تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     07-09-2021

بھولی بسری شخصیات…گھوکھلے اور داس

انیسویں صدی کے آخری عشروں میں جو دو روشن ستارے ہندوستان کے سیاسی اُفق پر اُبھرے۔ بدقسمتی سے قبل از وقت وفات نے ان دونوں کو اپنا کردار مکمل کرنے کا موقع نہ دیا۔ ایک گھوکھلے تھے اور دوسرے داس۔دونوں ہی وسیع القلب‘ غیر متعصب‘ روشن دماغ‘ انسان دوست‘ لبرل اور سیکولر (ان دونوں الفاظ کااُردو میں ترجمہ نہیں کیا جا سکتا) تھے۔ گوپال کرشن گوکھلے 9 مئی 1866 ء کو پیدا ہوئے اور 48 برس کی عمر پا کر 19 فروری1915 ء کو وفات پائی۔ اُنہوں نے تدریس کا شعبہ اختیار کیا اور پونا کے سکول میں 35 روپے ماہانہ کی تنخواہ پر پڑھانے لگے۔ ایک سال بعد وہ پونا کے فرگوسن کالج میں بطور لیکچرار پڑھانے لگے جہاں وہ ہندوئوں کے ایک بڑے قد کاٹھ کی رہنما مہادیوگووند رنادے کی نظر میں آگئے جو سماجی اصلاح کو انگریزوں سے آزادی کا پہلا مرحلہ سمجھتے تھے۔ اُنہیں Sarvajanik Sabhaکمیشن کا رکن نامزد کیا گیا۔ اُن کے مذکورہ بالا سرپرست نے انہیں 1897ء میں لندن بھیجا کہ وہ ہندوستان میں حکومتی اخراجات کا جائزہ لینے کیلئے Lord Werby کی سربراہی میں بنائے گئے کمیشن کے سامنے پیش ہو کر ہندوستانیوں کا نقطہ نظر بیان کر سکیں۔ 1899 ء میں گوکھلے انتخابی سیاست کے میدانِ خارزار میں اُترے۔ وہ پہلے بمبئی کونسل کے رکن اور 1901 ء میں Imperial Legislative Councilکے رکن چنے گئے۔سروجنی نائیڈو کا جو قول بہت مشہور ہوا کہ اُنہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہا۔ سروجنی نے یہ قول گھوکھلے سے مستعار لیا تھا۔ جب سروجنی نے اُمید ظاہر کی کہ اگلے پانچ سالوں میں ہندو مسلم اختلافات رفع ہو جائیں گے تو گوکھلے نے یہ تبصرہ کیا کہ سروجنی تو شاعرہ ہیں اور شاعر خواب دیکھتے ہیں۔ اُن کے خیال میں یہ خواب اُن دونوں کی زندگی میں شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔ دو انگریز کانگریس کے ہمدرد اور قریبی دوست تھے ایک کا نام تھاWilliam Worrbes اور دوسرا تھاHenry Cotton۔ اُنہوں نے برطانیہ ایک وفد بھیجنے کا اہتمام کیا تاکہ وہ برطانوی سیاست دانوں سے مل سکیں۔ اس وفد میں گوکھلے کے علاوہ مرینہ و ناتھ بینر جی‘قائد اعظم محمد علی جناح اور لالہ لاجپت رائے شامل تھے۔ کانگریس کے ایک اور وفدنے مطالبہ کیا کہ ہندوستان پر حکومت کر نے والی انڈین کونسل کے ایک تہائی اراکین کو صوبائی قانون ساز اسمبلیوں کے ہندوستانی اراکین کو منتخب کرنا چاہئے۔ گوکھلے کا سیاسی موقف یہ تھا کہ (آزادی کے بعد) جو نیا ہندوستان معرض وجود میں آئے گا وہ نہ ہندوئوں کا ہوگا اور نہ مسلمانوں کا بلکہ ان دونوں کا اور ہندوستان میں رہنے والی تمام قوموں کا مشترکہ ہوگا۔ فرقہ وارانہ ہم اہنگی اور پُرامن بقائے باہمی کیلئے گوکھلے بار بار کہتے تھے کہ زیادہ بڑی ذمہ داری ہندوئوں پر عائد ہوتی ہے چونکہ وہ آبادی اور تعلیم میں مسلمانوں سے آگے ہیں۔ ہندوئوں کا فرض ہے کہ مسلمانوں کے ذہنوں میں اُن تمام خدشات کو دیانتداری سے تسلیم کریں جو قدرتی طور پر ہر اقلیت کے ذہن میں جنم لیتے ہیں۔ اُنہوں نے مسلمانوں کو بھی یہ دوستانہ مشورہ دیا کہ وہ مان لیں کہ جو انگریز ہندوستانیوں کے جذبۂ آزادی اور حب الوطنی کی قدر کرتے ہیں وہ بھی مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں۔ انگریز مسلمانوں کی صرف ایک حد تک مدد کریں گے۔ قابلِ تعریف بات یہ ہے کہ وہ مسلمان جو گوکھلے سے ہر گز متفق نہ تھے وہ بھی ان کی نیک نیتی اور اخلاص کی بے حد قدر کرتے تھے۔ وہ لکھنؤ گئے تو علی گڑھ یونیورسٹی کے منتظم نواب محسن الملک اورراجہ آف محمود آباد اُن کے میزبان بنے۔ وہ علی گڑھ گئے تو طلبہ ان کی بگھی سے گھوڑوں کو ہٹا کر اسے خود کھینچ کر لے گئے۔ علی گڑھ کی سڑکیں گوکھلے زندہ باد کے نعروں سے گونج اُٹھیں۔ علی گڑھ کی ہوا میں وہ آوازیں ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گئیں‘ 110 سال گزر جانے کے بعد (مودی کے بھارت میں) اُن کی بازگشت سننا ممکن نہیں رہا۔
گھوکھلے کے بعد اب ہم داس کی طرف چلتے ہیں جن کا پہلا نام چترارانجن تھا۔ گوکھلے کا تعلق مہاراشٹر سے تھا اور داس کا بنگال سے جہاں وہ کلکتہ میں 5 نومبر1870 ء کو پیدا ہوئے اور45 برس عمر پاکر آسام کے خوبصورت پہاڑی شہر دارجلنگ میں 16 جون1925 ء کو وفات پائی۔لوگ اُنہیں محبت اور اپنایت سے ''دیش بندھو‘‘ (محب الوطن) کہتے تھے۔ وہ شاعر اور وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ بلند مرتبہ سیاست دان بھی تھے۔ وہ کلکتہ کے Presidency College (جسے تین سال قبل کالم نگار دیکھنے گیاتھا) کے گریجوایٹ بننے کے بعد قانون کی اعلیٰ تعلیم کیلئے لندن گئے۔ Inner Temple سے وابستہ ہو کر 1890 ء میں بیرسٹر بنے۔ وہ چار اچھی کتابوں کے مصنف تھے اور رابندر ناتھ ٹیگور اور سرت چندر چیٹرجی جیسے عالمی شہرت کے ادیبوں کے ہم عصر ہونے کے باوجود اُن کی ادبی خوبیوں کو سراہا گیا۔ اُنہیں بطور وکیل Sri Aurobindo (ہفت روزہ بندے ماترم کے مدیر) کے دفاع میں وکالت نے بڑی شہرت دلوائی۔ وہ 1919 ء میں تحریک خلاف کے دوران مہاتما گاندھی کے ساتھی بنے اور گرفتار کر لئے گئے۔ اُن کی بیوی‘ بہن اور بیٹا بھی ان کے ساتھ جیل گئے۔ وہ برطانوی حکومت کی طرف سے اعلان کردہ اصلاحات (Montagu-Chelmsford) کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ اُنہیں گاندھی کی سول نافرمانی کی تحریک کی حمایت کیلئے اپنا ذہن بدلنے میں ایک سال لگا۔ 1922ء میں اُنہوں نے پنڈت موتی لال نہرو کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی جماعت (سوراج پارٹی) بنائی جو برطانوی حکومت کی بنائی ہوئی کونسلوں کے رکن بن جانے کے حامی تھے۔ C.R.Das اپنے خیالات کی وجہ سے مسلمانوں میں بھی بہت پسند کئے جاتے تھے۔ وہ اپنے آپ کو قدامت پسند ہندو کہنے سے نہیں شرماتے تھے مگر اُن کے دل میں ہندئو دھرم میں غیر برہمنوں اور مسلمانوں کیلئے کسی قسم کا کوئی تعصب نہ تھا۔ اُن کا راسخ یقین تھا کہ ہندومسلم اتحاد کے بغیر ہندوستان انگریزوں سے کبھی آزادی حاصل نہیں کر سکتا۔
کلکتہ کی کارپوریشن کے پہلے بلدیاتی انتخابات ہوئے تو دیش بندھو اس کے پہلے میئر بنے اور اُنہوں نے بنگال پیکٹ کو عملی شکل دی۔ اس نئے بندوبست کی بدولت مسلمانوں کو اپنی آبادی کی بنیاد پر (جداگانہ انتخابات میں) بنگال کے مسلمانوں کو بنگال کی قانون ساز اسمبلی (کونسل) کی رکنیت ملنے کا امکان پیدا ہوا۔ اُنہیں مقامی حکومتوں میں عوامی نمائندوں کی نشستوں میں 60 فیصد حصہ اور سرکاری ملازمتوں میں 55 فیصد حصہ ملتا۔ قربانی کیلئے گائے کو ذبح کرنے پر کوئی پابندی نہ لگائی گئی۔ انہوں نے اپنے مخالفوں کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ بنگال پیکٹ پر خط ِ تنسیخ پھیر سکتے ہیں مگر آپ انڈین نیشنل کانگرس سے بنگال کو نہیں نکال سکتے۔ اس تاریخی سمجھوتے کی بدولت داس کی مقبولیت میں اتنا اضافہ ہوا کہ وہ نومبر 1923ء میں کونسل (اسمبلی) کے ہونے والے انتخابات بڑی اکثریت سے جیت گئے۔ داس کی سب سے بڑی خوبی اُن کا کشادہ ذہن اور وسیع القلبی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف عوام کی آنکھ کا تارا تھا بلکہ حسین شہید سہروردی‘ مولانا ابوالکلام آزاد اور چودھری رحمت علی جیسے بڑے لوگوں نے بھی اُن کی عظمت کا اعتراف کیا اور خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اتنے بڑے آدمی پر آج تک صرف ایک کتاب لکھی گئی۔ مصنف: ایس آر بخشی، جو انمول پبلشرزدہلی نے شائع کی۔ وہ بنگال‘ جس نے ٹیگور اور نذر السلام کو بھلا دیا وہ سی آر داس کو یاد رکھے تو کیونکر؟ وہ مرے تو اُن کی راکھ سینکڑوں میل دور بنارس کے قریب گنگا میں بہائی گئی مگر وہ بہتے بہتے اُس بنگال سے گزری‘ جو داس کی جنم بھومی تھا‘اُنہیں دیش بندھو کہنے والوں کو الوداع کہتے ہوئے خلیج بنگال میں جا گری۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved