تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     06-09-2021

سب کی باری آئے گی!

یوں لگتا ہے گورننس کے کنوئیں میں نااہلی اور مفادات کا کتا گر گیا ہے۔ اس کنوئیں سے چند نمائشی بوکے نکالنے سے اب ہرگز کام نہیں چلے گا۔ جب تک یہ کتا نہیں نکالا جائے گا نہ کنواں صاف ہو گا اور نہ ہی مثالی گورننس کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکے گا۔ تین سالہ عرصۂ اقتدار میں حکومت نے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں ریفارمز کے نام پر جو ریکارڈ انتظامی تجربات کر ڈالے وہ سبھی ڈیفارمز کے ڈھیر بنتے چلے جارہے ہیں۔ غضب خدا کا‘ 36 مہینوں میں ساتواں آئی جی اور پانچواں چیف سیکرٹری لگانے کیلئے نمائشی پینل بن چکے ہیں جبکہ نظر انتخاب جنہیں قبول کر چکی ہے وہ ملاقاتیں اور میٹنگز کرنے کے بعد چین کی بانسری بجارہے ہیں۔
واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ قرعہ کس کے نام کا نکلے گا اور کسے گرین سگنل دے دیا گیا ہے۔ باقی کی کارروائی تو محض کارروائی ہی ہے‘ پینلز میں شامل سمجھ دار افسران لاحاصل دوڑ میں شامل ہونے کے بجائے اسی پر مطمئن اور قانع ہیں کہ ان کا نام صوبائی سربراہ کے طور پر زیر غور تو آیا۔ آج نہیں تو کل ان کے نام کا قرعہ بھی نکل سکتا ہے کیونکہ جس رفتار سے حکومت افسران تبدیل کر رہی ہے عرصۂ اقتدار کی بقیہ مدت پوری ہونے تک ایک ایک کر کے سبھی افسران کی باری یقینی طور پر آتی دکھائی دیتی ہے بلکہ اگلے چوبیس مہینے پورے ہونے تک افسران کم پڑتے دکھائی دیتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ اقتدار کی مدت باقی رہ جائے اور افسران ڈھونڈے سے نہ ملیں۔ اس صورت حال کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ پوری ٹیم آؤٹ ہو چکی ہو اور کافی اَوور باقی رہ جائیں۔
حکمران کوئی مسیحا نہیں ہوتا جو مُردوں کو زندہ کر دے اور نہ ہی اس کے پاس کوئی معجزہ ہوتا ہے۔ اس کا کرشمہ اس کی مردم شناسی‘ فیصلہ سازی‘ وژن اور گورننس ہوتی ہے۔ مُردوں کو بھلے زندہ نہ کر سکے لیکن اس کی گورننس اور فیصلوں کی وجہ سے نہ کوئی ناحق مرے اور نہ ہی کسی کو جیتے جی زندہ درگور ہونا پڑے۔ ہلاکت سے بچانا ہی مسیحائی ہے۔ بدقسمتی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے سبھی مردم شناسی اور گورننس جیسی بنیادی خصوصیات سے نہ صرف عاری پائے گئے ہیں بلکہ انہی خصوصیات کے برعکس اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر ڈٹے دکھائی دیتے ہیں کہ ان سے بڑا کوئی عقل کُل نہیں۔
طرزِ حکمرانی کیسے کیسے رنگ بدل رہی ہے کہ عوام کا رنگ بھی کہیں پیلا اور تو کہیں نیلا ہوتا چلا جارہا ہے۔ کہیں مہنگائی کا جن دھمال ڈالے چلا جارہا ہے تو کہیں قیمتوں کا دہکتا ہوا الاؤ عوام کی قوت خرید کو زندہ جلا رہا ہے۔ ہر طرف چیخ و پکار اور افراتفری کا عالم ہے۔ کیک پیسٹری تو درکنار دو وقت کی روٹی کا حصول بھی محال ہو کر رہ گیا ہے۔ بنیادی اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو لگی آگ خوفناک منظر پیش کر رہی ہے۔ ہسپتالوں میں آپریشن بند ہونے سے عوام پریشان اور زندگی کی طلب میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ کوئی سود پر قرضہ لے کر پرائیویٹ علاج کروا رہا ہے تو کوئی گھر کا زیور بیچ کر‘ کوئی خود کو گروی رکھ رہا ہے تو کوئی عزتِ نفس پر سمجھوتہ کیے ہوئے ہے۔ جس طرزِ حکمرانی میں ہسپتالوں میں شفا نہ ہو‘ تھانوں میں داد رسی نہ ہو‘ جان و مال محفوظ نہ ہو اور بنیادی ضروریات کی چادر سر سے پاؤں تک چھوٹی پڑ جائے‘ یوٹیلٹی بلز دیکھ کر غشی کے دورے پڑنے لگیں‘ بچوں کی اچھی تعلیم حسرت بن کر رہ جائے‘ اقتصادی اصلاحات ٹھنڈے چولہے گرم کرنے سے قاصر ہوں اس حشر کے سماں میں وزیر اعظم کا عوام کو یہ خوشخبری سنانا کہ ان کا وزیر اعلیٰ مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے یقینا ایسے ہی ہے کہ سوگ والے گھر کے باہر شادیانے بجائے جائیں۔ وزیر اعلیٰ صاحب بھی حیران ہوتے ہوں گے اور تنہائی میں بیٹھے شاید یہ سوچتے ہوں گے کہ آخر وہ کون سی کارکردگی ہے کہ ہر دورے پر وزیر اعظم جس کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں۔
سنسکرت زبان میں تین ضدیں بڑی مشہور ہیں جو آج نہ جانے کیوں بے اختیار یاد آ گئیں۔ یہ ضدیں کچھ یوں ہیں: بالک ہٹ‘ تریا ہٹ اور راج ہٹ۔ ان کا مطلب بھی بتاتا چلوں: بالک ہٹ (بچے کی ضد)‘ تریا ہٹ (عورت کی ضد) اور راج ہٹ (حکمران کی ضد)۔ ہمارے ہاں سیاست اور ریاست میں یہ ساری ضدیں ہی کثرت سے دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اکثر فیصلہ ساز اور اربابِ اختیار بچے کی طرح ضد لگا بیٹھتے ہیں‘ جس پر سننے اور دیکھنے والا بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے کہ یہ کیا بچوں والی ضد لگا رکھی ہے‘ گویا اس ضد کے نتیجے میں ہونے والے فیصلے اور اقدامات طفلانہ حرکات سے کم نہیں ہوتے۔ دنیا بھر میں ماضی سے لے کر دورِ حاضر تک‘ خواب سے تعبیر تک‘ خیال سے تکمیل تک‘ ذاتی خواہشات سے من مانی تک‘ رائے اور مشورے سے دوٹوک فیصلوں تک تریا ہٹ کے بے شمار واقعات کوئے سیاست سے ایوانِ اقتدار تک اپنی اہمیت ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں۔ ان واقعات کی تفصیل میں جانے سے احتیاط زیادہ بہتر ہے اور رہی بات راج ہٹ کی اس کا تو کوئی انت ہی نہیں۔
انتظامی افسران اور وزارتوں کی پے در پے تبدیلیوں کے باوجود اگر نتائج اور اہداف راہوں میں بھٹکتے دکھائی دیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ خرابی کہیں اور ہے۔ اس تشویشناک صورتحال میں بھی عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے حکمران ستائشِ باہمی کرتے نظر آئیں تو عوام کہاں جائیں؟ کارکردگی کی رائی کا پہاڑ بنانے کا فن بھی بس یہی جانتے ہیں۔ گورننس اور میرٹ پر ان کے انقلابی بھاشن سنتے سنتے عوام کے تو کان بہنے لگے ہیں‘ لیکن حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ایسے میں راحتؔ اندوری کا یہ شعر حسبِ حال معلوم ہوتا ہے:
جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا ہے سچ بولو
سرکاری اعلان ہوا ہے سچ بولو
چلتے چلتے خاصے کی ایک اور بات بتاتا چلوں کہ نئے آئی جی پنجاب کے لیے جن افسران کے نام گردش کر رہے ہیں ان میں ایک افسر کے نام قرعہ نکلنے کا امکان اس لیے مشکل اور تقریباً ناممکن نظر آتا ہے کہ وہ میرٹ پر پورا اُترنے کے ساتھ ساتھ مطلوبہ تجربے اور ویژن کے بھی حامل ہیں۔ صوبائی دارالحکومت سمیت سنٹرل پولیس آفس میں بھی اہم ذمہ داریاں نبھانے کے علاوہ آئی جی موٹروے اور آئی جی اسلام آباد جیسے عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ ان کا ایک ''ڈی میرٹ‘‘ یہ بھی ہے کہ بے پناہ فیلڈ تجربات کے علاوہ پولیسنگ اور پالیسی میں بھی کمال مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی سبھی کوالی فکیشنز ہی ان کی ''ڈی کوالی فکیشن‘‘ بنا دی جائیں گی کیونکہ اس سرکار میں فیصلہ سازی سے منسوب اکثر چیمپئنز میرٹ کی ضد اور گورننس کی نفی بنے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں رائٹ مین فار رائٹ جاب جیسی تھیوری بھی انہوں نے اُلٹا کر رکھ دی ہے؛ تاہم آئندہ چند روز میں پنجاب کے نئے آئی جی اور نئے چیف سیکرٹری اپنے اپنے قلم دان تو سنبھال لیں گے لیکن یہ قلم دان کب تک ان کے پاس رہیں گے اس کا فیصلہ وہی چیمپئنز کریں گے جو گزشتہ تین سالوں میں پنجاب کے لیے موزوں آئی جی اور چیف سیکرٹری کی تلاش میں بارہ اعلیٰ افسران کو نالائقی اور ناکامی کا میڈل دے چکے ہیں۔ لگتا ہے میڈلز دینے کا یہ سلسلہ اقتدار کے آخری دن تک اسی طرح جاری رہے گا اور افسران آتے جاتے رہیں گے۔ بالآخر افسران ختم ہو جائیں گے اور یہ چیمپئنز خوردبینیں لے کر افسر تلاش کرتے نظر آئیں گے۔ وزیراعظم صاحب خود جن افسران کی تقرری کو بہترین انتخاب قرار دیتے رہے ہیں‘ ان میں سے کسی کو کام کرنے نہیں دیا گیا اور جسے کام کرنے کا موقع دیا گیا وہ نظر انتخاب کیلئے سوالیہ نشان بن کر شرمندگی اور جگ ہنسائی کا باعث بنتا رہا۔ سبکی اور جگ ہنسائی کا یہ سفر ابھی جاری ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved