اکبر شاہ نے جھٹکے سے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسے ہوٹل کے ویٹر کا چہرہ نظر آیا جس نے کُچھ فاصلے پر ایک ہندوستانی باشندے کو دیکھ کر 'نجس ہندی‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ اکبر شاہ کی جان میں جان آئی۔ وہ تو یہی سمجھا تھا کہ اس کی اصلیت کا پول کُھل گیا ہے۔ اسے گزری ہوئی صعوبتیں یاد آنے لگیں۔ اس کی آنکھوں نے کیسے کیسے علاقے، کیسے کیسے منظر اور کیسے کیسے لوگ دیکھے تھے۔ جلا وطنی کا یہ کشٹ وہ اپنے وطن کو فرنگیوں سے آزاد کرانے کے لیے کر رہا تھا۔ ہندوستان جانا آسان نہ تھا‘ جہاں وہ سرکارِ برطانیہ کو مطلوب تھا‘ اور سی آئی ڈی کے کارندے اس کی تلاش میں تھے۔ اب وہ ماسکو سے ایران آ چکے تھے‘ اور کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھے کہ ہندوستان کی جدوجہد میں داخل ہوں۔ ایران کے گلی کوچوں میں اکبر شاہ نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا۔ اکبر شاہ اپنے ملک سے دور ایک اجنبی دیار میں تھا اور ہندوستان میں داخلے کے لیے مناسب موقع کی تلاش میں بھی۔ وہ دن کو ایران کے گلی کوچوں میں گھومتا۔ اس دوران اس نے ایران کے معاشرے کا گہرا مشاہدہ کیا۔ اس نے دیکھا کہ ایران میں تعلیم کا معیار بلند ہے اور خاص بات یہ لڑکے اور لڑکیوں کے لیے تعلیم کے مساوی مواقع ہیں۔ تہران میں میڈیکل کالج اور انجینئرنگ کالج موجود تھے۔ قہوہ خانوں میں عام لوگ آتے۔ یہاں چائے شیشے کی چھوٹی پیالیوں میں دی جاتی تھی۔ اس چائے میں نہ تو چینی ڈالی جاتی نہ شکر۔ لوگ شوق سے یہاں چائے پینے آتے اور دنیا جہاں کی باتیں ہوتیں۔ ایران کے امیر اور وزیر‘ سب کا ذکر ہوتا۔ ایران کی خارجہ پالیسی اور دوسرے ممالک سے تعلقات زیرِ بحث آتے۔ اکبر شاہ کو تہران کے گلی کوچوں میں گھومتے دو ماہ گزر چکے تھے لیکن اس کی منزل ہندوستان تھی‘ جہاں اس نے مزاحمت کی عملی سرگرمیوں میں حصہ لینا تھا۔ تہران میں ہر وقت گرفتاری کا خطرہ تھا۔ آخر وہ دن آ ہی گیا جب اکبر شاہ تہران سے نکلا اور قم جا پہنچا۔ اکبر شاہ نے دیکھا‘ یہاں پر ایک جگہ عالی شان گنبد بنا ہے‘ شہر کے مرکز میں ایک بازار ہے۔ یہاں کی معروف صنعت قالین سازی تھی۔ اس کی اگلی منزل اصفہان تھی۔ اصفہان پرانا شہر ہے اور تجارت کا ایک اہم مرکز۔ یہاں زمینیں زرخیز ہیں اور آب پاشی کاریزوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اکبر شاہ نے دیکھا‘ یہاں شراب نوشی عام ہے۔ اس کے سفر کا اگلا پڑاؤ شیراز تھا۔ شیراز میں اکبر شاہ کو حافظ شیرازی کی یاد آئی۔ اس کا دل بے اختیار حافظ شیرازی کے مزار کی طرف کھنچتا چلا گیا۔ وہ جمعے کا دن تھا‘ اور مزار پر میلے کا سماں تھا۔ یہاں کی فضا میں ایک جذب کی کیفیت تھی۔ شیراز میں دس روز قیام کے بعد اکبر شاہ ایک قافلے کے ساتھ شیراز سے روانہ ہوا۔ اس نے کُھلے پائنچوں والی سیاہ رنگ کی شلوار پہنی ہوئی تھی‘ اور اس کے اوپر عبا تھی۔ سر پر کالی ٹوپی اور بڑھی ہوئی داڑھی۔ دشوار گزار راستوں پر سفر کرتے ہوئے قافلہ برازون پہنچا۔ اسی روز ایک اور قافلہ بھی یہاں پہنچا تھا۔ اچانک اکبر شاہ کو اس قافلے میں شوکت عثمانی نظر آیا۔ اس کے سر کے بال بڑھے ہوئے تھے، پاؤں میں پھٹے پُرانے جوتے تھے اور سر پر ایرانی ٹوپی تھی۔ شوکت عثمانی تاشقند میں اس سے جُدا ہوا تھا۔ اکبر شاہ نے سوچا‘ اس جیسے کتنے ہی نوجوانوں نے وطن کو آزاد کرانے کے لیے اپنی زندگیوں کا سُکھ چین قربان کر دیا تھا اور در بدر بھٹک رہے تھے۔ اکبر شاہ کی اگلی منزل بو شہر تھی۔ عشا کی نماز کے بعد اکبر شاہ نے چاہا کہ وہیں پر سو جائے لیکن اجازت نہ ملی۔ بازار بند ہو چکا تھا۔ وہ ایک دکان کے تختے پر سو گیا تھا۔ دن بھر کا تھکا وہ گہری نیند سو رہا تھاکہ کسی نے اسے لات ماری۔ وہ ہڑبڑا کر اُٹھا تو اسے گرفتار کرکے حوالات میں بند کر دیا گیا۔ اکبر شاہ کو حوالات میں بند ہوئے دس دن گزر گئے تھے۔ اسے لگتا تھا‘ اس کی باقی زندگی اسی حوالات میں گزر جائے گی‘ لیکن ایک رات اسے حوالات سے فرار ہونے کا موقع مل گیا۔ بو شہر میں اکبر شاہ کا قیام تقریباً ایک مہینہ تھا۔ اکبر شاہ کے ہندوستان جانے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ سفری کاغذات کا نہ ہونا تھا۔ ایک دن ایک کلرک نے اسے ایک بڑھئی کے نام پر سفری جواز کے کاغذات تیار کرا دیے۔ ان کاغذات پر تصویر نہیں ہوتی تھی؛ البتہ کاغذات میں بڑھئی کا رنگ گندمی، آنکھیں سیاہ، اور قد بلند لکھا ہوا تھا۔ یہ ساری چیزیں حقیقت کے برعکس تھیں۔ اگر کوئی پاسپورٹ کو غور سے دیکھتا تو اس کا پکڑا جانا یقینی تھا‘ لیکن اب یہ خطرہ مول لینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
پھر وہ دن آ ہی گیا جب وہ جہاز میں بیٹھنے کے لیے بندرگاہ پہنچا۔ شام کا اندھیرا پھیل چکا تھا اور روشنیاں جل رہی تھیں۔ اکبر شاہ تیسرے درجے کا مسافر تھا۔ وہ ڈیک (Deck) پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ جانے کتنے برسوں کی تھکان تھی‘ اس نے آنکھیں بند کیں اور نیند کی وادی میں پہنچ گیا۔ جہاز میں طرح طرح کے لوگ تھے۔ ایک روز ایک شخص نے اکبر شاہ سے پوچھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے؟ اکبر شاہ نے جواب دیا 'تبریز‘ وہ شخص بولا‘ نہیں تم ہندوستانی ہو۔ اکبر شاہ کے لیے یہ صورت حال تشویش ناک تھی۔ اس نے دوسرے درجے کا ٹکٹ خرید لیا۔ یہاں پر لوگوں کی زیادہ بھیڑ نہیں تھی۔ جہاز کا سفر پانیوں پر سست رفتاری سے جاری تھا۔ بو شہر سے چلے انہیں دس دن گزر چکے تھے۔ وہ جولائی 1922ء کی تیس تاریخ تھی جب وہ کراچی پہنچا۔ پاسپورٹ افسر جب کاغذات چیک کر رہا تھا تو اکبر شاہ کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ جہاز سے نکل کر وہ ایک فٹن میں بیٹھا اور مسافر خانے پہنچ گیا۔
کراچی میں اس نے دو دن پشتون مزدوروں کے ساتھ گزارے اور پھر ٹرین کے ذریعے لاہور آ گیا۔ اکبر شاہ اس سے پہلے لاہور نہیں آیا تھا۔ لاہور میں ایک دن بازار میں اسے اچانک حاجی معراج دین نظر آیا۔ اس نے بھی اکبر شاہ کو پہچان لیا۔ سی آئی ڈی کے کارندے شکاری کتوں کی طرح حریت پسندوں کا پیچھا کر رہے تھے۔ لاہور میں اکبر شاہ نے اٹھارہ راتیں خانقاہوں اور مسجدوں میں چھپتے چھپاتے گزاریں۔ آخر اس نے اپنے گاؤں جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کے آنے کی خبر گاؤں میں پہلے سے پہنچ چکی تھی۔ ایک طویل عرصے کے بعد اکبر شاہ گھر پہنچا تو سب کی خوشی دیکھنے کے لائق تھی۔ گاؤ ں پہنچے اسے چار روز ہوئے تھے کہ پولیس آئی اور اکبر شاہ کو گرفتار کر کے لے گئی اور پشاور جیل میں بند کر دیا۔ اکبر شاہ کی خود نوشت گرفتاری پر تمام ہوتی ہے۔ اسے قید با مشقت کی سزا دی گئی تھی۔ جیل کی اس تنہائی میں اکبر شاہ نے اپنی کتاب 'آزادی کی تلاش‘ لکھنا شروع کی۔ 1938ء میں صوبہ سرحد میں کانگریس کی حکومت تھی‘ جب غلہ ڈھیر تحریک میں اکبر شاہ کو ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا۔ 1940ء میں کُچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس نے ایک خلافِ قانون اخبار دجنگِ بگل (بگلِ جنگ) شروع کیا جس پر اکبر شاہ غیر قانونی مواد چھاپنے پر گرفتار کر لیا گیا۔ 1951ء میں وہ اسمبلی کا ممبر منتخب ہوا۔ اکبر شاہ نے جیل سے رہائی کے بعد قانون کی تعلیم حاصل کی تھی اور وکالت کرتا تھا۔ 1978ء میں اس نے وکالت کا خیر باد کہہ دیا اور اپنے آبائی گاؤں بدرشی آ گیا اور زندگی کے آخری ایام اپنے گاؤں میں گزارے۔ اکبر شاہ کی کہانی ان گنت حریت پسندوں کی کہانیوں میں سے ایک ہے جنہوں نے اپنی جوانی کے سارے رنگ اپنے وطن کی دہلیز پر نچھاور کر دیئے تھے۔