تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     07-09-2021

سیاست کی سفاکی

سیاست کیا ہے؟حکمرانی کے تقاضے کیاہوتے ہیں؟طالبان کا تجربہ ان سوالات کے جواب دیتا ہے‘اگر کوئی علمِ سیاست کی کتابیں نہیں پڑھتا۔
سیاست اپنی تمام تر سفاکی کے ساتھ طالبان کے سامنے کھڑی ہے۔ کل وہ صف کے اُس طرف تھے تو اس کے مطالبات کچھ اور تھے۔ آج اِس طرف ہیں تو کچھ اور۔کل وہ جد وجہد کے مرحلے میں تھے۔اُس وقت ان کے حلیف کچھ اور تھے۔آج وہ اقتدار میں ہیں۔آج انہیں نئے دوستوں کی ضرورت ہے۔دنیا اپنی جگہ کھڑی رہتی ہے۔یہ ہم ہیں جو اپنی جگہ تبدیل کرتے ہیں۔اس کا ادراک ہی سیاست ہے۔اسی لیے کہا گیا کہ اپوزیشن کے مزاج کے ساتھ حکومت نہیں کی جا سکتی۔
نظریاتی کہلاتے گروہ جب اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں تومسائل کی دلدل میں پھنستے چلے جاتے ہیں۔معاصر دنیا میں اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔جیسے لاطینی امریکہ کے حکمران جنہیں اپنی ا شتراکی فکر پر اصرار ہے۔وہ امریکہ کو برائی کا مرکز سمجھتے ہیں‘اس کے خلاف برسرِپیکار ہیں۔ ان کی معیشت بر باد ہو چکی اور عوام کی زندگی اجیرن ہے۔ جیسے ایران ہے۔انقلاب کے بعد امریکہ نے اس انقلاب کو ناکام بنانے کی سعی کی۔وہ نامراد رہا تو مصالحت کی طرف مائل ہوا۔ ایرانی قیادت نے اس طرح کے کئی مواقع گنوا دیے۔نتیجہ یہ ہے کہ ایران برسوں سے اقتصادی اور سیاسی پابندیوں کا شکار ہے۔جو قوم ترقی یافتہ بن سکتی تھی‘اس کے لیے معمول کی زندگی گزارنا مشکل ہو گیا۔ یہی معاملہ سوڈان کے عمر عبدالبشیر کا رہا۔ آج سوڈان تقسیم ہو چکا اورجو باقی ہے‘اس پر ان کے مخالف گروہ کی حکومت ہے جو انہیں عالمی عدالت کے حوالے کرنے پر آمادہ ہے۔
طالبان کواس وقت تعمیرِ نو کیلئے عالمی اداروں کی مدد چاہیے۔اس کیلئے انہیں اس عالمی سیاسی نظام کا حصہ بننا ہو گا جس کی قیادت امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔ایران کے پاس تیل ہے جس نے اس کی رگِ معیشت کو کٹنے نہیں دیا۔افغانستان کو قدرت نے جو کچھ عطا کر رکھا ہے‘اس تک رسائی کیلئے اسے ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے جو عالمی قوتوں کے ہاتھ میں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ طالبان اقتدار کے مطالبات کا کیسے سامنا کرتے ہیں۔ طالبان کے تجربے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی مسلح جد وجہد یا گوریلا جنگ‘ ہمسایہ ممالک کی تائید کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔افغانستان کی سرزمین اگر چہ گوریلا جنگ کیلئے سازگار ہے‘اس کے باوجود اگر ہمسایہ ممالک کے دروازے طالبان پر نہ کھلے ہوتے تو کسی قائم سیاسی نظام کے خلاف کوئی اقدام کامیاب نہیں ہو سکتاتھا۔پاکستان کیوں یہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں ایک پاکستان دوست حکومت بنے؟اس لیے کہ پاکستان کے اندر دہشت گردی‘اس دن ختم ہو جائے گی جس دن اسے افغانستان سے کمک نہیں ملے گی۔ وہ علاقے‘جنہیں ہم فاٹا کہتے تھے‘اس لیے اضطراب میں مبتلا رہے کہ یہاں دہشتگردی کرنے والوں کو افغانستان میں پناہ گاہیں میسر تھیں۔یہ پناہ گاہیں بعض اوقات ہمسایہ حکومتیں فراہم کرتی ہیں‘ بعض اوقات لوگ اور کبھی حالات۔مثال کے طور پر افغانستان سے اگر حکومتی سطح پر دہشت گردی کی پشت پناہی نہ ہو‘تو بھی یہاں کا جغرافیہ اس طرح کا ہے کہ سر حدوں پر پہرے بٹھانا ممکن نہیں۔کئی برسوں سے پاکستان اس سرحد پر باڑ لگا رہا ہے مگر چوبیس سو کلومیٹر سے زیادہ سرحد پر باڑ لگانے کیلئے جتنا سرمایہ اور وقت چاہیے‘اس کا اندازہ کر نا مشکل نہیں۔گویا یہاں دہشت گردی کے لیے حالات اور جغرافیہ بھی مدد کرتے ہیں۔
شام میں داعش کی ناکامی کا ایک بڑا سبب یہ ہوا کہ اسے ترکی سے مدد نہیں ملی۔جب سرحدیں بند ہوگئیں تو اسے اس طرف سے کمک نہیں پہنچ سکی۔ عراق میں صدام مخالف گروہ سیاسی طور پر بھی کامیاب رہے کہ سرحد کے اس پار ایران موجود تھا۔سعودی عرب چاہتے ہوئے بھی وہاں اپنی مرضی کی حکومت نہیں بنا سکا۔اسی طرح گوریلا جنگ لڑنے والوں کو اگر آبادی کے اندر سے حمایت میسر آجائے تو بھی ریاست کے لیے مقابلہ مشکل ہو جاتا ہے۔کوئی حکومت اپنی ہی آبادیوں پر بم نہیں پھینک سکتی۔طالبان کے بارے میں ہم جا نتے ہیں کہ افغانستان کے اندر ان کے لیے تائید موجود تھی۔اس طرح حکومت بنانے کے بعد طالبان کی اولیں ترجیح ہمسایوں کے ساتھ پُرامن تعلقات ہیں۔طالبان کو استحکام کے لیے پاکستان اور ایران کی حمایت چاہیے۔اس کا مطلب ہے کہ انہیں ایک طرف تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں اپنا موقف واضح کرنا ہوگا جو خود کو افغان طالبان کی توسیع سمجھتی ہے۔ابھی تک ٹی ٹی پی کے بارے میں طالبان نے کوئی پالیسی بیان جاری نہیں کیا۔اسی طرح طالبان کو اپنی شیعہ آبادی کے بارے میں نئی حکمتِ عملی اپنانا ہوگی تاکہ ایران کے ساتھ اس کے تعلقات معمول کے مطابق رہیں۔
القاعدہ یا داعش‘اب طالبان کے دوست نہیں ہو سکتے۔القاعدہ کے ساتھ دوستی کی اتنی بڑی قیمت انہیں ادا کرنا پڑی کہ آج وہ اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔القاعدہ کا کوئی گروہ اگر افغانستان کی سرزمین کو‘کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرتا ہے تو طالبان کو ان کے خلاف اقدام کر نا ہو گا۔یہ کام بھی آسان نہیں؛ تاہم اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ جب آپ صف کی دوسری طرف کھڑے ہوتے ہیں تو آپ کی ترجیحات کیا ہوتی ہیں۔
پاکستان میں ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی ایک جماعت اپوزیشن سے حکومت تک کاسفر کرتی ہے تواس کے خیالات اور اطوار دونوں بدل جاتے ہیں۔ہمارا میڈیا انہیں پرانے کلپس دکھاتا ہے۔جواباً عذرِ لنگ پیش کیے جاتے ہیں۔یہ بات دراصل عوام کے سمجھنے کی ہے کہ جگہ بدل جانے سے زاویۂ نظر بھی بدل جاتا ہے۔ بیٹا باپ بنتا ہے توبیٹے پر وہی سختی کرتا ہے جو اسے‘اُس وقت پسند نہیں تھی جب وہ خودبیٹا تھا۔ہمارے سیاست دانوں کو بھی چاہیے کہ عذر گھڑنے کے بجائے‘وہ عوام کو سمجھائیں کہ موقف میں تبدیلی کیوں آئی ہے۔یہ کام میڈیا کا بھی ہے کہ اس باب میں عوام کی درست رہنمائی کرے۔اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ جب کوئی اپوزیشن لیڈر بڑا دعویٰ کرے گا تو لوگ اس پر اعتبار کرنے کے بجائے‘اسے حقیقت کی نظر سے دیکھیں گے۔یوں سیاست دانوں کے لیے بھی بلند بانگ دعوے کرنا مشکل ہو جا ئے گا۔ سیاست کی یہی وہ حقیقتیں ہیں جنہیں سامنے رکھ کر میکیاولی اور نظام الملک طوسی جیسے سیاسی مفکرین نے حکمرانی کے آداب کو موضوع بنایا اور اس پر کتابیں لکھیں۔میکیاولی نے اس کے علاوہ کچھ نہیں کیا کہ حکمرانوں کے مروجہ طور طریقوں کو ایک نظام ِ فکرمیں ڈھال دیا۔اس نے یہ بتایا کہ عملی سیاست میں ایک رومان کے لیے کتنی جگہ ہو تی ہے۔لوگ حکمرانوں کو کوسنے کے بجائے میکاولی کو کوستے ہیں۔
جب سیاست کے اطوار مختلف ہوں توپھر اس سے مختلف نظام ِفکر کشید ہوتا ہے۔ خلافتِ راشدہ کے اسلوبِ حکومت پر تبصرہ کرتے ہوئے‘ علامہ اقبال نے کہا ''سلطنتِ اہلِ دل فقر ہے شاہی نہیں‘‘؛تاہم زمینی حقیقتوں کا سامنا سب ہی کو ہوتا ہے۔سیدناعمرؓ خواہش کے باوجود ایران اور عرب میں فائر وال نہ کھڑی کر سکے۔یوں ان کی شہادت سے شروع ہونے والا المیہ اس امت میں نہ ختم ہونے والی فرقہ واریت کے بیج بو گیا جو آج ایسی فصل بن چکی جس کو کاٹنا کسی کے بس میں نہیں۔
طالبان کے دوبارہ ا قتدار تک پہنچنے کے عمل کو اگر عقیدت اور جذبات کے حصار سے نکل کر سمجھا جائے تو سیاست اپنی تمام تر سفاکی کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہے۔میرا خیال ہے کہ اس کی ایک توجیہ عالمِ اسباب میں تلاش کی جا سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved