دنیا عجیب موڑ پر کھڑی ہے۔ جو کچھ سوچا جاتا رہا ہے وہ حاصل ہوچکا ہے مگر پھر کمی کا احساس ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ قدم قدم پر یہ احساس ستا رہا ہے کہ بہت کچھ پا تو لیا ہے مگر پایا کچھ بھی نہیں ہے ؎
یہ کیا ہے کہ سب کچھ ہے مگر کچھ بھی نہیں ہے
پہلے تو کبھی جی کو یہ آزار نہیں تھے
سیاست و سفارت نے معیشت کے ساتھ مل کر ہر دور میں خرابیاں ہی خرابیاں پیدا کی ہیں اور آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ چند طاقتور ممالک مل کر دنیا کو اپنی مٹھی میں بند کیے ہوئے ہیں۔ چند انتہائی ترقی یافتہ ممالک نے عسکری قوت کو کرنسی بناکر باقی تمام سِکّے ایک طرف رکھ دیے ہیں۔ ہر معاملہ ''سخت طاقت‘‘ سے شروع ہوکر اُسی پر ختم ہو رہا ہے یعنی ہر بڑی قوت یہ سمجھتی ہے کہ معاملات کو اگر درست کیا جاسکتا ہے توصرف عسکری قوت سے۔ یہ سوچ جنگوں کے سلسلے کو یوں جاری رکھے ہوئے ہے کہ اصلاحِ احوال کی کوئی حقیقی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ بڑی طاقتوں نے اپنے لیے غیر معمولی مادی ترقی ممکن بناکر باقی دنیا کو کچرے کے ڈھیر میں بدل رکھا ہے۔ کمزور ریاستوں اور خطوں کی قبور پر اپنا تاج محل کھڑا کرنے کی قبیح روایت آج بھی عمل پذیر ہے۔ اس کا خمیازہ کبھی کبھی خود'' تاج محل‘‘ بنانے والوں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے مگر پھر بھی وہ کوئی سبق نہیں سیکھتے اور غلطیاں دہراتے جاتے ہیں۔
کئی عشروں سے معاملہ یہ ہے کہ امریکا اور یورپ نے مل کر باقی دنیا کو شدید الجھنوں سے دوچار کر رکھا ہے۔ اُن کے اپنے آنگن میں خرابیاں پنپ رہی ہیں مگر اُن خرابیوں کو دور کرنے کے بجائے وہ دوسروں کے ہاں مزید خرابیاں پیدا کرنے کو کافی سمجھ رہے ہیں اور اُن کی دانست میں ایسا کرنے سے اپنے مسائل بھی حل ہوجائیں گے۔ امریکا اور یورپ کے پالیسی میکرز نے کم و بیش سات عشروں کے دوران دنیا کو عذابوں سے دوچار کر رکھا ہے۔ فطری علوم و فنون میں فقید المثال پیش رفت اور جنگی ساز و سامان کی ٹیکنالوجیز میں حیرت انگیز کامیابی نے مغرب کے پالیسی میکرز کو یہ باور کرادیا ہے کہ اب باقی دنیا کا یہی مقدر ہے کہ اُسے دبوچ کر رکھا جائے‘ بلکہ بعض معاملات میں تو اُنہیں جینے کے حق سے بھی محروم کردیا جائے۔ افریقہ اس کی شرم ناک ترین مثال ہے۔ ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی والے پورے برِاعظم کو مجموعی طور پر عضوِ معطّل بناکر رکھ دیا گیا ہے۔ عالمی سیاست و معیشت میں اس برِاعظم کا کردار نہیں۔ اس حوالے سے آواز اٹھانا تو دور کا معاملہ رہا‘ سوچا بھی نہیں جارہا۔
ایک بڑا المیہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں ادارے ریاستی عملداری پر بھی برتری کے حامل ہوچکے ہیں۔ ان بڑے صنعتی‘ تجارتی اور مالیاتی اداروں کے اشاروں پر حکومتیں بنتی اور گرتی ہیں۔ حکمراں طبقوں نے ان انتہائی طاقتور کاروباری اداروں کے ساتھ مل کر ایک ایسا سیاسی و معاشی ڈھانچا تیار کیا ہے جس میں پوری دنیا کی دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوکر رہ گئی ہے۔ دنیا بھر میں اربوں انسان اس سیاسی و معاشی ڈھانچے کا پیدا کردہ عذاب افلاس‘ جہالت‘ بیماریوں اور معاشرتی پیچیدگیوں کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔
قومی مفادات کا راگ الاپ کر کیے جانے والے اقدامات نے پوری دنیا کو شدید الجھن اور پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے۔ فوج‘ سیاست اور صنعت تینوں نے مل کر عجیب شکل اختیار کرلی ہے۔ امریکا کے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کا یہی المیہ ہے۔ یہ معاشی ڈھانچہ جنگوں کے سلسلے کو رکنے ہی نہیں دے رہا۔ جنگی ساز و سامان کی تیاری سے وابستہ صنعتوں کی بقا اس میں ہے کہ جنگیں جاری رہیں‘ خانہ جنگیاں ہوتی رہیں۔ امریکی پالیسی میکرز اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ دنیا بھر میں جنگیں اور خانہ جنگیاں ہوتی رہیں‘ لوگ مرتے رہیں‘ پس ماندہ اور ترقی پذیر ریاستیں ایک دوسرے سے خوف کھاتی رہیں‘ جدید ترین ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ جاری رہے۔ یہ تماشا کم و بیش سات عشروں سے جاری ہے۔ کبھی یہ سمجھا جارہا تھا کہ سرد جنگ ختم ہونے پر یہ سب کچھ ختم ہوجائے گا مگر ایسا ہوا نہیں۔
جنگوں کے نتیجے میں کئی خطے یوں تاراج ہوئے ہیں کہ اب اُن کا اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا ہونا محض دیوانے کا خواب معلوم ہوتا ہے۔ جنگوں اور خانہ جنگیوں نے درجنوں ممالک میں افلاس کا گراف تباہ کن حد تک بلند کردیا ہے۔ بنیادی سہولتوں کا فقدان شرم ناک حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ تعلیم و صحتِ عامہ کے شعبوں میں ہونے والے نقصان سے معاشرے تباہ ہوچکے ہیں۔ یہ انسانیت سوز نقصان ہے۔ طاقتور ممالک ہر معاملے میں صرف اپنا بھلا سوچ رہے ہیں۔ یہ ممالک تعلیم یافتہ‘ باشعور‘ بالغ نظر‘ باضمیر اور مہذب ہونے کے دعوے کرتے نہیں تھکتے مگر حقیقت یہ ہے کہ اِنہیں صرف اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے سے غرض ہے۔ باقی دنیا اگر خاک میں ملتی ہے تو اِن کی بلا سے‘ انسانیت تباہی سے دوچار ہوتی ہے تو ہوتی رہے۔
ایک زمانے سے یہ سوچا جارہا تھا کہ جب انسان بہت ترقی کرلے گا‘ تمام ضروری چیزیں ایجاد یا دریافت کرلی جائیں گی اور تمام ضروری خدمات کی فراہمی ممکن بنائی جاچکی ہو گی تب یہ دنیا واقعی جنت کا نمونہ بن جائے گی۔ اب تک تو ایسا نہیں ہوا اور مستقبلِ قریب میں بھی ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اور ایسا ہو بھی کیسے؟ ایک طرف بڑی طاقتیں ہیں جو کمزور ممالک اور پس ماندہ خطوں کا بھلا نہیں چاہتیں اور دوسری طرف پس ماندہ دنیا بھی اپنے لیے سنجیدہ نہیں۔ جن کے پاس طاقت ہے اُن سے صرف امید کی جاسکتی ہے کہ وہ کسی کا بھلا سوچیں‘ مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ پس ماندہ خطوں کو اپنا مقدر بدلنے کے لیے خود ہی کچھ کرنا پڑے گا۔
اس دنیا کی ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ سب کے مفادات آپس میں جُڑے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی انسان‘ ملک‘ معاشرہ یا خطہ کسی بھی اعتبار سے جزیرہ نہیں۔ سب سمندر ہیں یعنی حتمی تجزیے میں سب ایک دوسرے سے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے ہیں۔ یہ بات بڑی طاقتوں کے پالیسی میکرز کے سمجھنے کی ہے کہ دوسروں کو برباد کرنے کی روش بالآخر انہیں بھی بربادی ہی سے دوچار کرے گی۔ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا کو مستحکم کیا جائے۔ کمزور خطوں کا ہاتھ تھاما جائے‘ انہیں ترقی کی دوڑ میں شامل کیا جائے۔ اور اگر ایسا ممکن ہو تب بھی کم از کم ڈھنگ سے جینا تو ممکن بنایا ہی جائے۔ ناتوانوں کو حالات کی چَکّی میں پیستے رہنے کی حد ہوچکی ہے۔ یہ سلسلہ اب رکنا چاہیے۔ عالمی اداروں کی تشکیلِ نو لازم ہے تاکہ کمزور خطوں کو کچھ ملے اور وہ بھی ڈھنگ سے جینے کے قابل ہوسکیں۔ ترقی یافتہ ممالک نے بہت کچھ پالیا ہے مگر پھر بھی اُن کی ہوس ختم نہیں ہوئی۔ وہ بادی النظر میں چاہتے ہیں کہ کسی اور کو ڈھنگ سے جینے کا موقع نہ ملے۔ پس ماندہ ممالک کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں ترقی یافتہ دنیا جو کردار ادا کرسکتی ہے وہ اُس نے اب تک ادا نہیں کیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ترقی یافتہ دنیا باقی دنیا کا بھلا بھی سوچے۔ کمزوروں کو دبوچے رکھنے پر اُنہیں بھی ساتھ ملاکر چلنے کے رجحان کو ترجیح دی جائے۔
عالمی سیاست و معیشت کا پیراڈائم تبدیل ہونا چاہیے۔ عسکری قوت پر مکمل مدار کب تک؟ لازم ہے کہ اب نرم قوت کو بھی موقع دیا جائے۔ اس معاملے میں چین نے ایک اچھا ماڈل پیش کیا ہے۔ روس بھی اگر مکمل طور پر نہ سہی تو بہت حد تک اسی نوعیت کا پیراڈائم لے کر چل رہا ہے۔ کئی ممالک ہیں جنہوں نے عسکری مہم جوئی کو یکسر ترک کرکے علم و فن اور صنعت و تجارت پر توجہ دی ہے۔ چین کے علاوہ انڈونیشیا‘ ملائیشیا‘ ترکی اوریورپ کے کئی ممالک اس کی روشن مثال ہیں۔ دنیا کو جنگ و جدل نہیں‘ اشتراکِ عمل کی ضرورت ہے۔ ''اتحادی‘‘ اور ''محوری‘‘ کی اصطلاحات سے ہٹ کر ''پارٹنرز‘‘ کی اصطلاح کو مقبولیت سے ہم کنار کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی مفادات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی اور کے مفاد کو یکسر نظر انداز کردیا جائے یا اُس کی تباہی کی زمین پر اپنا ''تاج محل‘‘ تعمیر کیا جائے۔ دنیا کو زیادہ سے زیادہ اشتراکِ عمل کی ضرورت ہے۔ ہزاروں سال کی دانش نے اگر آج کے انسان کو اِتنا بھی نہیں سُدھارا تو پھر اِس انسان کی ''عظمت‘‘ کو سلام ہے۔