تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     20-07-2013

کلاشنکوف سے مکالمے تک (آخری قسط)

عدنان رشید نے ملالہ یوسف زئی کے نام خط میں مزید لکھا ہے کہ ’’کیا ان (عالمی منصوبوں) میں اسلامی شریعت یا اسلامی قانون کے لیے کوئی جگہ ہے جنہیں اقوام متحدہ بے رحمانہ اور نامہربان قرار دیتی ہے؟ آپ نے پولیو ٹیموں پر حملوں کے بارے میں بات کی ہے۔ کیا آپ اس سوال کا جواب دیں گی کہ 1973ء میں اس وقت کے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری کسنجر‘ جو کہ ایک یہودی ہیں‘ نے یہ کیوں کہا تھا کہ تیسری دنیا کی آبادی 80 فیصد کم کردی جانی چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی چھتری تلے مختلف ممالک میں مختلف ناموں سے اصلاح نسل کے اور نسل کشی کے قابل نہ رہنے دینے کے پروگرام کیوں چلائے جا رہے ہیں۔ صرف ازبکستان میں دس لاکھ سے زیادہ مسلم خواتین کو ان کی مرضی کے خلاف بالجبر بانجھ کردیا گیا۔ برٹرینڈ رسل نے اپنی کتاب ’’دی امپیکٹ آف سائنس آن سوسائٹی‘‘ میں لکھا تھا: ’’خوراک‘ انجیکشن اور حکومتی احکامات سے ہر فرد کو اپنی زندگی کی ابتدا ہی سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہ سارے عوامل مل کر افراد کے ایسے کردار اور ان میں ایسے اعتقادات پیدا کرنے کا باعث بنیں گے جو حکمران اپنے لیے موافق خیال کریں گے۔ اس طرح برسراقتدار آنے والی طاقت پر سنجیدہ نوعیت کی تنقید نفسیاتی لحاظ سے ناممکن ہو کر رہ جائے گی‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ پولیو ویکسی نیشن کے پروگرام کے بارے میں ہمیں اتنے زیادہ تحفظات ہیں۔ آپ نے کہا کہ ملالہ ڈے آپ کا دن نہیں ہے بلکہ یہ ہر اس فرد کا دن ہے جس نے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ جس طرح کا دن آپ کے نام پر منایا گیا ویسا راکیل کوری کے نام پر کیوں نہیں منایا جاتا۔ صرف اس لیے کہ اس کو ہلاک کرنے کے لیے استعمال ہونے والا بلڈوزر اسرائیلی تھا؟ (یاد رہے کہ راکیل کوری بین الاقوامی یک جہتی تحریک کی رکن اور امن کی علمبردار خاتون تھیں‘ جسے 2003ء میں اسرائیلی بلڈروں نے کچل کر ہلاک کردیا تھا) ایسا دن عافیہ صدیقی کے نام پر کیوں نہیں منایا جاتا‘ کیا اس لیے کہ اس ساری خرابی کے ذمہ دار امریکی ہیں؟ ایسے دن فیضان اور فہیم کے نام پر کیوں نہیں منائے جاتے‘ اس لیے کہ ان کا قاتل ریمنڈ ڈیوس تھا؟ میں آپ سے ایک اور سوال پوچھنا چاہتا ہوں اور برائے مہربانی اس کا جواب پوری ایمانداری سے دیجیے گا۔ اگر آپ کسی امریکی ڈرون حملے میں زخمی ہو جاتیں تو کیا اس صورت میں بھی دنیا کو آپ کی طبی صورتحال کے بارے میں اتنی ہی تشویش لاحق ہوتی اور کیا تب بھی آپ کو ’’دُخترِ ملت‘‘ کا نام ملنا تھا؟ کیا تب بھی میڈیا آپ کو اتنی ہی کوریج دیتا؟ کیا عالمی میڈیا آپ کی طرف اسی گرامی سے متوجہ ہوتا؟ کیا اس صورت میں بھی جنرل کیانی آپ کی عیادت کے لیے تشریف لاتے؟ کیا تب بھی آپ کو اقوام متحدہ بلا کر اتنی پذیرائی دی جاتی؟ کیا تب بھی ملالہ ڈے منایا جاتا؟ اب تک تین سو سے زائد معصوم‘ بے گناہ خواتین اور بچے ڈرون حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں لیکن ان ہلاکتوں پر کس نے توجہ دی؟ اس لیے کہ حملہ کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ’’پُرامن ‘‘امریکی ہیں؟ ایسا کوئی دن ان سولہ معصوم افغان خواتین اور بچوں کے نام سے کیوں نہیں منایا جاتا جن کو ایک امریکی رابرٹ بیلاس نے گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا۔ اس لیے کہ بیلاس ایک طالب نہ تھا۔ جو دردمندی آپ نے پاک پیغمبرﷺ سے سیکھی کاش پاک فوج بھی اس سے آگاہ ہوتی تاکہ وہ فاٹا اور بلوچستان میں لوگوں کا خون بہانا بند کردیتی۔ میری خواہش ہے کہ جو ترحّم آپ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سیکھا امریکہ اور نیٹو بھی اس کا علم رکھتے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کا خون بہانے سے باز آ جاتے۔ میں یہی خواہش برما اور سری لنکا میں بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرنے والے بدھ کے پیروکاروں سے بھی رکھتا ہوں اور بھارتی فوج سے بھی امید کرتا ہوں کہ وہ گاندھی جی کی سوچ اپنائے اور کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی ترک کردے اور پھر باچاخان کی پیروکار اے این پی‘ جس نے خیبرپختونخوا میں اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں عدم تشدد کی مثال قائم کی۔ اس سلسلے میں سوات کی مثال پیش کی جا سکتی ہے جہاں باچا خان کے پیروکاروں نے ایک گولی بھی نہ چلنے دی اور جیٹ طیاروں‘ ٹینکوں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے عدم تشدد کے فلسفے پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا۔ آخر میں‘ میں آپ سے کہوں گا کہ گھر واپس آ جائیں‘ اسلامی اور پشتون ثقافت اپنائیں‘ اپنے گھر کے نزدیک خواتین کے لیے بنے کسی بھی اسلامی مدرسے میں داخل ہو جائیں‘ قرآن پاک کا مطالعہ کریں اور اس سے سیکھیں‘ اپنا قلم اسلام اور مسلم اُمہ کی ترقی اور فروغ کے لیے استعمال کریں اور اس محدود الیٹ کی سازش کو بے نقاب کردیں جو پوری نسل انسانی کو اپنے مذموم ایجنڈے کی خاطر غلام بنا کر رکھنا چاہتی ہے اور ا س سارے عمل کو نیو ورلڈ آرڈر کا نام دیتی ہے۔ ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو پوری کائنات کا خالق و مالک ہے‘‘۔ مکتوب نویس عدنان رشید کا تعلق پاکستان ایئر فورس سے تھا۔ ایئرفورس کے ارکان کسی ملک کے دفاعی شعبے میں اعلیٰ ترین صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ چونکہ جیٹ طیاروں کو اڑانے کے لیے انتہائی مضبوط اور متحرک ذہنی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ایئرفورس میں آفیسرز کیڈر کی بھرتی کرتے ہوئے اور ان کی درجہ بدرجہ ترقی کے دوران انہیں کئی طرح کے امتحانات سے گزارا جاتا ہے۔ ان کی علمی سطح‘ فکری معیار‘ دبائو کو برداشت کرنے کی صلاحیت‘ ذہنی صلاحیت‘ علمی پس منظر‘ اعصابی طاقت اور نفسیاتی استحکام ہر چیز کا اعلیٰ درجے کے ماہرین جائزہ لیتے ہیں اور عملی امتحانات لینے کے بعد فیصلے کرتے ہیں کہ کیا وہ پیشہ ورانہ معیار پر پورا اترنے کے قابل ہے۔ یہ خط پڑھنے کے بعد پاکستان کی دفاعی فورسز کو جائزہ لینا چاہیے کہ کیا اپنی سروسز کے لیے انتخاب کرتے وقت وہ یہ ساری شرائط پوری کرتے ہیں؟ اگر کرتے ہیں تو عدنان رشید پاکستان ایئرفورس کا حصہ کیسے بن گیا؟ اور اس سے زیادہ جن لوگوں نے کمیٹیوں اور سلیکشن بورڈز میں بیٹھ کر اس کا انتخاب کیا‘ کیا وہ اس کام کے اہل تھے؟ کہیں آوے کا آوا ہی تو نہیں بگڑا ہوا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved