عمومی ذہنیت کا ایک بڑا اور انتہائی نقصان دہ المیہ ہے کہ اِسے کوئی نہ کوئی بے بنیاد امید گھیرے رہتی ہے۔ عمومی ذہنیت اس تصور کو ذہن نشین رکھتی ہے کہ کہیں سے کوئی آئے گا اور ہمارے تمام مسائل حل کرتے ہوئے ہمیں ایک ایسی زندگی کی طرف لے جائے گا جس میں ہر طرف آسانیاں ہی آسانیاں، سہولتیں ہی سہولتیں ہوں گی اور وہ سب کچھ حاصل ہو رہے گا جس کی ہم تمنا کیا کرتے ہیں۔ یہ خالص فلمی تصور ہے کہ کہیں سے کوئی آئے گا اورہمارے تمام مسائل حل کردے گا۔ ہم‘ عمومی سطح پر‘ زندگی بھر اِسی خواہش کے اسیر رہتے ہیں کہ کوئی آکر وہ لڑائی لڑے جو ہمیں لڑنی ہے اور ہمارے تمام دشمنوں اور مخالفین کو پچھاڑ کر ہمارے نصیب کی کھیتی میں ہر طرف آسانیوں کی فصل بودے۔ کہیں سے مدد ملنے کی توقع پروان چڑھاتے وقت ہم یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ کوئی ایسا کیوں کرے گا؟ جو کام ہمارے کرنے کا ہے‘ وہ ہماری طرف سے کوئی اور بھلا کیوں کرے گا؟ کسی کو کیا پڑی ہے کہ ہمارے حصے کی الجھنوں سے نبرد آزما ہو جبکہ ہم ایک طرف بیٹھ کر تماشائی کا کردار ادا کریں؟
حقیقت کی دنیا میں ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ کہیں سے کوئی آکر آپ کے تمام معاملات درست کردے۔ ہاں! حالات ایسا پلٹا کھائیں کہ کسی شعوری کوشش کے بغیر آپ کا بھلا ہوجائے تو اور بات ہے مگر مشکل یہ ہے کہ ایسا بھی شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ کوئی شعوری طور پر ایسی کوئی کوشش نہیں کرسکتا کہ کسی جواز کے بغیر آپ کا بھلا ہو جائے۔ حقیقت کی دنیا میں نجات دہندہ، مسیحا یا ہیرو کم ہی پائے جاتے ہیں اور وہ بھی ایک خاص حد تک۔ یہ اِس قدر منطقی بات ہے کہ اِس کے سمجھنے کے لیے آئن سٹائن ہونا لازم نہیں۔ کسی کی آمد کا منتظر رہنے سے ہمارا کچھ بھی بھلا نہیں ہوتا، ہاں! مسائل ضرور شدت اختیار کر جاتے ہیں۔ ہمارے راستے میں جتنے بھی کانٹے بچھے ہیں یا بچھائے گئے ہیں‘ وہ خود بخود نہیں ہٹیں گے۔ انہیں ہٹانے کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔ کوئی اس کام میں آپ کی مدد تو کرسکتا ہے اور کر بھی دیتا ہے مگر ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ خود تو اپنے لیے کچھ نہ کریں اور کوئی آپ کی مشکلات دور کرنے پر کمربستہ ہو۔ بنیادی کردار تو آپ ہی کو ادا کرنا ہے۔ چٹنی یا رائتہ مفت ملے گا مگر شرط یہ ہے کہ آپ سموسے خریدیں۔ ایسا ہی معاملہ برکت کا بھی ہے۔ جب ہم اپنی زندگی کو مشکلات کے چنگل سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں تب اللہ کی طرف سے ہمیں مدد ملتی ہے۔ اِسی کو برکت کہتے ہیں۔ برکت کا حصول نیت کے اخلاص کے ساتھ کی جانے والی جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ کسی کی طرف سے ملنے والی مدد کا انتظار کرتے رہنے سے کیا ہوتا ہے؟ دوسروں کے آسرے پر زندگی بسر کرنے کا سب سے بھیانک نتیجہ یا پہلو یہ ہے کہ انسان وہ بھی نہیں کرسکتا جو وہ کرسکتا ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں اس بات کا درست اندازہ لگانا ہے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں یعنی اپنے مسائل کے حل کے لیے کہاں تک جاسکتے ہیں۔ اپنی صلاحیت و سکت کا درست ترین اندازہ لگانے کے بعد ہی ہم دوسروں سے مدد کے حصول کی راہ دیکھ سکتے ہیں۔ مسائل کے حل کی بہترین صورت یہ نہیں کہ ہم کسی کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ دوسروں کے انتظار میں بے عملی کا مرقع بنے رہنے سے ہمارے معاملات مزید الجھتے ہیں اور ایسے میں بیزاری کی وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جس میں انسان اپنے حصے کا کام کرنے سے بھی گریزاں رہتا ہے۔
کسی بھی کامیاب انسان کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ وہ اپنے بل پر جینے کی سوچ اپناکر ہی وہ کامیاب ہو پایا۔ اپنے بل پر جینے کا کچھ الگ ہی لطف ہے۔ یہ لطف ہر اُس انسان کے نصیب میں لکھا ہے جو کسی کی طرف سے ملنے والی مدد کا انتظار کیے بغیر اپنے بل پر کچھ نہ کچھ کر گزرنے کے لیے سرگرداں و کوشاں رہتا ہے۔ کامیابی کا اپنا ہی ایک لطف اور نشہ ہے۔ یہ لطف یا نشہ ہر اُس انسان کے لیے جو خود کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرتا ہے اور دن رات کچھ نہ کچھ نتیجہ خیز کرنے کی تگ و دَو میں مصروف رہتا ہے۔ کامیابی تو انسان دوسروں کی مدد سے بھی حاصل کرسکتا ہے مگر اُس میں کچھ زیادہ لطف پوشیدہ نہیں۔ اپنے زورِ بازو سے یقینی بنائی ہوئی کامیابی ہی انسان کو باطنی طور پر مضبوط بناتی ہے، اُس میں اخلاقی بالیدگی پیدا ہوتی ہے اور وہ دنیا کے لیے زیادہ مثبت رویے کے ساتھ متحرک ہونے کی طرف بڑھتا ہے۔ اپنی محنت کے نتیجے کو انسان تادیر سلامت رکھنے پر متوجہ رہتا ہے۔
کم و بیش ہر انسان کو بھرپور زندگی بسر کرنے کے لیے ہر آن یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کیا کرسکتا ہے۔ قدرت نے غیر معمولی صلاحیت بھی دی ہو اور سکت بھی پائی جاتی ہو تو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ایسے میں صرف لگن اور مثبت سوچ ہی درکار ہوتی ہے۔ بھرپور کامیابی کے لیے بنیادی شرط ہے اپنے زورِ بازو پر بھروسا کرنا۔ عمر بھر دوسروں کے آسرے پر جینے والے انتہائی عمومی سطح کی زندگی جیتے ہیں۔ جب کوئی اپنے زورِ بازو پر بھروسا کرتا ہے تب بہت کچھ برداشت کرنے کے لیے تیار بھی رہتا ہے۔ اصلاً یا کلیدی اعتبار سے اپنے بل پر جینے والے تھوڑی بہت ناکامی بھی سہہ لیتے ہیں۔ ناکامی ان کے لیے نئے سِرے سے کچھ کرنے کا حوصلہ دینے کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔ سوال سوچ کا ہے۔ انسان مثبت انداز سے سوچتا ہو، جو کچھ ممکن ہے اُس کے بارے میں محوِ عمل رہتا ہو تو بہت کچھ کرسکتا ہے اور کر گزرتا ہے۔ مفت آئی ہوئی اشیا و خدمات کو انسان زیادہ قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ اگر کسی کی طرف سے کچھ آسانی سے مل گیا ہو تو انسان دل سے قدر نہیں کرتا اور اسے ضائع کر بیٹھتا ہے۔ اپنے زورِ بازو سے کمائی ہوئی ایک ایک پائی انسان سوچ سمجھ کر خرچ کرتا ہے۔
بیسویں صدی کے دوران ہم نے دیکھا کہ بہت سے ممالک بلکہ خطے محض اس لیے برباد ہوئے کہ اُنہوں نے اپنے مسائل حل کرنے کے لیے دوسروں سے ملنے والی امداد کا سہارا لیا۔ امداد کے بل پر جینے والے معاشرے تباہی سے دوچار رہتے ہیں۔ ہر وہ ریاست کمزور ملے گی جو اپنے وسائل، صلاحیت اور سکت پر بھروسا کرنے کے بجائے اِدھر اُدھر سے ملنے والی امداد کو بنیاد بناکر کام کرتی ہو۔ یہ بات بظاہر بالکل سادہ ہے اور کسی خاص کوشش کے بغیر بھی سمجھ میں آجاتی ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ پس ماندہ ممالک کی قیادت اِس نکتے کو سمجھنے سے یا تو قاصر رہتی ہے یا پھر جان بوجھ کر معمولی سے انفرادی ٰیا گروہی مفادات کی خاطر قومی یا علاقائی مفاد کو داؤ پر لگاکر اپنی بربادی کی راہ ہموار کرتی ہے۔
وقت انسان اور معاشروں کو بہت کچھ سکھاتا ہے۔ وقت کی طرف سے سکھایا جانے والا اہم ترین سبق یہ ہے کہ جو کچھ بھی کرنا ہے اپنے طور پر کرنا ہے۔ انگریزی میں کہتے ہیں کہ مفت ظہرانے جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی یعنی اگر کوئی بظاہر کسی جواز کے بغیر مدد کر رہا ہے تو یاد رکھیے کہ جواز ضرور ہوگا مگر آپ کی سمجھ میں نہیں آرہا۔ کسی ٹھوس جواز کے بغیر کوئی کسی کی مدد کے لیے آگے نہیں بڑھتا۔ اجتماعی سطح پر یہ معاملہ اور بھی پیچیدہ ہے کیونکہ کہیں سے ملنے والی امداد کسی نہ کسی مفاد کے تحت ہوتی ہے اور جو کچھ مل رہا ہو اُس کے عوض کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی امداد کے عوض جو کچھ دینا پڑتا ہے وہ کہیں زیادہ ہوتا ہے اور اِس کے نتیجے میں بڑی تباہی وارد ہوتی ہے۔ ہر دور نے انسان کو یہی درس دیا ہے کہ اپنے بل پر جیا جائے، کسی نجات دہندہ کی آمد کا انتظار کیے بغیر اپنے معاملات درست کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ ایسی ہر کوشش حقیقی باطنی مسرت اور روحانی بالیدگی کی راہ ہموار کرتی ہے۔