تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     07-09-2021

پاکستان ہمارا ہے

قانون فطرت نے عظمتوں اور رفعتوں کی تقسیم کا اپنا ایک نظام وضع کر رکھا ہے۔ کوئی بڑا سیاست دان ہوتا ہے تو کوئی بڑا مذہبی پیشوا‘ کوئی بڑا مفکر ہوتا ہے تو کوئی بڑا مصنف۔ تاہم سید علی گیلانیؒ کے بارے میں قدرت نے بڑی فیاضی سے کام لیا ہے۔ وہ بیک وقت ایک مدبر بھی تھے‘ مفکر بھی تھے‘ معلم بھی تھے‘ مصنف بھی تھے‘ شعلہ بیان مقرر بھی تھے‘ روح ِدیں کے امیں بھی تھے‘ سیاست دان بھی تھے‘ عزم و ہمت کا کوہِ گراں بھی تھے اور سب سے بڑھ کر دلوں میں گھر کر لینے والے مرشدو مربی بھی تھے۔ غرضیکہ وہ ایک ایسی درخشندہ کہکشاں تھے جس کی ضوفشانی سے پون صدی تک وادیٔ کشمیر جگمگاتی رہی۔ اس کہکشاں نے ہزاروں نہیں لاکھوں سنگ ریزوں کو گوہرہائے تابدار بنا دیا۔ یہی ولولۂ آزادی کی لو دیتے نگینے سید علی گیلانی کا پیغام اسی حدت و شدت کے ساتھ پھیلاتے رہیں گے جس جوش و جذبے سے سید موصوف دلوں کو گرمایا کرتے تھے اور انہیں ولولۂ تازہ دیا کرتے تھے۔سید صاحب کی زندگی کی کہانی پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ فطرت جن نفوسِ قدسیہ سے کام لینا چاہتی ہے تو اُن کی تعلیم و تربیت کا خود ہی بندوبست بھی کر دیتی ہے۔ سید علی گیلانی نے ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی کہ جہاں وسائل ناپید تھے۔ اُن کے والد کشمیر کے ایک پہاڑی علاقے میں ایک معمولی نوعیت کی موسمی ملازمت کرتے تھے۔ وسائل کی کمیابی بلکہ نایابی کے باوجود بقول مرشد اقبال
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
سید علی گیلانی نے بارہ برس تک بحیثیت معلم سرکاری ملازمت کی۔ پھر اسے خیرباد کہہ دیا۔ انہوں نے سرکاری ملازمت کے بعد عملی سیاست کے ذریعے غلامی کو آزادی میں بدلنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس فیصلے کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے وہ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر میں شامل ہوگئے۔ جماعت اسلامی کے مینڈیٹ سے وہ تین بار ریاستی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1987ء کی ریاستی اسمبلی میں بھارتی حکومت کی طرف سے کی گئی دھاندلی سے سید صاحب بہت دلبرداشتہ ہوئے اور 1989ء میں انہوں نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔لہٰذا انہوں نے مفاہمت سے مزاحمت کی طرف جانے کا فیصلہ کرلیا اور 7 اگست 2004ء کو تحریک حریت قائم کرلی۔ سعودی عرب میں میرے طویل قیام کے دوران سید صاحب 1995ء سے لے کر 2006ء تک تین چار بار ارضِ مقدس تشریف لائے؛ تاہم مجھے اُن سے شرفِ ملاقات حاصل نہ ہوسکا۔ البتہ میں آزاد کشمیر کے امیر جماعت اسلامی اور وہاں کے سابق رکن پارلیمنٹ جناب عبدالرشید ترابی سے سید علی گیلانی کی صحت و عافیت اور مقبوضہ کشمیر کے احوال دریافت کرتا رہا ہوں۔ گزشتہ شب میں نے جناب عبدالرشید ترابی سے درخواست کی کہ وہ سید صاحب کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کی کچھ جھلکیاں ہمارے ساتھ شیئر کریں۔ سید صاحب نے بتایا کہ 2006ء حج کے موقع پر رابطہ عالم اسلامی کے اجلاسوں کے دوران ایک روز سید علی گیلانیؒ کی خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز سے ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر سید صاحب نے سعودی فرمانروا کو بتایا کہ بھارت کس طرح سے بھارتی و کشمیری مسلمانوں پر ظلم ڈھاتا ہے اور اُن کے انسانی حقوق بری طرح پامال کرتا ہے۔ سید صاحب نے شاہ عبداللہ سے التماس کی کہ وہ جنوری 2006ء میں بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر اپنا مجوزہ دورہ منسوخ کر دیں تاکہ بھارت کو معلوم ہو کہ بھارتی و کشمیری مسلمانوں کا کوئی پرسانِ حال ہے۔ سید صاحب نے یہ بھی کہا کہ اگر آپ کے لیے یہ دورہ منسوخ کرنا ممکن نہ ہو تو پھر آپ بھارتی حکمرانوں کو باور کرائیں کہ اسلامی دنیا کے تمام ممالک بھارتی و کشمیری مظلوم بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سید موصوف نے شاہ کے مہمان ہونے کے باوجود دورے کی منسوخی کا مطالبہ کرتے ہوئے کسی مداہنت سے کام نہیں لیا تھا۔ ترابی صاحب نے بتایا کہ سید علی گیلانی سے کئی دہائیوں پر پھیلی ہوئی ملاقاتوں میں ہم نے کبھی اُن کے منہ سے مایوسی کا کلمہ نہیں سنا۔ انہیں آزادی کے مشن میں فتح مبین کا اسی طرح یقین تھا جیسے رات کے بعد طلوع آفتاب کا یقین ہوتا ہے۔
ایک بار ایک انڈین صحافی نے سید صاحب کا تفصیلی انٹرویو کیا اور اُن سے پوچھا کہ آپ نے ایسا غیرلچکدار رویہ کیوں اختیار کر رکھا ہے؟ افہام و تفہیم کے کئی راستے نکل سکتے ہیں آپ ان راستوں سے استفادہ کیوں نہیں کرتے؟ صحافی نے یہ بھی کہا کہ بھارت کے پاس بہت بڑی عسکری قوت ہے۔ جرنلسٹ کا کہنا یہ تھا کہ اس طرح تو آپ بھارت کے مقابلے میں کبھی کامیابی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ اس کے جواب میں سید موصوف نے فرمایا کہ ہماری کامیابی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہمارا موقف حق پر مبنی ہے جبکہ بھارت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ اُس کی ساری عمارت جھوٹ پر قائم ہے۔
آزادی کی جنگ لڑنے والوں میں جنوبی افریقہ کے عظیم رہنما نیلسن منڈیلا بہت شہرت یافتہ ہیں۔ اُن کی 750 صفحات پر مشتمل کتاب ''لانگ واک ٹو فریڈم‘‘ میں نے بہت ڈوب کر پڑھی تھی۔ بلاشبہ نیلسن منڈیلا نے 27 برس قیدوبند کی صعوبتوں کا سامنا کیا اور اُن کی قوم کو ناقابل برداشت ظلم و جبر سے گزرنا پڑا۔ آج میں نے نیلسن منڈیلا کی خودنوشت کی ورق گردانی کی تو میری نگاہیں ان سطور پر جم گئیں جنہیں میں انگریزی ہی میں نقل کر رہا ہوں تاکہ قارئین اصل عبارت کا لطف اٹھا سکیں۔ نیلسن منڈیلا نے رابن آئی لینڈ کی جیل کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس جیل میں دنیا کے بدترین وارڈن مقرر کیے جاتے تھے۔ منڈیلا نے لکھا کہ انسانی فطرت کے بارے میں ان کا یقین تھا کہ کوئی کتنا ہی ظالم کیوں نہ ہو مگر اس کے اندر کہیں تہہ میں چھپی ہوئی نرمی ضرور ہوتی ہے۔ جیل کے ایک ظالم کمانڈر نے رخصت ہوتے ہوئے میری ذات اور میری تحریک کے بارے میں نیک تمنائوں کا اظہار کیا؛ تاہم میں ایسے ہی ایک لمحے کا مدتوں سے منتظر تھا۔ منڈیلا نے لکھا ہے کہ میرا اعتقاد یہ ہے کہ:
It was a useful reminder that all men, even the most seemingly cold-blooded, have core of decency, and that if their hearts are touched, they are capable of changing.
منڈیلا کا یہ فارمولا نریندر مودی پر صادق نہیں آتا کیونکہ وہ سنگدلی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ بقول ڈاکٹر خورشید رضوی ؎
کب تلک پتھر کی دیواروں پہ دستک دیجیے
تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں
نیلسن منڈیلا کے مقابلے میں سید علی گیلانی کی ''لانگ واک ٹو فریڈم‘‘ اپنی شدت اور مدت کے اعتبار سے دوگنا ہے ‘مگر ''عالمی کمیونٹی‘‘ نے قبل از مرگ اور پس از مرگ منڈیلا کی بہت پذیرائی کی جبکہ سید علی گیلانی کے حقِ خودارادیت کی تائید کی گئی اور نہ ہی سلامتی کونسل کی قراردادوں کا نفاذ کیا گیا۔ سید صاحب کی وفات کے بعد اُن کے لواحقین سے اُن کی میت چھین لی گئی‘ لاکھوں لوگوں کو اُن کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھنے دی گئی بلکہ ظالمانہ اور سفاکانہ طرزِعمل اختیار کرتے ہوئے اُن کے لواحقین پر مقدمات بھی قائم کر دیے گئے۔ بنیادی انسانی حقوق کی اس پامالی پر یو این او سمیت ساری عالمی کمیونٹی مہر بہ لب ہے۔ سید علی گیلانی کو آج کے سارے سیاست دانوں پر برتری حاصل ہے۔ آپ وہی بات کہتے جسے حق سمجھتے‘ خوف تو قریب پھٹکا ہی نہ تھا۔ جھوٹ وہ ہرگز نہ بولتے تھے اور تردّد یا کنفیوژن سے تو اُن کی واقفیت ہی نہ تھی۔ وہ مجموعہ امراض تھے مگر اُن کے دبنگ لہجے کی کھنک آخردم تک قائم رہی۔ اس لہجے میں وہ بہ آوازِ بلند نعرہ لگاتے جس کی تائید ہزاروں کا مجمع کرتا‘ہم ہیں پاکستانی‘ پاکستان ہمارا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved