تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     04-09-2021

شکستہ نظام کی یہی علامتیں ہوتی ہیں

دنیا انگشت بدنداں ہے کہ آخر طالبان کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی تھی جواُنہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے افغانستا ن پر ایک مرتبہ پھر اپنا تسلط قائم کر لیا۔ کوئی دوسری رائے نہیں کہ اِس پر ابھی طویل عرصے تک بحث ہوتی رہے گی۔ اندازے لگائے جاتے رہیں گے کہ غیرملکیوں کو تو ایک روز جانا ہی تھا لیکن افغان فوج کو کیا بنی تھی۔ یہ وہی فوج تھی جس پر امریکا نے بیس سالوں کے دوران 88.32ارب ڈالر خرچ کیے تھے۔ کم از کم کاغذات کی حد تک تین لاکھ سے زائدنفوس پر مشتمل زمینی اور فضائی افواج کو امریکا اور اُس کے اتحادیوں کے بہترین ٹرینرز نے تربیت فراہم کی تھی۔ اُنہیں اِس حد تک تربیت یافتہ بنا یا گیا تھاکہ امریکا اور اس کے اتحادی افغان فوج پر اعتماد کر سکتے تھے۔ اپنے حمایتیوں کی حکومت اور فوج تیار کرنے کے بعد ہی امریکا نے افغانستان سے انخلا کا فیصلہ کیا تھا۔ اُنہیں پوری توقع تھی کہ افغان فوج اُن کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکا خود بھی اِس جنگ پر اُٹھنے والے بھاری اخراجات کے باعث زیربار ہوتا چلا جارہا تھا۔ اندازہ لگائیے کہ بیس سالوں کے دوران امریکا نے افغانستان میں 2ہزار ارب ڈالر سے زائد خرچ کر ڈالے۔ اتنی رقم کہ شاید ہمارے تصور میں بھی نہ آسکے۔ اندازہ لگائیے کہ یہ رقم بل گیٹس، جیف بیزوس اور ایلون مسک سمیت 30امیر ترین امریکیوں کی مجموعی دولت سے بھی زیادہ ہے۔ اندازہ ہے کہ اگر امریکا اِسی طرح افغانستان پر رقم خرچ کرتا رہتا تو 2050ء تک اخراجات ساڑھے چھ ہزار ارب ڈالر تک پہنچ جاتے اور ہرامریکی 20ہزار ڈالر کا مزید مقروض ہوجاتا۔ امریکا کو جانی نقصان الگ سے اُٹھانا پڑ رہا تھا جس کے پیش نظر اتحادی افواج کافی عرصے سے افغانستان سے رخصتی کی بابت سوچ رہی تھیں۔ اِسی کے پیش نظر افغان فوج کی تربیت پر خاص توجہ مرکوز کی گئی تھی اور کم از کم کاغذوں کی حد تک ایک مضبو ط فوج قائم کردی گئی تھی‘ لیکن ہوا کیا؟ اِدھر امریکا اور اُس کے اتحادیوں کا انخلا شروع ہوا اور اُدھر افغان فوج تاش کے پتوں کی طرح بکھرنا شروع ہوگئی۔ از راہ تفنن‘ کہا جارہا ہے کہ اتنی جلدی تو کسی پلاٹ کا قبضہ نہیں ملتا جتنی جلدی طالبان پورے افغانستان پر قبضہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
اب جو بھید کھلنا شروع ہوئے ہیں تو بہت سے راز بھی آشکار ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ بیشتر افغان فوج گھوسٹ تھی‘ یعنی اس کا وجود صرف ریکارڈ میں ہی تھا۔ حقیقت میں افغان افواج کی تعداد بہت کم تھی اور گھوسٹ ملازمین کی تنخواہ کرپٹ عناصر کی جیبوں میں جارہی تھی۔ وارلارڈز، اشرافیہ، حکمران، سب اس بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھو رہے تھے بلکہ نہا رہے تھے۔ جہاں ملک کے صدر کا یہ حال ہوکہ وہ ملک سے فرار ہوتے ہوئے 169 ملین ڈالر کی رقم اپنے ساتھ لے کر فرار ہو جائے‘ وہاں نچلی سطح پر کیا عالم ہو گا‘ خود ہی اندازہ لگا لیجئے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی 2020ء کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال تک افغانستان دنیا کے پہلے بیس کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں شامل تھا۔ اب اِس بارے میں دوسری کیا رائے ہوسکتی ہے کہ جہاں اعلیٰ سطح پر کرپشن ہی کا راج ہو‘ وہاں عوام تک کیا پہنچتا ہوگا؟اربوں ڈالر کی امداد مل رہی تھی لیکن افغان عوام جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارہے تھے۔ اشرافیہ کی دولت میں اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا اور عوام کے لیے روٹی کا حصول بھی مشکل ہوچکا تھا۔ کچھ ایسے ہی حالات فوج کے بھی تھے جس کی تعداد کے حوالے سے مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا رہا۔ چند امریکی اداروں کی اپنی رپورٹس کے مطابق افغان فوج کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی رہی جبکہ حقیقت میں لڑاکا سپاہیوں کی تعداد 90 ہزارسے ایک لاکھ کے درمیان تھی۔ بدعنوان عناصر اِن میں سے بھی بیشتر سپاہیوں تک تنخواہیں اور دوسری سہولتیں پہنچنے نہیں دے رہے تھے۔ بلاشبہ (سابق) افغان صدر اشرف غنی اِس صورت حال سے بخوبی آگاہ تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اُن کے ملک میں بدعنوانی کس سطح تک پہنچ چکی ہے‘ انہیں اچھی طرح علم تھا کہ اُن کے رشتہ دار معدنی وسائل کے ٹھیکوں میں کس طرح لوٹ مار کر رہے ہیں مگر وہ خاموش تماشائی بن کر بیٹھے رہے اور شاید اسی لیے انہوں نے پہلے سے ہی اپنے فرار کا تمام انتظام مکمل کررکھا تھا۔ اشرف غنی کے فرار نے افغان انتظامیہ کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی تھی۔ جیسے ہی یہ ملک سے فرار ہوئے تو افغان فوج کا رہا سہا حوصلہ بھی جواب دے گیا۔ کوئی تصوربھی نہیں کرسکتا تھا کہ سالوں کی تربیت اور 90ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو افغان فوج یوں خاک میں ملا دے گی لیکن ایسا ہو کر رہا۔ اِس حقیقت کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ بدعنوان معاشرو ں میں شکست و ریخت کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ اندازہ لگا لیجئے کہ لالچ انسان کو کیسے اندھا کردیتی ہے کہ اُسے اپنے ملک کی فکر رہتی ہے نہ عوام کی۔ 1979ء سے لے کر آج تک‘ افغان عوام نے کیسے کیسے ستم سہے ہیں۔ لاکھوں افغان اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے‘ جن میں بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ افغانوں کی ایک بڑی تعداد دربدر کی ٹھوکریں کھاتی رہی لیکن ان کے حکمران اُن کے ساتھ کیا کرتے رہے؟یہ سچ ہے کہ امریکا اور اُس کے اتحادیوں کی افغانستان میں موجودگی بہرحال قابض طاقت کی سی تھی‘ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اپنے ساتھ افغانستان میں خرچ کرنے کے لیے کثیر سرمایہ لائے تھے۔ دیکھا جائے تو کیا یہ افغانوں کے لیے بہترین موقع نہیں تھا کہ وہ اپنے ملک کی تعمیرِ نو کرتے؟یہ بالکل ویسی ہی صورتحال قرار دی جاسکتی ہے جو برصغیر میں انگریزوں کے آمد کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ انگریز جب یہاں آئے تو اپنے ساتھ جدید ٹیکنالوجی لے کر آئے تھے۔ اُنہوں نے اِس خطے کو مختلف حوالوں سے جدیدیت سے روشناس کرایا تھا۔ انگریز تو مگر یہاں سے بہت کچھ لوٹ کر بھی لے گئے تھے لیکن امریکااور اُس اتحادیوں نے افغانستان میں کافی زیادہ رقم خرچ کی ۔آج اِس خرچ کی ہوئی رقم کی بہت سی جھلکیاں وہاں سوشل سیکٹر میں ہونے والی ترقی کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ خود افغان حکمرانوں نے اپنے ملک کے ساتھ کیا کیا؟ پوری دنیا کو وہ طالبان کا ہوّا دکھا کر دولت اینٹھتے رہے اور آخر میں اپنے ہی ملک سے فرار ہوگئے اور عوام کو بے یارومدد گار چھوڑ گئے۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اُنہوں نے ملک کو اِس حد تک کھوکھلا کردیا ہے کہ اب اِس کے لیے اپنے پاؤں پر کھڑا رہنا مشکل ہے۔ جب یہ سب کچھ ہوچکا تھا تو پھر طالبان کا راستہ روکنا کیسے کسی کے لیے ممکن ہو سکتا تھا۔
اب آخری امریکی فوجی کی روانگی کے بعد سے افغانستان کم از کم غیرملکی افواج کے تسلط سے آزاد ہوچکا ہے، کابل کی شاہراہوں پر طالبان کے حامی جشن بھی مناتے رہے۔ حالانکہ گزشتہ بیس سالوں کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ اِس دوران دس لاکھ کے قریب افغان اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے اور اب بھی اِس ملک کا مستقبل غیرواضح دکھائی دے رہا ہے۔ آج طالبان امن کے پیغام کے ساتھ دوبارہ ابھر کر آئے ہیں لیکن وہاں عجیب افراتفری مچی ہوئی ہے۔ ہرکوئی اِسی کوشش میں دکھائی دیتا ہے کہ کسی طرح ملک سے باہر نکل جائے۔ یہ صورتحال وہیں پیدا ہوتی ہے جہاں نظام شکستہ ہوچکے ہوتے ہیں۔ جہاں کے عوام کا اپنی حکومتوں پر سے اعتماد اُٹھ چکا ہوتا ہے۔ جنہیں ہر وقت بے یقینی گھیرے رکھتی ہے۔ جہاں کا نظام مظلوموں کو انصاف کی فراہمی میں ناکام ہوچکا ہوتا ہے۔ جہاں طاقتور کمزوروں سے طاقت کی زبان میں ہی بات کرتے ہیں۔ جہاں کے حکمران اپنے ہی عوام کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ جہاں یہ سب کچھ ہوتا ہے تو پھر وہاں افراتفری ہی راج کرتی ہے، بس حالات کی صورتیں بدلتی رہتی ہیں۔ یہی نشانیاں ہوتی ہیں کسی شکستہ نظام کی کہ یہ سب کے حوصلے توڑ دیتا ہے۔ فی الحال تو افغان عوا م کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے اور خود اپنے لیے بھی کہ ہمارا نظام بھی کہیں اُس نہج پر نہ پہنچ جائے کہ ہم خود اپنے لیے بھی لڑنے کی طاقت کھو دیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved