تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     19-07-2013

سرخیاں اُن کی، متن ہمارے

عہدے کی پیشکش ہوئی تو صدر بننے کو تیار ہوں: ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا ہے کہ ’’اگر عہدے کی پیشکش ہوئی تو صدر بننے کے لیے تیار ہوں‘‘ اور اب صرف پیشکش ہونے کی دیر ہے، میں بالکل تیار بیٹھا ہوں۔اگرچہ پچھلے دنوں یہ خبر آئی تھی کہ میں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے، لیکن بعد میں ،میں نے اس کی فوری تردید بھی کردی تھی، اس لیے کہیں یہ نہ ہو کہ میرے اس بیان کی بھی تردید شائع ہوجائے کہ میں صدر بننے کے لیے تیار ہوں جبکہ میرا صدر بننا اسی طرح ملکی مفاد میں ہے جس طرح جنرل مشرف سے لے کر ہر لیڈر کا کام ملکی مفاد میں ہوتا ہے کیونکہ ماشاء اللہ یہ ملک ہی ایسا ہے کہ اس کے مفاد کے خلاف آج تک کسی نے کوئی کام کیا ہے نہ آئندہ کرنے کی جرأت کرے گا۔ آپ اگلے روز بیک وقت لاہور اور اسلام آباد سے بیان جاری کررہے تھے۔ اسلامی کونسل کی سفارشات میں پیش رفت ہوئی ہے: فضل الرحمن جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’اسلامی کونسل کی سفارشات میں پیش رفت ہوئی ہے‘‘ لیکن افسوس کہ میرے معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جو حکومت کے پاس کافی عرصے سے التوا میں پڑا ہوا ہے حالانکہ اس طرح کی خبریں اور افواہیں باقاعدگی سے اڑائی جارہی ہیں کہ مثلاً مجھے کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنایا جارہا ہے یا فلاں عہدہ دیا جارہا ہے حالانکہ میں کسی عہدے کا بھوکا نہیں ہوں بلکہ کسی مناسب جگہ پر پہنچ کر ملک اور قوم کی خدمت کرنا چاہتا ہوں جبکہ خاکسار کو کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی کا وسیع تجربہ بھی حاصل ہے جو سنا ہے کہ اب تک مجھے یاد کرتی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈال دیا ہے اور اس لیے کشمیر کمیٹی کا چیئرمین مقرر کرنے میں عدم دلچسپی کا اظہار کررہی ہے جبکہ اشاروں کنایوں میں کئی بار اسے اس غفلت پر خبردار بھی کیا جا چکا ہے لیکن اس کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس نے اپنی روایتی کاہلی اور سستی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے جوئوں کو بھی رینگنے سے منع کر رکھا ہے جو کہ جوئوں کی آزادیٔ رفتار کے سراسر خلاف ہے جس سے حکومت انسداد بے رحمی حیوانات ایکٹ کی بھی خلاف ورزی کررہی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کررہے تھے۔ ریلوے کو نقصان پہنچانے والے عناصر کا احتساب کیا جائے گا: سعد رفیق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ’’ریلوے کو نقصان پہنچانے والے عناصر کا احتساب کیا جائے گا‘‘ اگرچہ قومی سطح پر یہ اتفاق رائے ہوچکا ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف احتساب وغیرہ کا مذاق روا نہیں رکھا جائے کیونکہ جو پارٹی آج کسی کا احتساب کرے گی تو دوسری کل کو برسراقتدار آ کر اس کا بھی احتساب کرکے رکھ دے گی۔ اس لیے ملک کو اس سمجھوتے اور باہمی مفاہمت سے آگے بڑھنا چاہیے۔ تاہم چھوٹے موٹے افسروں کے احتساب کی گنجائش بہرحال موجود ہے اور اس سلسلے میں انشاء اللہ کوئی نہ کوئی پیش رفت ضرور ہوگی۔ ٹرینوں کی طرح جس کی تیز رفتاری کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ریلوے حکام نیب کے ساتھ تعاون کریں گے‘‘ اگرچہ اس کی اپنی حالت خاصی پتلی ہے کیونکہ ایک عرصے سے وہ ایک چیئرمین کے بغیر ہی رینگ رینگ کر چل رہی ہے۔ اس لیے اس کے ساتھ تعاون اور عدم تعاون ایک برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کرپشن کی تحقیقات مستعدی سے کی جائے تاکہ نتائج جلد سامنے آسکیں‘‘ جس کے لیے اگر حسب روایت ایک کمیٹی بنا دی جائے تو یہ کام تیز رفتاری سے ہوسکتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک اہم اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔ نواز لیگ کی حکومت 40 دن میں ہی غیر مقبول ہوگئی: شیخ رشید عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور بار بار ناکام ہونے کے بعد اب خدا خدا کرکے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے شیخ رشید احمد نے کہا کہ ’’نوازلیگ کی حکومت 40 دن میں ہی غیر مقبول ہوگئی ہے‘‘ جبکہ خاکسار کی مقبولیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور یہ دونوں باتیں مجھے اپنے حلقے کے کچھ لوگوں نے بتائی ہیں حالانکہ یہی بدبخت کئی بار میری ضمانت بھی ضبط کروا چکے ہیں جبکہ مجھے ہروانا ہی کافی تھا اور یہ انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اتنا شور مچانے والے میاں برادران کو چپ کیوں لگ گئی ہے‘‘ چنانچہ ایسا لگتا ہے کہ میرا خوف اور دہشت بالآخر اپنا کام کر گئے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ ’’جتنے عہدے نوازشریف نے اپنے پاس رکھے ہیں، ملکی تاریخ میں کسی وزیراعظم نے اپنے پاس نہیں رکھے‘‘ حالانکہ ان میں سے کوئی چھوٹا موٹا خاکسار کو بھی دیا جاسکتا تھا جبکہ لالچ اچھی چیز نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’بھتہ خوری اب اسلام آباد اور راولپنڈی میں بھی پہنچ گئی ہے‘‘ اس ضمن میں بعض شرفاء نے میرے ساتھ بھی رابطہ کیا لیکن میں نے کافی غور وخوض کرنے کے بعد انکار کردیا کہ مجھے ابھی اور بہت سے کام کرنا ہیں جن سے روگردانی کرکے میں اپنا ہی نقصان کروں گا۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل میں گفتگو کررہے تھے۔ صدارتی انتخابات کا شیڈول آئین کے مطابق ہے: چیف الیکشن کمشنر چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے کہا ہے کہ ’’صدارتی انتخابات کا شیڈول آئین کے مطابق ہے‘‘ اگرچہ حالیہ انتخابات بھی آئین کے مطابق تھے لیکن کہیں کہیں آئین کے کچھ زیادہ ہی مطابق ہو گئے تھے جبکہ صدارتی انتخابات میں اس طرح کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’’صدارتی انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے‘‘ اگرچہ یہ ذمہ داری اس طرح پوری کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی جس طرح عام انتخابات میں ادا کی گئی تھی اور جس پر کافی عرصے تک احتجاج اور دھرنوں کے ڈونگرے برستے رہے ہیں لیکن خاکسار کی ڈانواں ڈول صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا ہے بلکہ اس نے مجھے مزید صحت مند کر دیا ہے اور اپنے آپ کو جوان جوان محسوس کرنے لگا ہوں اور امید ہے کہ اگلی بار بھی خاکسار ہی کی خدمات حاصل کی جائیں گی کیونکہ اس وقت تک بھی میں انشاء اللہ صحیح و سالم حالت میں موجود ہوں گا۔ انہوںنے کہا ’’چیف الیکشن کمشنر کو ریٹرننگ آفیسر کی ذمہ داری ادا کرنا ہوتی ہے‘‘ جو موجودہ حکومت سے پوچھ کر تسلی کی جاسکتی ہے کہ کسی قدر غیر جانبداری سے ادا کی گئی اور وہ مجھے اس کے لیے کوئی ایوارڈ وغیرہ بھی دینے کا سوچ رہی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک بیان جاری کررہے تھے۔ آج کا مطلع جیسے کتاب میں سوکھے پھول کی ایک مہک رہ جاتی ہے ختم بھی ہوجائے جو محبت، کوئی کسک رہ جاتی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved