کسی بھی ارفع مقصد کیلئے قیادت کا صرف ہونا کافی نہیں بلکہ اس کا مضبوط اور باکردار ہونا بھی لازم ہے۔ منزل کا راستہ قیادت ہی تو دکھاتی ہے۔ پس اُس میں اوصافِ حمیدہ کا ہونا لازم ٹھہرا۔ قیادت میں حالات سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ بھی ہونا چاہیے اور شعور بھی۔ تاریخ اور تجربہ‘ دونوں شاہد ہیں کہ اِن اوصاف کے بغیر قیادت ہمیں اپنے مقصد کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کی حقیقی تحریک دینے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
یاد رکھنے کا نکتہ یہ ہے کہ قائد مقصود بالذات نہیں ہوتا یعنی ہم کسی بھی راہ پر گامزن ہوتے وقت قائد کی خوشنودی کو حتمی منزل نہیں سمجھ سکتے۔ قائد ہمیں منزل کی طرف لے جانے کے لیے ہوتا ہے‘ خود منزل نہیں ہوتا۔ ہمارا سفر قائد کی ذات پر ختم نہیں ہو جاتا اور ختم ہونا بھی نہیں چاہیے۔ قائد کی نظر منزل پر رہنی چاہیے۔ اور خود ہماری نظر منزل اور قائد دونوں پر ہونی چاہیے۔ قائد پر نظر؟ یہ نکتہ عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے بہت عمدگی سے سمجھایا تھا جب انہوں نے خلافت قبول کرنے کے بعد لوگوں سے پوچھا تھا کہ اگر کبھی مجھ میں کجی پائی جائے تو؟ جواب ملا تھا ہم تمہیں سیدھا کردیں گے! یہ سن کر سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے سکون کا سانس لیا تھا۔ یہ گویا اس امر کا اشارا تھا کہ قائد کسی مرحلے پر کمزوری دکھائے تو اس کے پیچھے چلنے والے اُسے دوبارہ مضبوط بننے میں مدد دے سکتے ہیں۔ احتساب کا عمل قیادت کی درستی کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
ہماری ایک کمزوری یہ ہے کہ زندگی کے بیشتر معاملات میں ہم جدوجہد ہی کو منزل قرار دے کر سکون کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ یہ ایک طرح کی نفسی پیچیدگی ہے۔ جدوجہد کبھی منزل تو کیا، اُس کا نعم البدل بھی نہیں ہوسکتی۔ کسی نیک کام کے لیے کی جانے والی جدوجہد کا اجر بہت زیادہ ہوسکتا ہے مگر اس اجر کو منزل کے درجے میں نہیں رکھا جاسکتا۔ ہر دور اور ہر معاشرے یا ماحول کے انسان کا ایک بنیادی مسئلہ یا المیہ یہ رہا ہے کہ وہ شخصیت پرستی کا زہر پی کر مست رہنے کو زندگی بسر کرنے کا ایک پُرلطف انداز سمجھتا رہا ہے۔ کوئی بھی بڑی شخصیت ہمیں کسی نہ کسی حوالے سے تحریک دینے کے لیے ہوتی ہے۔ ہم اُس شخصیت سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ وہ اپنے اوصافِ حمیدہ سے ہماری اصلاح میں مدد دیتی ہے۔ یاں تک تو معاملہ درست ہے مگر اُس شخصیت کے سِحر میں گم ہوکر ہم منزل کو بھلا بیٹھیں؟ یہ تو غلط ہے، اس کی گنجائش نہیں۔
راہ نما منزل سے بڑا نہیں ہوسکتا۔ ہم راہ نما یا راہ نماؤں کی شخصیت کے طلسم میں گم ہوکر بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ شخصیت پرستی قدیم ترین اور انتہائی پیچیدہ نفسی عوارض میں سے ہے۔ شخصیت پرستی کا زہر پیتے رہنے سے انسان اپنے حواس میں نہیں رہتا اور جہاں پہنچنا چاہتا ہے وہاں تک پہنچنے میں انتہائی نوعیت کی دشواریاں محسوس کرتا رہتا ہے۔
شخصیت پرستی ہر دور میں انسان کے لیے ایک بڑے نفسی عارضے کی حیثیت سے رہی ہے۔ اللہ نے انبیاء کرام علیہم السلام اس لیے مبعوث فرمائے کہ ہم شخصیات کے طلسم سے نکل کر اللہ سے لَو لگائیں، اُس کی رضا کے مطابق زندگی بسر کریں اور آخرت کے لیے وہ زادِ راہ جمع کریں جو کرنا چاہیے۔ ہم نبی کریمﷺ کے امتی ہیں اور آپﷺ کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی بات کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے جو کچھ سکھایا اُس کے مطابق زندگی بسر کرنے میں اصل مقصود اللہ کی رضا اور خوشنودی کو ہی یقینی بنانا ہے۔
شخصیت پرستی کے انتہائی بھیانک بلکہ تباہ کن نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ جب ہم اپنے حواس کو شخصیت پرستی کی نذر کرتے ہیں تب غُلو کی انتہا ہو جاتی ہے اور ہمارے حصے میں صرف الجھنیں اور پیچیدگیاں رہ جاتی ہیں۔ کسی اور کے معاملات کو تو چھوڑ ہی دیجیے، شخصیت پرستی کی اجازت تو مذہب کے معاملے میں بھی جائز قرار نہیں دی گئی۔ قرآنِ مجید میں اقوامِ سابق‘ یعنی یہود و نصاریٰ کے جہاں دیگر اعمال کا جائزہ لیا گیا‘ وہیں پر یہ بھی کہا گیا کہ انہوں نے اللہ کے پیغمبروں کو ہی خدا کا درجہ دے کر ان کی پرستش شروع کر دی تھی۔ اس ضمن میں یہودیوں کی جانب سے سیدنا عزیر علیہ السلام اور عیسائیوں کی طرف سے سیدنا عیسیٰ مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دینے کی مثال دی گئی ہے۔ قرآنِ حکیم کا واضح مضمون ہے کہ تمام انبیا کرام علیہم السلام کی بعثت اور جدوجہد کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ بھٹکے ہوئے انسان شخصیت پرستی کے حصار سے نکل کر صرف اللہ کی ذات کو حتمی مقصود جان کر جدوجہد کریں اور اپنے خالق و رب کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کو حتمی منزل تصور کریں۔ سورہ یوسف میں سیدنا یوسف علیہ السلام کا اپنے جیل کے ساتھیوں سے مکالمہ بیان ہوا ہے، ایک مقام پر سیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں سے استفسار کیا:اے میرے جیل خانے کے رفیقو! بھلا کئی جدا جدا آقا اچھے ہیں یا (ایک) خدائے یکتا و غالب؟ ( سورہ یوسف:39)
ہر دور اپنے ساتھ بہت سی شخصیات لاتا ہے۔ بڑی شخصیات ہمیں زندگی کے اعلیٰ و ارفع مقاصد کے لیے تحریک دینے کا ذریعہ ثابت ہوتی رہی ہیں۔ مختلف شعبوں کی نمایاں شخصیات میں ایک وصف تو لازمی طور پر پایا جاتا ہے‘ دوسروں کو متاثر کرنا اور انہیں بھی کچھ کرنے کی تحریک دینا۔ یہاں تک تو معاملہ درست ہے۔ کسی بھی بڑی شخصیات سے کچھ پانے اور کچھ کرنے کی تحریک پانا کسی بھی درجے میں غلط نہیں۔ نئی نسل کو ایسا کرنا ہی چاہیے تاکہ کسی بھی بڑے مقصد کے لیے کچھ کرنے کا ذہن بنانے میں آسانی ہو۔ شخصی ارتقا کے حوالے سے یہ سب کچھ ناگزیر سا ہے۔ خرابی اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم کسی بھی بڑی شخصیت کے سحر میں مبتلا ہوکر اُسے کچھ کا کچھ بنانے پر تُل جائیں۔ عام آدمی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی بڑی ہستی سے کچھ پانے اور کرنے کی تحریک حاصل کرنے کے بجائے اُس کے سحر میں گم ہوکر اُس کی غیر محسوس پرستش کرنے لگتا ہے۔ یہ سلسلہ جب بہت بڑھتا ہے تو وہ شخصیت اعصاب اور فکری ساخت کے سَر پر سوار ہو جاتی ہے۔ پھر وہ شخصیت ہی مقصود بالذات ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہ معاملہ دینی اور دُنیوی دونوں ہی معاملات میں بُرا ہے۔ کسی بھی راہ نما کو منزل سے بڑا قرار دے کر منزل کے بجائے اُس راہ نما کی خوشنودی کو حتمی مقصد قرار دے لینا شخصی ارتقا کی راہ میں کھڑی کی جانے والی بہت بڑی دیوار ہے۔ آج معاشرے میں جا بجا یہ دیواریں کھڑی ہیں۔
پاکستان اُس مقام پر کھڑا ہے جہاں ہمیں یعنی عام پاکستانیوں کو بہت کچھ سوچنا اور سیکھنا ہے۔ قیادت جو کچھ کر رہی ہے وہ اپنی جگہ مگر بہت کچھ ہے جو ہمارے حصے کا کام ہے اور وہ کام ہمیں کرنا ہی پڑے گا۔ عوام کے حصے کا ایک بڑا کام تو مختلف النوع نفسی عوارض سے نجات پانے کا ہے یعنی ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ شخصیت پرستی کے دائرے سے نکل کر حقیقت پسندی کے ساتھ عمل نواز رویّہ اپنانا ہے اور اس سلسلے میں ہر مشکل کا ڈٹ کر سامنا کرنا ہے۔ علم و فن، سیاست و معیشت اور تمدن و معاشرت کے حوالے سے ہم شخصیت پرستی کے دائرے میں یا اُس کے آس پاس گھومتے رہتے ہیں۔ بسا اوقات مرعوبیت اِتنی بڑھ جاتی ہے کہ ہم چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کہہ پاتے اور ہمارے معاملات میں الجھنیں برقرار رہتی ہیں۔ ہمیں منزل تک پہنچنا ہے۔ بیشتر معاملات میں ہمیں منزل کا علم بھی ہے۔ ہاں! سفر کی صعوبت کبھی کبھی ہمیں مجبور کرتی ہے کہ راہ نما کی ذات ہی کو منزل سمجھ کر اُس پر اکتفا کرلیں۔ حتمی تجزیے میں اِس نفسی عارضے کو پروان چڑھاتے رہنے کی کوئی حقیقی گنجائش نہیں ہے۔