تحریر : محمد اعجاز الحق تاریخ اشاعت     06-09-2021

تحریک آزادی ٔکشمیر اور سید علی گیلانی

تحریک ِ آزادیٔ کشمیر کے ممتاز اور ٹھوس کردار کے حامل باعمل رہنما سید علی گیلانی یکم ستمبر 2021ء کو اپنے خالق حقیقی کے بلاوے پر چل دیے۔ان کے انتقال سے مقبوضہ کشمیر میں الحاقِ پاکستان کی مضبوط ترین آواز ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گئی۔ سید علی گیلانی نے زنداں کی سختیوں اور نظر بندیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے جس بات کو حق سمجھا‘ برسرعام کہہ ڈالی اور کسی دبائو‘ لالچ اور کسی ترغیب کو خاطر میں لائے بغیر حق گوئی کا تسلسل قائم رکھا۔ وہ اگر غیروں کے سامنے ڈٹ کر بات کرتے تھے تو اپنوں کے دام ہمرنگِ زمین میں بھی پھنسنے سے انکار کر دیتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کشمیر کی آزادی کیلئے وقف کر رکھی تھی اور آزادی سے کم کسی آپشن کو کبھی درخورِاعتنا نہیں سمجھا۔ وہ تین بار مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے لیکن جب انہوں نے محسوس کیا کہ اسمبلی کی رکنیت کشمیر کی آزادی کی منزل کی طرف نہیں جاتی تو وہ انتخابی سرگرمیوں سے لاتعلق ہو گئے اور اپنی ساری سرگرمیوں کا مرکز و محور کشمیر کی آزادی اور الحاقِ پاکستان ہی کو قرار دے کر عملی جدوجہد جاری رکھی۔ سید علی گیلانی نظر بندی کی زندگی گزار رہے تھے اور اس دوران ہی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے، یوں ان کی وفات غاصب ریاست کی حراست میں ہوئی۔ ان کی وفات کے بعد بھی مقبوضہ کشمیر کی بھارتی انتظامیہ خائف رہی اور لواحقین سے زبردستی ان کی میت چھین کر پولیس کی نگرانی میں تدفین کی گئی۔ نماز جنازہ میں اہالیانِ کشمیر تو درکنار‘ ان کے لواحقین کو بھی شریک ہونے کا موقع نہیں دیا گیا۔
علی گیلانی سوپور کے قصبہ ڈورو میں پیدا ہوئے، ان کے والد ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے، ابتدائی تعلیم بارہمولہ اور سوپور سے حاصل کی اور بعد میں مزید تعلیم لاہور کے اورینٹل کالج میں حاصل کی۔ ان دنوں رواج تھا کہ کشمیری طلبہ مساجد میں رہتے تھے اور مساجد سے وابستہ محلوں کے لوگ ان طلبہ کی خدمت، کھانا، پینا، لباس اور کتابیں بڑے خلوص اور محبت کے ساتھ فراہم کرتے تھے۔ گیلانی صاحب بھی موچی دروازہ، لال کنواں اور مسجد پیر گیلانیاں میں باری باری قیام پذیر رہے۔ مسجد وزیر خان میں سورۃ بقرہ اور آلِ عمران حفظ کیں۔ دہلی دروازے لاہور میں ایک کالج میں ان دنوں مشرقی علوم کی تعلیم دی جاتی تھی‘ مرحوم بیدار بخت خان وہاں کے پرنسپل تھے‘ انہوں نے انہیں بغیر کوئی فیس لیے‘ ادیب عالم میں داخلہ دے دیا۔ اس کے بعد لاہور کی ادبی محفلوں، مشاعروں اور مباحثوں میں شرکت ا ن کی مصروفیات کا اہم حصہ بن گئی۔ انہیں علامہ اقبال سے عشق تھا۔ اپنی کتاب 'اقبال، روح دین کا شناسا‘ میں انہوں نے نہایت خوبصورت نثر میں داستانِ حیات بیان کی ہے سید علی گیلانی کے اجداد مشرقِ وسطیٰ سے ہجرت کر کے کشمیر میں آباد ہوئے تھے۔ علی گیلانی نے علامہ اقبال کی فارسی شاعری کے ترجمے پر مشتمل تین کتابوں سوانح عمری، کشمیر کی صورت حال، اپنی اسیری اور بھارت کی کشمیر پالیسی پر درجنوں کتابیں لکھیں جن میں رودادِ قفس، نوائے حریت، بھارت کے استعماری حربے، مقتل سے واپسی اور ولر کنارے کافی مقبول ہیں۔
لاہور سے کشمیر واپسی پر انہوں نے جماعت اسلامی کشمیر میں شمولیت اختیار کی۔ شعر و سخن سے شغف اور حسنِ خطابت کی وجہ سے بہت جلد وہ جماعت کے اہم رہنما کے طور مشہور ہو گئے۔ انہوں نے 1972ء، 1977ء اور 1987ء میں جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا۔ اسمبلی میں وہ مسئلہ کشمیر کے حل کی وکالت کرتے رہے؛ تاہم انتخابات میں 'بدترین دھاندلیوں‘ کے خلاف وہ حتمی جدوجہد کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا جب روس کابل سے نکل رہا تھا، کابل میں مجاہدین صدر جنرل محمد ضیاء الحق شہید کی بہترین حکمت عملی، جرأت مندانہ قیادت اور جہادِ افغانستان کی عملی مدد کے باعث فتح مند ہو رہے تھے۔ کابل سے اٹھنے والی امید مقبوضہ کشمیر جا پہنچی اور چند سال بعد جب کشمیر میں ہمہ گیر مسلح تحریک برپا ہوئی تو وقت کے ساتھ ساتھ تحریک آزادی کیلئے عوام کی حمایت کا گراف بڑھتا چلا گیا۔ کشمیری مجاہدین کو یقین تھا کہ جس طرح افغانستان سے سوویت یونین کو مار بھگایا گیا ہے‘ اسی طرح مقبوضہ کشمیر بھی بھارت کے تسلط سے آزاد کرایا جا سکتا ہے۔ صرف دو سال کے اندر اندر مقبوضہ وادی میں حالات بھارتی حکومت کے ہاتھ سے نکل گئے اور وہاں گورنر راج نافذ کرنا پڑا۔ سید علی گیلانی نے مسلح تحریک کی کھل کر حمایت کی اور اسے کشمیریوں کی طرف سے 'تنگ آمد بجنگ آمد‘ کے مصداق ایک ردعمل قرار دیا۔ انہوں نے کشمیر کو پاکستان کا قدرتی حصہ قرار دے کر مسئلہ کشمیر کو تقسیمِ ہند کا نامکمل ایجنڈا قرار دیا۔ سید علی گیلانی مسئلہ کشمیر کو اسلامی مسئلہ کہتے تھے، ان کا یہ نعرہ کہ اسلام کی نسبت سے ''ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے‘‘ اب مقبوضہ کشمیر کے گھر گھر کا نعرہ بن رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اپنی حکمت ہوتی ہے، ہم بحیثیت مخلوق اپنے خالق کے فیصلوں میں نہ دخل دے سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں سمجھ سکتے ہیں۔ ایک عجیب اتفاق ہے کہ جب کابل فتح ہو رہا تھا‘ مجاہدین غلبہ پا رہے تھے‘ روس افغانستان سے نکل رہا تھا تو اس وقت جہادِ افغانستان کی پشت پر کھڑے ہونے والے جنرل محمد ضیاء الحق شہید ہو گئے۔ آج جب ایک بار پھر کابل میں طالبان غلبہ پا چکے ہیں اور امریکا شکست کھا کر افغانستان سے نکل گیا ہے اور یہ صورتحال مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند عوام کیلئے حوصلہ افزا بن رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے سید علی گیلانی کو اپنے پاس بلا لیا ہے۔
سید علی گیلانی نے مقبوضہ کشمیر میں ایک بے مثال سیاسی کردار ادا کیا۔ انہوں نے زندگی میں بے شمار خطوط لکھے؛ تاہم دو خط بہت تاریخی ہیں۔ ایک خط انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو لکھا تھا جس میں کشمیر کی آزادی کیلئے اپنا حصہ ڈالنے کی تاکید کی تھی اور ساتھ ہی لکھا کہ شاید وہ دوبارہ انہیں خط نہ لکھ سکیں۔یہ بات انہوں نے اپنی گرتی ہوئی صحت کے باعث لکھی تھی۔ ابھی حال ہی میں جب افغانستان میں طالبان فتح مند ہوئے تو انہوں نے انہیں بھی خط لکھا‘ جوغالباً ان کی زندگی کا آخری خط تھا۔ اپنے خط میں انہوں نے افغان مجاہدین اور افغان عوام کو دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد پیش کی اور کہا: ''افغانستان میں ملی یہ فتح جہاں ایک طرف دنیا بھر میں اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے مصروفِ جدوجہد اقوام اور خاص طور پر مسلمانوں کیلئے یہ پیغام ہے کہ مخالف حالات سے مایوس اور بددل ہونے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کرتے ہوئے صبر و استقامت کے ساتھ اپنی جدوجہد کو جاری رکھنا چاہیے، وہیں دوسری طرف اس میں بھارت اور اسرائیل جیسی غاصب قوتوں کے لئے بھی ایک تنبیہ ہے کہ طاقت کے نشہ میں بدمست ہو کر وہ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ان کے ظلم و جبر نے مظلوموں کو ہمیشہ کیلئے دیا دیا ہے۔ لوگوں سے زبردستی ترانے گوا کر ان کے جذبۂ حریت کو مٹایا نہیں جا سکتا۔ باطل چاہے جتنا بھی وقتی طور پر اچھل کود کر لے‘ انجام کار میں اسے شکست سے دوچار ہونا ہے کیونکہ غلبہ صرف حق کیلئے ہے‘‘۔
سید علی گیلانی اپنے موقف پر ڈٹ جانے والے رہنما تھے، اسی لئے انہیں سخت گیر یعنی ہارڈ لائنر بھی کہا گیا۔ انہیں سمجھایا گیا کہ دنیا ماڈریٹ موقف کی حمایت کرتی ہے مگر ان کا موقف تھا کہ وہ آزادی سے کم کسی بات پر ر اضی نہیں ہوں گے۔ وہ کشمیر کے مسئلہ کے حل کیلئے کسی ایسے فارمولے کی حمایت نہیں کرتے تھے جس میں آزادی کی بجائے مصلحت نظر آرہی ہو۔ ان سے نئی دہلی کے مصالحت کاروں نے رابطہ کر کے اُن سے مؤقف میں لچک لانے کی بار ہا فرمائش کی؛ تاہم وہ اعادہ کرتے رہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل ہونا ہے۔ 2016سید علی گیلانی زندگی بھر سختیاں، جیل اور انٹروگیشن برداشت کرتے رہے، اپنی زندگی کا بیشتر حصہ انہوں نے جیلوں میں گزارا جبکہ گزشتہ تقریباً دس برسوں سے اپنے گھر میں نظر بند تھے۔ دورانِ اسیری انہیں صحت کے سنگین مسائل لاحق ہوئے مگر قابض انتظامیہ کی جانب سے ان پر عائد پابندیوں میں کوئی نرمی نہیں کی گئی۔ وہ جس قدر زندہ ہوتے ہوئے بھارت کیلئے خطرہ ثابت ہوئے تھے‘ وفات کے بعد اور بھی خطرناک بن گئے۔ اسی لیے ان کی وفات کے بعد بھارت نے وادی میں ہر قسم کی نقل و حرکت پر پابندیاں لگا دیں اور انہیں ان کے گھر کے قریب حیدر پورہ کے علاقے میں علی الصبح زبردستی سپردِ خاک کر دیا گیا۔سید علی گیلانی اپنی زندگی میں صرف ہیرو تھے لیکن موت کے بعد وہ سپر ہیرو بن گئے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved