ہمارے بچپن میں ایک جریدہ آتا تھا جو مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بچوں کے لیے شائع ہوتا تھا‘ اس کا نام تھا مجاہد۔ اس میں جموں و کشمیر کے شہدا اور غازیوں کا ذکر ہوتا تھا۔ میرے چچا جان‘ محمد بشیر مغل‘ کراچی سے ہر ماہ مجھے یہ رسالے بھیجتے تھے۔ اس میں کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کے قصے درج ہوتے تھے۔ میں اکثر مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے حقائق پڑھ کر رو دیتی تھی۔ بھارتی فوجیوں کی جانب سے کشمیری نوجوانوں کو اغوا کرکے لے جانا، ان کو کرنٹ لگانا، پلاس سے ان کے ناخن اکھاڑ دینا، تشدد کر کے انہیں ہلاک کر دینا اور پھر ان کی لاش کا کسی ویرانے میں‘کسی جھاڑی کے پاس سے ملنا، اسی طرح نوجوان لڑکیوں کو اغوا کرکے ان کا ریپ کیا جانا‘ یہاں تک کہ چھوٹی بچیوں کو بھی اس ظلم و ستم کا نشانہ بنانا‘ یہ سب تصور کر کے بھی میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ اسی جریدے میں ایک بار ایک شفیق سے بزرگ کی تصویر شائع ہوئی۔ میں نے اپنے ابو سے پوچھا کہ یہ مجاہد کون ہیں؟ تو انہوں نے مجھے کشمیر پر چند کتابیں لا کر دیں تاکہ مجھے مقبوضہ کشمیر کے بارے میں پتا چل سکے۔ وہ مردِ مجاہد سید علی گیلانی تھے جوغاصب بھارتی حکومت کے سامنے سینہ سپر رہے اور تاحیات اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے رہے۔ جب انٹرنیٹ کا دور آیا تو میں عالمی خبر رساں ایجنسی پر خبریں پڑھتی تھی، یہاں بھی مقبوضہ وادی کے حالات پڑھ کر بہت دکھ ہوتا تھا۔ کبھی وہاں کے نہتے عوام کو کرفیو لگا کر گھروں میں بند کردیا جاتا، کبھی نوجوان لڑکوں کو اغوا کرکے قتل کردیا جاتا، کبھی بزرگ شہریوں پر تشدد کیا جاتا تو کبھی ننھے بچوں کو شیلنگ اور گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، اگر شہ رگ میں تکلیف میں ہوگی تو یقینا باقی جسم بھی تکلف محسوس کرے گا۔ کشمیر کے ساتھ پاکستان کا رشتہ کچھ ایسا ہی ہے۔
کشمیریوں کا قصور کیا ہے؟ صرف یہ کہ وہ پاکستان سے پیار کرتے ہیں‘ وہ بھارت کا حصہ بن کر نہیں رہنا چاہتے۔ وہ اپنے حقِ خود ارادیت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ سید علی گیلانی بھی کشمیر کے ان بیٹوں میں سے ایک تھے جنہوں نے ساری زندگی بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کی ساری جدوجہد پُرامن رہی مگر انہوں نے پوری جرأت سے بھارت کو للکارا اور کشمیریوں کے حقوق کیلئے اپنی آخری سانسیں تک وقف کیے رکھیں۔ وہ 29 ستمبر 1929ء کو سوپور کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے لاہور سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی‘ اور کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ اردو اور فارسی میں ایم اے کرنے کے بعد کچھ عرصہ انہوں نے صحافت اور رپورٹنگ بھی کی، جب 1950 کی دہائی میں انہوں نے سیاست کے میدان میں عملی رکھا تو جماعت اسلامی کو چنا کیونکہ وہ مولانا مودودی کے افکار سے بہت متاثر تھے۔ پاکستان میں جماعت اسلامی کے امیر مرحوم قاضی حسین احمد سے ان کے نہایت نزدیکی مراسم تھے۔ دونوں ایک ساتھ حج پر بھی گئے تھے۔ سید علی گیلانی کے پسندیدہ شاعر علامہ محمد اقبال تھے، اکثر اپنے خطوط میں اور کتابوں پر دستخط کرتے ہوئے وہ علامہ اقبال کا کلام لکھا کرتے تھے۔ گزشتہ روز جب ان کی رحلت کی خبر آئی تو قاضی صاحب کی صاحبزادی سید علی گیلانی اور قاضی حسین احمد کو یاد کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں۔
سید علی گیلانی نے ساری زندگی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر انہوں نے بنا خوف و خطر کہا ''ہم پاکستانی ہیں‘ پاکستان ہمارا ہے‘‘۔ انہوں نے ہمیشہ بھارت کے خلاف جاری کشمیریوں کی عسکری جدوجہد کی حمایت کی اور مقبول بٹ‘ افضل گورو اور برہان وانی کی شہادتوں پر کھل کر بھارتی حکومت پر تنقید کی۔سیاسی جدوجہد کا وہ خود بھی حصہ رہے۔ وہ بھارت سے مکمل آزادی کے خواہش مند تھے۔ جس وقت حریت دو دھڑوں میں تقسیم ہوئی تو وہ حریت کانفرنس کے سربراہ بن گئے۔ 17سال وہ حریت کانفرنس کے چیئرمین رہے اور 91 سال کی عمر میں وہ اس سے علیحدہ ہوگئے؛ تاہم ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی غاصبیت کے خلاف وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
5 اگست 2019ء کو جب مودی سرکار نے بھارتی آئین سے کشمیر کو جداگانہ ریاستی حیثیت دینے والی شقوں کا خاتمہ کیا تو اس کے بعد کشمیریوں پر مظالم کا سلسلہ مزید سخت ہوگیا تھا۔ سید علی گیلانی بسترِ علالت پر تھے اور ان کی نظر بندی کو بارہ سال کا عرصہ ہوچلا تھا۔ انہوں نے اس اقدام کی سخت مزاحمت کی۔ غاصب حکومت کی جانب سے ان کی رہائشگاہ کے گرد پہرہ مزید سخت دیا گیا تاکہ عوام ان تک نہ پہنچ سکیں۔ قید‘ نظر بندی‘ پیرانہ سالی اور سخت علالت نے بھی ان کے جذبے اور جرأت کو متاثر نہیں کیا اور وہ بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔ انہوں نے اپنی وفات سے قبل یہ وصیت کی تھی کہ ان کو شہدائے آزادی کے قبرستان میں دفنایا جائے اور ان کے جسدِ خاکی کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا جائے۔ انہوں نے کہا: جب قدرت کی رحمت سے ہم دریائے جہلم کی اُچھلتی اور اٹھلاتی لہروں کی طرح پاکستان کے وجود کے ساتھ ہم آغوش ہوجائیں تو ہماری قبروں پر آکر ہمیں یہ روح پرور خوش خبری سنا دینا تاکہ عالم بزرخ میں ہماری ارواح سکون و طمانیت سے ہمکنار ہوجائیں۔
جیسے ہی ان کی وفات کی خبر آئی‘ پورا پاکستان غم میں ڈوب گیا۔ قومی پرچم سرنگوں کر دیا گیا۔ اس موقع پر بھی مودی حکومت کا بھیانک چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا۔ سب نے دیکھا کہ کیسے مودی سرکار کے پالتو کمانڈوز اور پولیس اہلکاروں نے چاروں طرف سے ان کے اہلِ خانہ کوگھیرے میں لے کر وادی میں کرفیو کا نفاذ کردیا۔ انہوں نے سید علی گیلانی کا جسدِ خاکی بھی چھینے کی کوشش کی۔ اس موقع پر دنیا کی بے حسی بھی دوبارہ نمایاں ہو کر سامنے آئی کہ سب اس معاملے میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے۔ یہ منظر دیکھ کر سب کی آنکھیں بھر آئیں کہ کس طرح مودی سرکار کے حکم پر انہیں رات کے اندھیرے میں چند لوگوں کی موجودگی میں دفنایا گیا؛ تاہم یہ منظر کشمیریوں کی پاکستان سے محبت کا غماز تھا اور اس پر دل نازاں ہوگیا کہ ان کا جسدِ خاکی پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں لپٹا ہوا تھا۔ جب تک یہ شیر دل مجاہد زندہ رہا‘ بھارتیوں پر لرزہ طاری رہا اور بعد از وفات بھی اس کی شجاعت سے بھارتی حکمران تھر تھر کانپ رہے تھے۔ اس لئے زبردستی رات کے اندھیرے میں ان کی تدفین کر دی گئی۔ یقینا یہ مردِ مجاہد سرخرو ہوگیا اور تاریخ میں امر ہوگیا ہے۔ پاکستان بھر میں سید علی گیلانی کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی اور ان کے درجات کی بلندی کیلئے دعائیں مانگی گئیں۔ فیصل مسجد میں ہونے والی غائبانہ نمازِ جنازہ میں صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی، آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید، وزیر اطلاعات فواد چودھری اور دیگر حکام نے بھی شرکت کی۔ اس سوگ کے موقع پر پی ٹی وی نے اپنا لوگو سیاہ رکھا۔ میری قرآن کلاس میں بھی ان کے ایصالِ ثواب کیلئے دعا کی گئی۔ سوشل میڈیا پر مجھ سمیت کئی لوگوں نے مطالبہ کیا ہے کہ سید علی گیلانی کے نام سے ایک یادگار بنائی جائے اور ایک شاہراہ ان کے نام سے منسوب کی جائے۔ شہدائے کشمیر کی یادگار ایف نائن پارک میں بھی قائم کی جاسکتی ہے۔ اللہ سے یہ دعا ہے کہ کشمیر کو سید علی گیلانی جیسا کوئی سپوت دوبارہ عنایت کر‘ جس کی قیادت میں کشمیری عوام آزادی کے سورج کو طلوع ہوتا ہوا دیکھ سکیں۔
بھارتی قابض فوج نے سید علی گیلانی کا جسدِ خاکی چھیننے کی کوشش کر کے نہایت بری مثال قائم کی ہے، سید علی گیلانی کے گھر کی خواتین سے جو ناروا سلوک کیا گیا‘ وہ بھی انتہائی قابلِ مذمت ہے؛ تاہم بہادر کشمیری عورتوں نے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ کر غاصب فوجیوں کا مقابلہ کیا۔ موددی اور امیت شاہ ٹولے کو ڈر تھا کہ سیدعلی گیلانی کے جنازے میں شرکت کے لیے پورا کشمیر سڑکوں پر امڈ آئے گا اور کشمیر تادیر ''ہم پاکستانی ہیں‘ پاکستان ہمارا ہے‘‘ کے نعروں سے گونجتا رہے گا، اسی لیے اہلِ خانہ کو مجبور کیا گیا‘ بلکہ زبردستی صبح ساڑھے چار بجے‘ گنتی کے چند لوگوں کی موجودگی میں ہی انہیں گھر کے قریب دفن کر دیا گیا۔ مودی اور اس کے چیلے جتنا بھی ظلم کر لیں‘ تاریک اور سیاہ راتوں کا انت ہمیشہ ایک روشن اور چمکدار صبح سے ہی ہوتا ہے۔ ایک نہ ایک دن آزادی کا سورج جموں و کشمیر میں ضرور طلوع ہوگا اور بھارت نے جتنا ظلم کیا ہے‘ ان شاء اللہ اس کے اتنے ٹکڑے ہوں گے کہ مودی اور امیت شاہ گن بھی نہیں پائیں گے کہ ''ظلم جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے‘‘۔