تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     07-09-2021

تبدیلی نے تو ’’دھوڑیں پٹ‘‘ دی ہیں

یہ واقعہ ایک دوست نے سنایا ہے۔ اب اس دوست کا نام کیا لکھنا؟ میرا کیا جاتا ہے؟ میں تو جو دل کرتا ہے‘ لکھ دیتا ہوں اس بات کی پروا کیے بغیر کہ کسی سے تعلقات خراب ہو جائیں گے، لیکن کیا کروں شہر میں اب گنتی کے دوست ہیں اور ظاہر ہے یہ سارے میری طرح بے مروت اور بے لحاظ تو نہیں کہ شہر بھر سے تعلقات خراب کر لیں۔ میں بھی اب ان دوستوں سے اپنے رہے سہے تعلقات بھی خراب نہیں کرنا چاہتا۔ سو احتیاط ان گنتی کے چند دوستوں کی وجہ سے کرتا ہوں کہ کم ازکم چار چھ دوست تو باقی رہنے چاہئیں۔ لہٰذا اس دوست کا نام نہیں لکھ رہا کہ کہیں اس کالم کی قیمت پر میرے اس سے اور اس کے تعلقات کسی اور سے خراب نہ ہو جائیں۔
وہ دوست بتا رہا تھا کہ ایک روز وہ چند دوستوں کی محفل میں بیٹھا ہوا تھا۔ محفل کی کمپوزیشن بڑی مزیدار تھی۔ ان میں ایک پیپلز پارٹی کا ممبر قومی اسمبلی تھا، ایک مسلم لیگ ن کا ممبر قومی اسمبلی اورایک حکمران پارٹی کا وزیر تھا۔ اب میں ان تینوں کے نام بھی نہیں لکھوں گا کہ اگر ان تینوں کے نام لکھ دیے تو پھر واقعہ بیان کرنے والے دوست کے نام کو پردے میں رکھنے کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ وہ سمجھ جائیں گے کہ یہ بات کس نے آگے پھیلائی ہے لہٰذا ان تینوں ناموں کو بھی پردے میں رہنے دیں۔ ویسے اس واقعے کا تعلق ناموں سے ہے بھی نہیں۔ یہ تو ایسا واقعہ ہے جو اس ملک میں ہمہ وقت ہوتا رہتا ہے اور ہر دور میں ایسے درجنوں لوگ ہوتے ہیں جو اسی قسم کا پروفائل رکھتے ہیں جیسا میں نے بیان کیا ہے لہٰذا نام نہ دینے سے بھی واقعے کے مرکزی خیال پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ابھی اس دوست نے اتنی ہی بات بتائی تھی کہ میں نے حسبِ معمول دخل اندازی شروع کر دی۔
میں نے اس سے پوچھا کہ کیا یہ تینوں لوگ کسی تھرڈ پارٹی کی تقریب میں اکٹھے ہوئے تھے؟ وہ کہنے لگا: ہرگز نہیں! یہ تینوں آپس میں بڑے گہرے دوست ہیں اور عوام کو آپس میں لڑوا کر ایک دوسرے سے یہ قصے مزے مزے سے بیان کرتے ہیں۔ یہ اوپرکی سطح والے سیاستدان آپس میں اس طرح جوتم پیزار نہیں کرتے جس طرح ہم بیوقوف لوگ ان کے پیچھے لگ کر اپنے دوستوں سے تعلقات خراب کرتے پھرتے ہیں۔ یہ ایک کلب ہے اور اس میں مختلف سیاسی نظریات کے لوگ مختلف سیاسی پارٹیوں میں ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے اسی طرح اچھے تعلقات رکھتے ہیں جس طرح مختلف شوگر ملز کے مالکان پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے)کے اجلاسوں میں اور ٹیکسٹائل ملزکے مالکان آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کی میٹنگز میں ایک دوسرے سے گپ شپ کرتے ہیں، قہقہے لگاتے ہیں، ہاتھ پر ہاتھ مار کر عوام کی جیب سے اربوں روپے نکالنے کی اپنی اپنی ترکیب بیان کر کے لطف لیتے ہیں۔ پھر اکٹھے ڈنرکرتے ہیں اور گھرروانہ ہو جاتے ہیں۔ یہ سیاستدان بھی اپنے اپنے حربے سے ہمارے ووٹ سمیٹ کر آپس میں ہماری حماقتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہیں‘ قہقہے لگاتے ہیں‘ذرا موج میلے والے ہوں تو شام ڈھلے والے ماکولات سے مزتے لیتے ہیں ڈنر کرتے ہیں اورراضی خوشی اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔
خیر بات کہیں کی کہیں چلی گئی۔ تمہید لمبی ہو گئی ہے حالانکہ بات صرف تین سطروں کی تھی مگر اس بری عادت کے طفیل کچی لسی کی طرح بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ خیر! ایک صاحب نے وزیر موصوف کو مخاطب کر کے کہا: یار تمہیں پارٹی بدلتے ہوئے کوئی خیال نہیں آتا؟ تم نے ہر الیکشن پر پارٹی بدلی ہے اور ہر حکومت میں مزے کیے ہیں۔ تمہیں اپنی اس حرکت پر کبھی شرمندگی نہیں ہوئی؟ میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ یہ تینوں بہت ہی قریبی دوست ہیں اور نجی گفتگو میں ایک دوسرے پر نہ تو اس طرح تاؤ کھاتے ہیں جس طر یہ ٹی وی کے ٹاک شوز میں ایک دوسرے کے لتے لیتے ہیں اور نہ ہی پوائنٹ سکورنگ کرتے ہیں۔ وزیر زور سے ہنسا اور کہنے لگا :اس میں بھلا شرمندہ ہونے کی کیا بات ہے؟ شرم تو ان پارٹیوں کو آنی چاہئے جو مجھے کھلے ہاتھوں قبول کرتی اور گلے لگاتی ہیں۔ شرم تو ان ووٹروں کو آنی چاہئے جو میرے ہر بار پارٹی تبدیل کرنے کے باوجود مجھے ووٹ دیتے ہیں۔ مجھے کس بات کی شرمندگی ہو؟ مجھے یقین ہے کہ اگر وزیر موصوف کے سیاسی مرغِ بادنما نے ہوا کا رخ تبدیل ہونے کا عندیہ دیا تو وہ اگلا الیکشن مستقبل میں کسی بہتر امیدوں کی حامل اپنی سابقہ سیاسی پارٹی کی طرف سے لڑنے میں قطعاً کوئی عار محسوس نہیں کریں گے اور وہ پارٹی بھی انہیں ''جپھی‘‘ ڈال کر خوش آمدید کہے گی۔ ہماری سیاسی اخلاقیات کا جنازہ انفرادی طور پر تو خیر جو نکلا ہے‘ سو نکلا ہے اجتماعی یعنی پارٹی کی بنیاد پر حال اس سے بھی برا ہے۔ ماضی کو تو چھوڑیں موجودہ کابینہ کو ہی دیکھ لیں تو آپ کو ساری بات آسانی سے سمجھ آ جائے گی۔
دوستوں کی اسی محفل میں پنجاب بیورو کریسی میں تبادلوں کے حالیہ طوفان بارے گفتگو شروع ہوئی تو ایک دوست بتانے لگاکہ گزشتہ دنوں ایک ڈویژن کے کمشنرکا تبادلہ تو محض اس لئے ہوا ہے کہ اس نے ایک زور دار بندے کے کہنے پر برلب سڑک سو کنال کی ایک لاوارث قسم کی سرکاری اراضی اس کے نام پر ٹرانسفر کرنے میں لیت و لعل کی تھی۔ میں نے حسبِ عادت پوچھ لیا کہ کمشنر کون تھا اور کس ڈویژن کا تھا؟ وہ دوست کہنے لگا: وہ کمشنر تمہارا جاننے والا ہے؛ تاہم نہ صرف یہ کہ میں اس کا نام نہیں بتاؤں گا بلکہ تمہاری نیت کو جانتے ہوئے یہ پیشگی بتا رہا ہوں کہ میں تمہیں اس زور دار بندے کا نام بھی نہیں بتاؤں گا۔ ویسے اگر اس کا نام بتا دوں توآپ لوگوں کی ہنسی چھوٹ جائے گی کہ اس کا وزیراعظم سے کیا شاندار رشتہ ہے۔ اس دوست نے بتایا کہ میں نے آٹھ ماہ کمشنر رہنے والے اس دوست سے کہا کہ وہ اس فرمائش کو لٹکائے رکھتا۔ سابقہ کمشنر نے ہنس کر کہا کہ وہ کم از کم اتنی عقل تو رکھتا ہی تھا۔ اس نے اپنی آٹھ ماہ کی پوسٹنگ میں چار پانچ ماہ اس کو لٹکا کر ہی گزارے تھے وگرنہ تو وہ تین ماہ بعد ہی تبدیل کر دیا جاتا۔
تبدیلی کی اس زور دار لہر میں‘ میرا مطلب ہے سرکاری افسروں کے تبادلوں کی اس لہرمیں کمشنر ملتان کا بھی تبادلہ ہوا ہے اور اس تبادلے کے ساتھ ہی ملتان ڈویژن نے اپنا سکور گوجرانوالہ ڈویژن کے برابر کر لیا ہے۔ موجودہ حکومت کے تین سالوں میں ملتان میں ساتواں کمشنر آیا ہے۔ پہلے یہ اعزاز گوجرانوالہ کے پاس تھا‘ اب ملتان نے بھی گوجرانوالہ کا ریکارڈ برابر کر لیاہے۔یہ محض اتفاق ہے کہ ایف بی آر کاساتواں چیئرمین بھی انہیں دنوں تعینات ہوا ہے۔ گزشتہ تین سال میں ملکی معیشت کو رواں دواں رکھنے کیلئے شہ رگ کی حیثیت کے مالک اس محکمے میں کسی آنے والے کو اتنا وقت ہی نہیں ملا کہ وہ اس ملک کی بری طرح بگڑی ہوئی معیشت کو کسی پٹڑی پر ڈالنے کے لیے دیرپا منصوبہ بنا کر اس پر عملدرآمد کروا سکے۔ جہانزیب خان اس عہدے پر نوماہ سے کم عرصہ، شبر زیدی چھ ماہ، نوشین جاوید سات ماہ، جاوید غنی نو ماہ، عاصم احمد محض چار ماہ متمکن رہے۔ بھلا اتنے مختصرعرصے میں کوئی شخص کس طرح ادارے کو کسی سمت لے جا سکتا ہے؟ جب اسے معاملات کی تھوڑی سمجھ آنے لگتی ہے تو اسے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ ایف بی آر نہ ہوا‘ چیئرمین ٹریننگ سنٹر ہوا کہ بندہ آئے، چیئرمینی کے رنگ ڈھنگ سیکھے اور جونہی اسے تھوڑا بہت پتا چلنے لگے اسے فارغ کردیا جائے۔ پورے ملک میں یہی تماشا لگا ہوا ہے۔ پنجاب کے تعلیم سے متعلق ایک ڈیپارٹمنٹ کا زیادہ برا حال ہے‘ وہاں تین سال میں اٹھارہ سیکرٹری تبدیل ہو چکے ہیں جس میں سے ایک سیکرٹری کا عرصہ تعیناتی محض ایک دن ہے۔ اس سے زیادہ اور تبدیلی کیا آ سکتی ہے؟ بعض جگہ تو تبدیلی نے ایک پنجابی محاورے کے مطابق ''دھوڑیں پٹ‘‘ دی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved