب کا کوئی رکھوالا سامنے نہیں آیا۔ علی گیلانی نے سرِشام‘ بجھتی آنکھوں کے ساتھ یہ سب کچھ دیکھا۔ شاید ہاتھ بھی بڑھایا ہوکہ کوئی ان کے علم کو تھام لے۔ کوئی ہاتھ آگے نہ بڑھا۔
آج جغرافیہ‘ تاریخ‘ سب کچھ بدل چکا۔ تین جون 1947ء کواس خطے کا جونقشہ بناتھا‘ آج وہ نہیں رہا۔ پہلا انحراف باؤنڈری کمیشن نے کیا۔ پھر حیدر آباد‘ پھر کشمیر‘ پھر مشرقی پاکستان اور اب لداخ۔ گلگت اور بلتستان کوبھی شامل کرلیں تو تاریخ کا ایک دور مکمل ہو جاتاہے۔ حقائق تبدیل ہوچکے۔ صاحبانِ عزم و حوصلہ نئے حقائق کو جنم دیتے ہیں۔ صاحبانِ رخصت اس کو قبول کر لیتے ہیں۔ تاریخ ہمارا شمار دوسرے گروہ میں کرے گی۔ علی گیلانی جیسوں کا استثنا ہے لیکن واقعہ یہ بھی ہے کہ وہ بھی نئے حقائق کو جنم نہ دے سکے۔ یہ کیوں نہ ہو سکا؟ اس کو جواب ریاست پاکستان سے لے کر‘ اہلِ کشمیر تک‘ سب کو تلاش کرنا ہے۔
نئے حقائق دو طرح سے وجود میں آتے ہیں۔ ایک ارتقا کے ہاتھوں جو جبر ہے۔ دوسرے‘ صاحبانِ عزم کے ہاتھوں۔ انسان کا تاریخی سفر بالعموم دائرے میں نہیں ہوتا۔ یہ ایک سمت میں آگے بڑھتا ہے۔ انسان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اس کے ساتھ ہم قدم ہو جائے۔ جیسے صنعتی دورآیا تو کسی کے لیے اس سے مفر نہ تھا۔ جیسے کمپیوٹر ایج۔ دوسری طرف یہ کسی قوم‘ گروہ یا فرد کا عزم اور صلاحیت ہے کہ وہ نئی تاریخ بنا دے۔ جیسے امریکہ اور اس کے حلیفوں نے مل کر دنیا کی تاریخ اور جغرافیہ بدل ڈالا جب سوویت یونین بطور نظریہ اور ریاست شکست و ریخت سے دوچار ہوئی۔ یہ کام ایران کی مذہبی قیادت نے بھی کیا جب ایران میں صدیوں کی تاریخ بدل گئی۔ بادشاہ اب ایران میں ایک بھولی بسری داستان کا عنوان ہے۔ اسی طرح علم کی دنیا میں بھی لوگ نئی تاریخ رقم کر تے رہے ہیں۔ ہم وہ ہیں جو ہر دورمیں ارتقا کے جبر کا شکار رہے‘نئے حقائق پیدا نہ کر سکے۔
قائد اعظم ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے تاریخ اور جغرافیے کو بدل ڈالا۔ ان کی کاوشوں سے برصغیر تقسیم ہوا اور دنیا کے نقشے پر دو نئے ملک نمودار ہوئے۔ بعد میں آنے والے اس قابل نہ تھے کہ اس سفر کو آگے بڑھا سکتے۔ جغرافیہ انہوں نے بھی بدلا مگر باندازِ دگر۔ ان کی 'کوشش‘ سے بھی ایک نیا ملک تشکیل پایا۔ یہ کوشش ایسا 'کارنامہ‘ ہے کہ کوئی اس کا سہرا اپنے سر باندھنے پر آمادہ نہیں۔
علی گیلانی کا شمار ہم پہلے گروہ میں کر سکتے ہیں کہ انہوں نے کم ازکم تاریخ اور جغرافیے کوبدلنے کی کوشش توکی۔ وہ تاریخ اور جغرافیے کو تبدیل نہ کر سکے مگر تاریخ انہیں کبھی نظر انداز نہیں کر سکے گی۔ مقبوضہ کشمیر سے لے کر پاکستان کی گلیوں‘ بازاروں تک‘ آج لوگ انہیں یاد کررہے ہیں۔ بھارت کو ان کی مقبولیت کا اندازہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ عام لوگوں کو ان کے جنازے میں شرکت کا موقع نہیں دیا گیا۔
کشمیریوں کی موجودہ قیادت میں اب کوئی رومان پرور باقی نہیں۔ اب حقیقت پسندی کا غلبہ ہے۔ علی گیلانی اپنی کبر سنی اور علالت کے باعث عرصہ سے کسی عملی سرگرمی کا حصہ نہیں تھے مگر انکا وجودایک علامت میں ڈھل چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک زندہ رہے‘ رومان زندہ تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں اب کوئی ایسا نہیں جو ان کی جگہ لے سکے۔ اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے۔ برصغیر کی سیاست اب لیڈروں کے نہیں‘ سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہے۔ سیاستدان حقیقت پسند ہوتا ہے۔ حقیقت پسندی پر اصرارسے جذبات کا خون ہوتا ہے تو ردِ عمل ہوتا ہے۔ یہ ردِ عمل انتہاپسند رویوں میں ڈھل جاتاہے۔ برصغیر میں یہی ہو رہا ہے۔ آج سیاستدان ہیں یا انتہاپسند۔ یہ لیڈر ہوتا ہے جورومان اور حقیقت پسندی میں ایک توازن کو باقی رکھتاہے۔ آج برصغیر میں ایک طرف پاکستان کی حقیقت پسند سیاست ہے اوردوسری طرف بھارت کی انتہا پسند قیادت۔ پسپائی اورجارحیت کی المناک داستان ہے جو لکھی جا رہی ہے۔ رومان دنیا میں کم ہی کامیاب ہوتے ہیں لیکن اس میں کیا شبہ ہے کہ رومانوی داستانیں کبھی متروک نہیں ہوتیں۔ جانے والی نسل‘ آنے والی نسل کو جو امانت سونپ جاتی ہے‘ یہ داستانیں اس کا حصہ ہوتی ہیں۔ انسانی معاشرے میں پھر کوئی ایک آدھ کردار پیدا ہوتا ہے جو اس رومان کو زندہ کر دیتا ہے۔ یوں رومان واقعہ اگر نہ بن سکے تو استعارہ ضرور بن جاتا ہے۔ سید علی گیلانی کا رومان واقعہ بن جاتا ‘اگر انہیں ہم نفس مل جاتے۔ استعارہ بننا مگر ان کے اپنے بس میں تھا اور وہ بن گئے۔
سید علی گیلانی کو انسانی عزم اور حوصلے کی ایک علامت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ کسی کو استقامت کا مطلب سمجھانا ہوگا توان کی مثال پیش کی جائے گی۔ انہوں نے زبانِ حال سے بتایا: انسانی شرف کا تقاضا ہے کہ زندگی کسی آدرش کے نام ہوجائے۔ ذاتی آسودگیوں کی تلاش میں جینے والے مقامِ آدمیت سے کم ہی واقف ہوتے ہیں۔ زندگی اسی کی ہے جو اپنے عہد میں جینے کے بجائے تاریخ میں جینے کو ترجیح دیتا ہے۔ علی گیلانی نے تاریخ میں جینے کا انتخاب کیا ورنہ مقبوضہ کشمیر کا اعلیٰ ترین منصب انہیں طشتری میں رکھ کر پیش کر دیا جاتا۔
علی گیلانی کے ساتھ تاریخ کا ایک عہد تمام ہوا۔ اب کوئی قیس نہیں جو ان کے بعد سجادہ نشین ہو۔ غیررومانوی دور میں قیس نہیں پیدا ہوتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved