تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     05-09-2021

وہ چار جو ڈیپورٹ ہوئے

انٹرنیشنل بزنس ٹائمز نے2015ء میں یہ چونکا دینے والی خبر دی تھی کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے چار مشکوک بھارتی باشندوں کو گرفتار کرنے کے بعد کچھ دیر اپنے پاس زیر تفتیش رکھا اور پھر تیسرے ہی دن انہیں بھارت کے حوالے کرنے کیلئے نئی دہلی ڈی پورٹ کر دیا جہاں سے انہیں بھارت کی خفیہ ایجنسی راء کے سیف ہائوس میں لے جایا گیا۔متحدہ عرب امارات حکومت کے گرفتار کئے گئے یہ چاروں بھارتی باشندے داعش کے سینئر اور شام و عراق میں داعش کی مرکزی قیادت سے تعلق رکھتے تھے جن کے متعلق خلیجی ریاستوں کی خفیہ ایجنسیوں کی مشترکہ رپورٹ تھی کہ یہ چاروں بھارتی دہشت گرد خلیجی ممالک کے نوجوانوں کو بھاری معاوضوں پر داعش میں بھرتی ہونے کی ترغیب دینے کیلئے ان کو ورغلاتے رہے ہیں اور اس دوران انہوں نے ان خلیجی ریا ستوں سے درجنوں نوجوانوں کو داعش کے تربیتی کیمپوں میں پہنچانے کا خفیہ مشن بھی انجام دیا ہے۔
انٹر نیشنل بزنس ٹائمز کی یہ رپورٹ کوئی راز نہیں اور نہ ہی بے بنیاد قسم کی ذہنی اختراع ہے کیونکہ انہی دنوں میں جب یہ چاروں افراد داعش کیلئے بھرتی کر رہے تھے تو بھارت کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول ایک انتہائی خفیہ مشن پر عراق اور شام کا دورہ کرنے پہنچ گئے۔ یہ وہی دن تھے جب یہ چاروں مشتبہ افراد‘ جن کا داعش سے تعلق امارات اور دوسری خلیجی ریاستیں ثابت کر چکی ہیں کہ وہ بھی عراق میں موجود تھے۔اب دنیا بھر کے علا وہ اقوام متحدہ کے سامنے بھی یہ سوال رکھا جا رہا ہے کہ جن چار افراد کو دبئی سے بھارت ڈی پورٹ کیا گیا وہ اب کہاں ہیں؟ کیا ان کو بھارت کی کسی عدالت سے سزا دی گئی ؟ اگر سزا سنائی گئی ہے تو وہ کون سی سزا ہے اور یہ کس جیل میں قید رکھے گئے ؟اگر انہیں سزائے موت دی گئی تھی تو ا نہیں بھارت کی کس جیل میں پھانسی دی گئی ان کی قبریں کہاں ہیں اور اس پھانسیوں سے متعلق جیل اور انتظامیہ کے پاس موجودریکارڈ کہاں ہے؟ اگر انہیں صرف سزائے قید دی گئی ہے تو یہ کس جیل میں ہیں کیونکہ اس واقعہ کو ابھی صرف چھ سال ہی ہوئے ہیں اس لئے یہ بہانہ تو کیا ہی نہیں جا سکتا کہ ریکارڈ پرانا ہونے کی وجہ سے ضائع کر دیا گیا ہو گا۔
بھارت نے ہر ملک میں دہشت گردی کو اپنا حق سمجھ رکھا ہے اور چونکہ وہ امریکہ سمیت مغرب اور ان کے گھر دلارے ا سرائیل کا انتہائی کارخاص ہے اس لئے وہاں مذہبی آزادیاں کچلی جائیں تو چند روز شور مچانے کے بعد پھر سے اسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے القاب اور اعزاز سے نوازا جانے لگتا ہے حالانکہ آج کی دنیا میں جہاں دہشت گردی اقوام عالم کیلئے سب سے بڑا اور وحشت ناک مسئلہ بن کر کھڑی ہو ئی ہے کسی بھی ایس ریا ست کا یا کسی بھی ایسی تنظیم کا جس کے متعلق ذرا سا بھی شبہ ہو کہ وہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے یااس کا معمولی سا بھی حصہ ہے اس پر پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں۔ پاکستان میں تو بعض رفاہی تنظیمیں بھی ان پابندیوں کی زد میں لائی گئی ہیں لیکن دوسری جانب بھارت اور آر ایس ایس کا ریکارڈ دنیا بھرکے سامنے ہے کہ بھارت کی حکمران جماعت آر ایس ایس کے صدر بگھوت نے کھلے عام اعلان کر رکھا ہے کہ وہ لوگ جو انہیں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے طعنے دیتے ہیں ‘وہ لوگ جو ان کی مقبولیت میں کمی کے دعوے کر رہے ہیں اور وہ لوگ جو ان کے مشن اور منشور پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں ان پر اپنی سچائی اور مقبولیت ثابت کرنے کیلئے وہ پستول نیلام کرنے جا رہے ہیں جس سے گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو قتل کیا تھا تو اس کی نیلامی میں حصہ لینے والوں کی تعداد اور اس کی دی جانے والی بولی کی قیمت سے ہی اندازہ ہو جائے گا کہ بھارتی عوام آر ایس ایس کی سوچ اور بھارت میں صرف ہندو دھرم کے منشور سے کس قدر محبت اور اتفاق کرتے ہیں۔
26 برس کے طویل عرصے تک سری لنکا میں بھارت نے اپنے تیار کئے گئے دہشت گردوں کے ذریعے اُس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجاتے ہوئے پورے ملک میں جو اودھم مچائے رکھا اس نے چند سو نہیں بلکہ ہزاروں افراد کی زندگیوں کواپنے عفریت کی بھینٹ چڑھا یا۔ایل ٹی ٹی ای کو اسلحہ‘ پیسے اور افرادی قوت کے ذریعے جس طرح انڈین ایجنسیوں اور فوج نے سپورٹ کیا وہ اب کھلی کتا ب کی طرح دنیا بھر کے سامنے ہے‘ لیکن اس سب کے با وجود بے شرمی اور ڈھیٹ پن سے کھڑا ہوا بھارت سب کا منہ چڑا رہا ہے۔ یہ کوئی بھولی بسری کہانی نہیں بلکہ ابھی کل کی بات ہے جب سری لنکا بھارتی خفیہ ایجنسی راء کی دہشت گردی سے آئے روز خود کش حملوں اور بم دھماکوں سے آگ اور خون میں نہلایا جا رہا تھا۔ مالدیپ کے اندر تمام سفارتی حدود کو پار کرتے ہوئے جس طرح اس کے جمہوری نظام میں دخل اندازی کی گئی‘ جس طرح اس کی اندرونی سیا ست کو اپنی دولت اور ہتھیاروں کے دامن میں پناہ دیتے ہوئے براہ راست مداخلت کی گئی اس سے مالدیپ کی خود مختاری برائے نام ہی رہ گئی تھی لیکن جب یہ کھیل کھیلا جا رہا تھا‘ جب مالدیپ کی جمہوریت کا بیڑا غرق کیا جا رہا تھا تو اس وقت کسی بھی انسانی حقوق کی تنظیم ‘ جمہوریت پسند اور شہری آزادی کے نعرہ باز وں نے اس سے باز پرس نہیں کی ‘کسی نے اس پر پابندیاں لگانے کی دھمکی تو دور کی بات ہے ذرا سا سوچنا بھی گوارا نہ کیا۔جب نیپال نے اپنی خود مختاری اور آزادی کا احترام کرنے کیلئے اپنے آئین میں تبدیلی کرنے کا عزم کیا تو بھارت نے اسے روکنے اور سزا دینے کیلئے نیپال میں ادویات بھیجنا روک دیں۔ یہ ایک طر ح سے انسانیت کا قتل عام تھا کیونکہ نیپال میں قائم ہونے والی ہر حکومت کا اپنے ہسپتالوں اور صحت کے شعبے کیلئے تمام مشینوں اور دوسرے آلات کے علا وہ ادویات کا تمام دارو مدار بھی ہمیشہ سے ہی بھارت پر چلاآ رہاتھا۔
حامد کرزئی سے اشرف غنی تک سبھی نے بھارت کی گود میں بیٹھ کر جس طرح بیس برسوں سے اپنے تیار کئے گئے دہشت گردوں اور افغانستان کی فوج سے بھیجے گئے کمانڈوزکوکبھی بی ایل اے تو کبھی تحریک طالبان پاکستان کا نام دے کر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قتل و غارت کا بازار گرم کئے رکھا وہ دنیا سے چھپا ہوا نہیں۔ امریکہ کے سابق وزیر دفاع چک ہیگل کا امریکی یونیورسٹی کے ایک سیمینار میں طلبا کے ایک گروپ سے سوال و جواب کاسیشن اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے جس میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہـ بھارت افغانستان کی سر زمین اور وسائل کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال میں لا رہا ہے۔افغانستان میں بھارت نے ایک درجن کے قریب قونصلیٹ جنرل قائم کئے جن کی کرزئی ٹولے نے با قاعدہ اجازت دے رکھی تھی ۔ کسی بھی ملک میں قونصل خانوں کی یہ تعداد ایک ریکارڈ تھی جس پر ہر کوئی حیران بھی تھا‘ اور یہ قونصل خانے کس مقصد کے لیے تھے یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اب اگر کوئی یہ کہے یا واویلا مچائے کہ طالبان کی حکومت آنے سے پاکستان کا اثر و رسوخ بڑھے گا تو اس وقت یہ سوچ اور چیخ و پکار کیوں نہ کی گئی اُس وقت یہ تبصرے اور تجزیے کیوں نہ کئے گئے جب سفارت کاروں کا نام دے کر بھارت کی خفیہ ایجنسیوں اور جاسوسوں کے گروہ لا کر بٹھا دیے گئے۔
سی آئی اے‘ ایم آئی سکس سمیت کون سی قابل ذکر خفیہ ایجنسی بے خبر ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر اور افغانستان میں داعش کی فرنچائز قائم کر رکھی ہیں ۔ داعش کے نام پر اس کا یہ عفریت نہ جانے کیا تباہی لاتا کہ وہ تو بھلا ہو ترکی اور روس کا کہ انہوں نے داعش کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی اور عراق و شام میں اس عفریت کا بڑی حد تک خاتمہ کر دیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved