تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     04-09-2021

متفرقات

بھارتیوں کا واویلا: افغانستان پر طالبان کے کنٹرول اور کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد بھارتیوں نے اتنا واویلا مچایا کہ گویا اُن کی ماں مرگئی ہے۔ انہوں نے طالبانِ افغانستان اور پاکستان پر چاند ماری شروع کر دی، اُن کے میڈیا پرسن بدحواس نظر آ رہے تھے۔ بھارتی وزیراعظم مودی کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دَووَل ہیں، کہا جاتا ہے: مودی سرکار اَجیت دووَل کو جاسوسی کے فن کا ماہر یعنی''سپائی ماسٹر‘‘ قرار دیتی ہے۔ آٹھ برس پیش تر کی گئی اجیت دووَل کی ایک چھ منٹ کی تقریر ان دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہے، اس میں وہ کہتے ہیں: ''ہم ایسی افغان فوج تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائیں گے جو طالبان کو شکست دے سکے‘‘، اُن کے بقول یہ اُن کا زُعم و گمان ہے، لیکن انہی کا کہنا ہے:''دس بارہ پاکستانی عسکری حکام سے میری بات ہوئی، وہ میرے مفروضے کی بابت شکوک وشبہات کا اظہار کر رہے تھے، اُن کا کہنا تھا: ''ایسا نہیں ہو سکتا، متضاد عناصر کو جمع کر کے ایک قومی فوج تشکیل دینا مشکل کام ہے‘‘۔ اسی کو اردو میں کہتے ہیں: ''کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘۔
بالآخر امریکا، نیٹو اور بھارت کی مشترکہ طور پر تربیت یافتہ اور جدید اسلحے سے لیس تین لاکھ جوانوں اور افسران پر مشتمل افغان فوج مجاہدین کا مقابلہ کیے بغیر ڈھیر ہو گئی اور ریت کی دیوار ثابت ہوئی، توتجربے سے ثابت ہوا کہ پاکستانی جنرلوں کا وژن اجیت دووَل کے مقابلے میں صائب تھا اور اُن کی بات سو فیصد درست ثابت ہوئی۔ اسی بنا پر اجیت دووَل کو آج کل بھارت میں ملامت کیا جارہا ہے۔اجیت دووَل کا عسکری حکام سے اتنا تفصیلی رابطہ غالباً اُس زمانے میں ہوا ہو گا، جب سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بیک ڈور ڈپلومیسی کا چینل روبہ عمل تھا۔ ریٹائرڈ انڈین لیفٹیننٹ جنرل ایچ ایس پانگ کے دووَل کے بارے میں سوشل میڈیا پر طنزیہ ریمارکس موجود ہیں: ''واہ! کیا عظیم سپائی ماسٹر ہے‘‘، کیونکہ پاکستانی عسکری حکام کے متوجہ کرنے پر بھی وہ اپنی رائے بدلنے پر آمادہ نہ ہوا۔
کہا جاتا ہے: ''بلوچستان میں بغاوت کو فروغ دینے کے لیے دووَل بیس سال سے مصروفِ عمل ہے، وہ سات سال خود بھی پاکستان میں جاسوسی پر مامور رہا ہے‘‘۔ رسوائے زمانہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو دووَل کا رشتے دار ہے، اس کے خاندان کا انڈین پولیس سروس سے تعلق رہا ہے۔
ہماری رائے میں افغان فوج کی ناکامی کے اسباب میں سے ایک یہ ہے: اُن کے پاس جان قربان کرنے کے لیے کوئی حقیقی داعیہ اور صادق جذبہ نہیں تھا، کیونکہ اُن کے ذمے ایک ایسی حکومت کا دفاع تھا، جو افغان عوام کی قائم کردہ نہیں تھی بلکہ امریکا کی مسلّط کردہ تھی۔ اشرف غنی نے امریکا میں تعلیم حاصل کی، وہیں خدمات بجا لاتے رہے۔ امریکی قومیت کے حامل تھے۔ پھر امریکیوں نے انہیں اٹھا کر افغانستان میں حکمرانی کے لیے لانچ کر دیا، جیسے ہمارے ہاں مختلف اوقات میں معین قریشی، شوکت عزیز، جاوید برکی اور باقر رضا کو بیرونِ ملک سے درآمد کر کے کلیدی مناصب پر فائز کیا جاتا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر اب یہ صفائی پیش کی جا رہی ہے: ''اجیت دووَل پُرامید تھا کہ ہم ایک بہترین تربیت یافتہ اور بہترین اسلحے سے لیس افغان فوج تیار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو اپنی جمہوریت اور دستور کا دفاع کرے گی، مگر انہوں نے خبرداربھی کیا تھا کہ سابق صدر نجیب اللہ کی قیادت میں ایک زیادہ طاقتور فوج مجاہدین کے خلاف ناکام و نامراد رہی۔ اپنی 2013ء کی تقریر میں دووَل نے تکرار کے ساتھ کہا: کامیاب جمہوری افغانستان تعمیر کرنے میں پاکستان کا حقیقی عزم ضروری ہے، جو اُس کے بقول‘ نہیں ہے۔ لہٰذا بھارتیوں کے بقول‘ ''دووَل کی آٹھ سالہ پرانی تقریر کوغلط سیاق کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے‘‘۔
سوال یہ ہے: اگر امریکا، نیٹو اور انڈیا کا اصل ہدف صدقِ دل کے ساتھ مستحکم جمہوری افغانستان کی تعمیر تھا اور اس کے لیے پاکستان کی حمایت ناگزیر تھی، تو پھر انڈیا گزشتہ بیس سال سے افغانستان کی سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے کیوں استعمال کرتا رہا ہے؟ اس کو پاکستان سے کیا تکلیف تھی؟ کابل میں ایک انڈین سفارت خانے کا قیام تو قابلِ فہم بات ہے، لیکن قندھار، جلال آباد، ہرات اور مزار شریف میں بھارتی قونصل خانوں کا کیا جواز تھا؟ اسی لیے طالبان کے کابل میں وارد ہوتے ہی بھارت کو ہر جگہ سے بستر بوریا سمیٹنا پڑا، سو امریکا کی طرح بھارت کا مقدر بھی رسوائی بنی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے: اب افغانستان میں طالبان کے غلبے کی حقیقت کو تسلیم کرکے وہ غم و اندوہ کی کیفیت سے نکل رہے ہیں۔ ان کے بعض دانشور بھی مودی حکومت کو متوجہ کر رہے ہیں کہ تعصب کی عینک اتارو، عقل سے کام لو، سامنے کی حقیقتوں کو تسلیم کرو اور پیش آمدہ ناخوشگوار حقائق کو قبول کرتے ہوئے اپنے لیے کوئی راہِ عمل نکالو۔ پس بھارت اب درمیانی راستے کی تلاش میں ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے بھارتی نمائندے نے طالبانِ افغانستان کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکالنے والی دستاویز پر دستخط کر دیے ہیں اور طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کی جانب پیش رفت بھی ہو رہی ہے۔ انڈیا کے انگریزی اخبار ''دی ہندو‘‘ کی مندرجہ ذیل رپورٹ سے اس کے شواہد مل رہے ہیں:
''قطر میں بھارتی سفیر دیپک متل نے طالبان کے سفارتی نمائندے شیر محمد عباس ستانکزئی سے ملاقات کی۔ بھارتی نمائندے نے کہا: ''ملاقات طالبان کی درخواست پر ہوئی، طالبان بھی اپنے آپ کو تسلیم کرانا چاہتے ہیں؛ البتہ اس کی بابت انڈیا تاحال محتاط ہے۔ گفتگو کا مرکزی موضوع بھارتیوں کی بحفاظت وسلامتی واپسی تھی۔ انڈیا کواس بات پر تشویش تھی کہ افغانستان کی سرزمین انڈیا کے مفادات کے منافی اور دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے استعمال نہ کی جائے، 140 انڈین اب بھی کابل میں ہیں جنہیں واپس لانا ہے، 112 بھارتیوں سمیت انڈیا 565 افراد پہلے ہی نکال چکاہے، یہ تعداد دوسرے ممالک کے مقابلے میں کم ہے‘‘۔ استانکزئی انڈین ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دون کے گریجویٹ ہیں، انہوں نے بھارتیوں سے کہا: ''وہ افغانستان کے ساتھ اپنے سیاسی اور تجارتی تعلقات جاری رکھیں‘‘، یہ میٹنگ بھارت کی جانب سے ان اشارات کے بعد ہوئی کہ وہ طالبان کے ساتھ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کے لیے تیار ہے؛ البتہ اُسے حقانی گروپ کے بارے میں تشویش ہے، جو 2008-09ء میں بھارتی سفارت خانے پر حملے کا ذمہ دار ہے، اس حملے میں پچھتر افراد ہلاک ہوئے تھے‘‘۔
امریکیوں کی کابل ایئر پورٹ سے رخصتی کے مناظر: دنیا کی عشرتوں میں مگن اور اللہ کے قانونِ مکافاتِ عمل سے بے پروا لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اور وہ کتنے ہی باغات، (میٹھے پانی کے) چشمے، (لہلہاتے) کھیت، عالی شان محلات اورنازونِعَم چھوڑ گئے، جن سے وہ لطف اندوز ہو رہے تھے، یہی ہماری سنّت (جاریہ) ہے اور ہم نے اِن تمام چیزوں کا وارث دوسری قوم کو بنا دیا، سو نہ اُن پرچشمِ فلک روئی، نہ زمین گریاں ہوئی اور نہ انہیں مہلت دی گئی‘‘ (الدخان: 25 تا 29)۔
امریکی جب کابل ایئر پورٹ کو الوداع کہہ رہے تھے تو انہوں نے اپنے متروکہ جہازوں، ہیلی کاپٹروں، انتہائی جدید ہتھیاروں کو، جنہیں وہ اپنے ساتھ لے جا نہیں سکتے تھے، اپنے ہاتھوں سے تباہ کیا، اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی مثال قرآنِ کریم میں بیان فرمائی ہے: ''اور اُس عورت کی طرح نہ ہو جائو جس نے اپنا سُوت مضبوطی سے کاتنے کے بعد اسے ریزہ ریزہ کرکے توڑ دیا ہو‘‘ (النحل: 92)۔ الغرض کابل ایئر پورٹ سے دنیا کی سپر پاور امریکا کے الوداعی لمحات عبرت آموزہیں۔ کاش! کوئی اپنی چشمِ بصیرت کو کھلا رکھے۔ غالبؔ نے کہا تھا: ؎
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
امریکیوں کے بارے میں معلوم نہیں ہے کہ وہ نوحہ گری کے عادی ہیں یا نہیں؛ تاہم میڈیا کے سامنے امریکی صدر جو بائیڈن کی آنکھوں سے آنسو ضرور نکل آئے، لیکن اگر امریکا میں نوحہ خواں دستیاب نہ ہوں تو ہمارے میڈیا کے لبرل دانشور یہ خدمت بجا لانے کے لیے کافی ہیں، انہیں یہ مناظر دیکھ کر امریکیوں سے بھی زیادہ ذہنی اذیت ہورہی ہے، وہ مختلف تاویلات و توجیہات کا سہارا لے کر مستقبل کے بھیانک نتائج سے ڈرا رہے ہیں۔ دعا ہے جس تعبیر سے وہ ڈرا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ افغانوں اور اہلِ پاکستان کو اس سے محفوظ فرمائے۔
مشکل فیصلے کرنے کے لیے صاحبِ عزم قیادت کی ضرورت ہوتی ہے، امریکا ایک عرصے سے افغانستان کی بے مقصد جنگ سے نکلنا چاہتا تھا مگر اوباما اپنے سیاہ فام ہونے کی کمزوری کی وجہ سے یہ مشکل فیصلہ نہ کر سکے، جبکہ ٹرمپ نے اشرف غنی حکومت کو ایک جانب رکھ کر ''امارتِ اسلامی افغانستان‘‘ سے معاہدہ کیا۔ یہ تحریکِ طالبانِ افغانستان کو افغانستان کا حقیقی وارث سمجھنے کے مترادف تھا۔ وہ افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا کی ممکنہ تاریخ بھی دے چکے تھے۔ بائیڈن نے اُسے تکمیل کے مرحلے تک پہنچایا۔ انہوں نے عزیمت کا مظاہرہ کیا۔ مقبولِ عام بیانیے کو چھوڑ کر حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیا اور دوٹوک انداز میں کہا: ''وہ اپنے فیصلے پر قائم ہیں اور اس پر انہیں کوئی ندامت نہیں ہے‘‘، البتہ امریکی سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں اندرونِ خانہ بلیم گیم چل رہی ہے اور کسی حد تک منظرِ عام پر بھی آ رہی ہے۔ امریکا کی سول اسٹیبلشمنٹ کو شکوہ ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے انہیں زمینی حقائق سے بے خبر رکھا۔ بائیڈن نے یہ بھی کہا: ''روس اور چین چاہتے ہیں کہ ہم بدستور افغان جنگ میں الجھے رہیں‘‘۔ آج کل امریکی پسپائی اور اس کے مابعد اثرات پر سب سے زیادہ روس کا انگریزی چینل ''RT‘‘ پروگرام کر رہا ہے۔
ایسے مواقع پر بعض شوقیہ ماہرین رضاکارانہ طور پر اتالیق کا کردار بھی ادا کرنا چاہتے ہیں، ان کے ذہن میں مشوروں کی ایک طویل فہرست ہوتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ امارت اسلامیہ افغانستان اور افغان طالبان کی قیادت کو اپنی حکمتِ عملی مرتب کرکے روبہ عمل لانے کا موقع دیا جائے، وہ یقینا خالی الذہن نہیں ہوں گے، آزمائش کی بھٹی سے گزر کر وہ کندن بن چکے ہیں۔ وہ عزیمت و استقامت کے طویل سفر اور عملی تجربے سے گزر کر آئے ہیں، یقینا ان کے ذہن میں آنے والے دنوں کے لیے خاکہ موجود ہوگا۔ اقوامِ عالَم کو چاہیے کہ ان کی مُشکیں کسنے کے بجائے انہیں موقع دیں، عالمی برادری میں ان کی شمولیت کی راہ ہموار کریں۔ ان کی حکومت کو تسلیم کریں اور ان کے ساتھ قابلِ قبول تعامل کا طریقہ وضع کریں۔ افغانستان کی سرزمین پر بہت خون بہہ چکا ہے، اب افغانوں کو ان کے طویل جہاد اور قربانیوں کا ثمر ملنا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved