تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     06-09-2021

پھر ایک 6 ستمبر کا سامنا ہے

قوموں اور ملکوں کی زندگیوں میں بعض ایسے ایام بھی آتے ہیں جو ان کی شناخت بن کر فخر و مبا حات کی علامت بن جاتے ہیں۔ 1965ء کا 6ستمبر پاکستانی قوم کیلئے ایک ایسا ہی دن ہے جو ہمیں ہر سال یہ یاد دلاتا رہتا ہے کہ ہمارے مقابل پر ایک ایسا دشمن ہے جو اس پاک سرزمین کے وجود اور اس کی جداگانہ شنا خت سے خائف ہے اور اس کو اپنے اندر جذب اور ضم کرنے کیلئے ماہیِ بے آب کی طرح ہر آن تڑپ رہا ہے۔ 6 ستمبر کی صبح پاکستانی قوم نے خود کو دریافت کیا تھا۔ اس ایک دن نے دلوں کو مرکزِ مہرو وفا بنا دیا‘ بھٹکے ہوئوں کو حرم کا راستہ دکھایا ۔56 سال قبل پیش آنے والے اس معرکۂ حق و باطل کو چند گھنٹوں کیلئے یا چند لمحوں کیلئے ہی سہی‘ کہیں سرکاری اور کہیں رسمی طور پر منا کر اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت کے غضب کے شکار کشمیر یوں، لائن آف کنٹرول کے اطراف کی وادیوں، بولان اور وزیرستان کے پہاڑوں اور ندیوں کی تند و تیز لہروں کے مقابل بڑھتے ہوئے وطن کے اُن شہیدوں سے‘ جنہوں نے ہمارے کل کے لیے اپنا آج قربان کر دیا تھا‘ عہدِ وفا نبھا دیا ہے تو یہ یقینا ہم سب کی بھول ہے۔ وہ مائوںکے لعل جو اس معرکے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے‘ وہ جو سمندر کی گہرائیوںکی نذر ہو گئے اور ہوائوں کے وہ مسافر‘جو دشمن کی سر زمین پر ایسے گئے کہ کبھی واپس نہ آسکے‘ ان میں سے کسی ایک کے ماں باپ سے یا ان شہیدوں کی بیوائوں سے جا کر پوچھئے کہ6 ستمبر کیا ہے‘ وطن کی عظمت کیا ہے؟ کیا کسی نے کبھی وطن عزیز پاکستان سے‘ اس دھرتی ماںسے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ6 ستمبر سے پہلے اور اس کے بعد سے اب تک‘ تمہارے کتنے بچے شہید ہو کر تجھ سے ہمیشہ کیلئے جدا ہو چکے ہیں؟ تمہارے کتنے بچوں کے سر کاٹ کر انہیں بے دردی سے ٹھوکریں ماری گئیں؟ ہم میں سے کتنے ہیں جنہیں کیپٹن راجہ محمد سرور، میجر محمد طفیل، میجر راجہ عزیز بھٹی، راشد منہاس، میجر شبیر شریف، سوار محمد حسین،میجر محمد اکرم ،لانس نائیک محمد محفوظ، کیپٹن کرنل شیر خان، حوالدار لالک جان یا نائیک سیف علی جنجوعہ کے بارے میں علم ہے۔ کتنے ہیں جنہیں بریگیڈیئرشامی، کیپٹن علی، کیپٹن جواد چیمہ، کرنل ہارون الاسلام، کرنل افتخار، بریگیڈیئر معین، میجر ذکا ، میجر صابر ، کیپٹن قدیر،کیپٹن اسفند یار، سپاہی آصف اور اقبال شہید سمیت ان ہزاروں شہداء کے ماں باپ، بیوائوں، بچوں اور بہن بھائیوں کے دکھ کا احساس ہے جو دورانِ ڈیوٹی کبھی سرحد پار سے ہونے والی گولہ باری کا نشانہ بن گئے تو کبھی کسی چوکی حملے میں وطن کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ کیا ہمیں پاکستان بھرکی مارکیٹوں، سڑکوں ، سکولوں اور چوراہوں میں خود کش بم حملوں میں شہید ہونے والوں کی مائوں کی اجڑی ہوئی کوکھ کا احساس ہے ؟ آج بھی جب کسی بم دھماکے میں‘ کسی شب خون میں‘ کسی بارودی سرنگ کے پھٹنے کی خبر ملتی ہے تو ہر وہ ماں اپنا کلیجہ پکڑ کر بیٹھ جاتی ہے جس کا لعل اس لمحے اس کے سامنے نہیں ہوتا‘ جو اس سے دور وطن کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دے رہا ہوتا ہے، چاہے وہ کسی آپریشن میں حصہ لے رہا ہو‘ چاہے کسی چوکی یا پوسٹ پر مستعد کھڑا ہو، وہ مائیں بھی‘ جن کے بچے خواہ کسی جگہ دکانداری کر رہے ہوں‘ کسی بس میں سفر کر رہے ہوں‘ پیدل ہی کسی سڑک سے گزر رہے ہوں‘ سکول‘ کالج آنے‘ جانے کیلئے پک اپ یا بس میں سفر کر رہے ہوں‘ ایسی کسی بھی خبر پر دونوں ہاتھ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھنے لگتی ہیں۔
16 دسمبر2014ء کا بدنصیب دن‘ جب آرمی پبلک سکول میںعلم کے حصول کیلئے گئے ہوئے پھولوں کو نہایت سفاکی سے مسل دیا گیا تھا‘ سینکڑوں مائوں کی گودیں 6ستمبر 1965ء کو ہمیں تاراج کرنے کا ارادہ لیے ہوئے ناپاک دشمن نے اپنے خریدے گئے ایمان فروشوں کے ہاتھوں اجاڑ دی گئیں۔ ابھی جب یہ مضمون لکھ رہا تھا تو خبر ملی کہ ایسے ہی کچھ ایمان فروشوں نے کوئٹہ مستونگ روڈ پر خود کش حملے میں ایف سی کی گاڑی کو نشانہ بناتے ہوئے وطن کے چار پاسبانوں کو شہید اوربیس افراد کو زخمی کر دیا ہے۔ خدا اور اس کے رسولﷺ کے منکر کافروں نے کروڑوں ڈالروں کے عوض خریدے ہوئے چند ہزار ایجنٹوں کے ذریعے ہر سڑک‘ ہر سکول‘ ہر بازار کو مقتل بنا دیا ہے ۔ جب بھی زمین کے لہو رنگ ہونے‘ کسی پاکستانی کے شہید ہونے کی کوئی خبر ٹی وی کی سکرینوں پر چلتی ہے تو گھروں میں بیٹھے ماں باپ، سہاگنیں اور معصوم بچے تڑپنے لگتے ہیں۔ 6 ستمبر کو وطن عزیز پاکستان پر شب خون مارنے والے اور پاک سرزمین کو نگوں کرنے کا جشن منانے کی دھن سجانے والا یہ ازلی دشمن ہمارے اپنے ہی بھائیوں کو ڈالروں کی کشش سے ہمارا دشمن بنا کر ہر ماں کا سکون چھین رہا ہے ۔ 6 ستمبر 1965ء کے بعد اپنی فتح کاجشن مناتے ہوئے ہم سب مد ہوش ہو گئے تھے لیکن دشمن 6ستمبر کے بعد سے مسلسل جاگتا رہا ہے، اس کیلئے 6 ستمبر ختم نہیں ہوا‘ اس نے اپنا بدلہ دسمبر1971ء میں اس وقت لینے کی کوشش کی جب ہمیں اور ہمارے بنگالی بھائیوں کو‘ جو ایک دوسرے کا دست و بازو تھے‘ ایک دوسرے کا دشمن بنا کر ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر کے نہ صرف اس ملک کے دو ٹکڑے کر دیے بلکہ دھرتی کو لاکھوں لوگوں کے خون میں نہلا دیا۔ اپنی فتح کا جشن مناتے ہوئے اس نے کہا تھا ''آج دو قومی نظریہ بحیرۂ ہند میں غرق کر دیا گیا ہے‘‘۔ آج ایک بار پھر ہمارا وہی ازلی دشمن اس خطے میں اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن‘ بنگالی مسلمان بھائیوں کی طرح ہمارے اپنے ہی لوگوں کو اکسا اور ورغلا کر اپنے رزیل مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ہمارا یہ ازلی دشمن ہماری صفوں میں، ہمارے دانشوروں میں، میڈیا کے کچھ حصوں میں سرایت کر چکا ہے۔ ہر روز یہ ہماری فوج، خفیہ ایجنسیوں، سکیورٹی اداروں پر حملے کرا رہا ہے اور بد قسمتی دیکھئے کہ وہ جو بلوچستان میں ہماری حفاظت پر مامور اہلکاروں سمیت سکیورٹی فورسز پر حملے کر رہے ہیں‘ انہیں کبھی مسنگ پرسن تو کبھی انسانی حقوق کی آڑ میں تحفظ دینے والے بھی ہر طرف چھائے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا دیکھیں تو ان کے ساتھی بلا خوف ہم پر حملے کررہے ہیں اور ہم ہیں کہ ان کا مقابلہ کرنے کے بجائے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ نجانے کیوںآج6 ستمبر والا جذبہ ناپید اور مفقود ہو چکا ہے۔ نجانے وہ جذبۂ ستمبر کہاں چلا گیا ہے؟ اس کو کون کھا گیا؟ نسل تو وہی چھ ستمبر والوں کی ہی ہے لیکن عمل اُن جیسا کیوںنہیں ہے؟
6 ستمبر1965ء کودشمن نے اپنی ٹڈی دل افواج کے ذریعے ہماری سرحدوں کو تاراج کرنے کی کوشش کی تھی لیکن آج وہ ہماری سرحدوں کے اندر سے ہی ہزاروں کی تعداد میں سوشل میڈیا ایکٹوسٹس، ایمان فروشوں اور وطن فروشوں کو ساتھ ملا کر اپنے زہریلے جھوٹوں، بے بنیاد کہانیوں اور جعلی وڈیوز کے ذریعے دنیا بھر میں ہماری سکیورٹی فورسز کے خلاف کام کر رہا ہے۔ کبھی وہ فرقہ واریت کی آگ بھڑکا کر ہماری مسجدوں کو مقتل گاہ بنا کر خودسرحد پار کھڑا قہقہے لگا رہا ہے تو کبھی لسانی، قومیتی اور عصبی اختلافات کی چنگاریوں کو ہوا دینے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسے یقین ہو چلا ہے کہ اسے اب اپنا اسلحہ یا ایمونیشن پھونکنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ڈالروں کی بوریاں لٹا کر اپنا ذرا سا بھی جانی نقصان کروائے بغیر ہمارے ہزاروں افراد کو شہید کروا رہا ہے‘ اب تک جتنے افراد اس رزیل دشمن کی اس حکمتِ عملی سے شہید ہو چکے ہیں‘ ان کا چوتھائی حصہ بھی وہ ہمارے ساتھ لڑی گئی 4 جنگوں میں شہید نہ کر سکا۔ ہمارے عیار اور مکار دشمن نے ڈالروں کی بوریوں کے بل بوتے پر کہیں فرقہ پرستی کی بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں تو کہیں لسانی اور قوم پرستی کے ریموٹ کنٹرول بم بنا دیے ہیں، دشمن کی ان تمام سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے پوری قوم کو اپنی شناخت کی ضرورت ہے۔ آج ہمیں پھر ایک 6 ستمبر کا سامنا ہے۔ اگر قوم کو اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی تمنا ہے تو ایک بار پھر 1965ء کے جذبے کو اپنے اندر ابھارناہو گا۔ ایمان سے بھر پور سمندر، قرآنِ مجید کی تعلیمات سے لبریز سمندر،رسول خداﷺ کی محبت اور اطاعت کا ایک ایسا سمندر جس میں دشمن کی تمام سازشیں اس کے آلہ کاروں سمیت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غرق کر دی جائیں۔ ایک مرتبہ پھر وقت آ گیا ہے کہ ہم سب لا الٰہ الا ﷲ کا ورد کرتے ہوئے دشمن کی جنگی اور پروپیگنڈا توپوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے راکھ کا ڈھیر بنادیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved