بتایا گیا ہے آج کل مقابلے کے امتحان میں ایک سوال امیدواروں سے پوچھا جارہا ہے کہ نااہل یا کرپٹ افسر میں سے کون بہتر ہے؟
منصور نے یہ سوال ٹویٹر پر شیئر کیا تو ایک بحث چھڑ گئی۔ اکثر کا کہنا تھا کہ کرپٹ ہی بہتر ہے کہ جیب بھرنے کیلئے کچھ کام تو کرے گا‘ نااہل سارا دن مکھیاں مارے گا اور نااہلی کو ایمانداری کا درجہ دے کر داد بھی وصول کرے گا۔دلچسپی کی بات ہے کہ تیسرا آپشن نہیں رہا ہمارے پاس کہ بندہ قابل بھی ہو اور ایماندار بھی۔ ویسے میرا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ ساری عمر اسی قسم کے افسروں سے اکثر واسطہ پڑا۔ یا نااہل تھے یا کرپٹ۔ حسرت ہی رہی کوئی قابل بھی ہو اور ایماندار بھی۔
یاد آیا کہ پرویز مشرف کے ابتدائی سالوں کا ذکر ہے انگریزی اخبار میں ایک رپورٹر نے گریڈ بائیس کے ایک افسر کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیے کہ بہت ایماندار ہیں۔ ڈاکٹر ظفر الطاف ان دنوں سیکرٹری زراعت تھے اور وہ افسر اُن سے چند سال پہلے سیکرٹری کے طور پر سرو کر چکے تھے۔ جس صبح اس افسر کی شان میں قصیدہ چھپا تو ان سے ملاقات ہوئی‘ کہنے لگے: آپ صحافیوں کا کسی افسر کی ایمانداری اور قابلیت کا معیار کیا ہے؟ میں نے کہا :ہمارے ہاں تو ایک ہی بات ایمانداری سمجھی جاتی ہے کہ وہ بندہ کسی کام کے پیسے نہ لیتا ہو اور کام بھی کرتا ہو۔وہ بولے: اچھا رکو۔انہوں نے فون کر کے کسی کو کچھ کہا‘ تھوڑی دیر بعد ایک سیکشن افسر فائلوں کا انبار اٹھائے اندر داخل ہوا۔ اسے کہا :اس افسر کے ان فائلوں پر کیے گئے فیصلے نکال کر انہیں دکھائیں۔ وہ سیکشن افسر ساتھ بیٹھ گیا اور اس نے وہ فائلیں کھولنا شروع کر دیں۔ ہر سمری یا نوٹ کے آخر پر جہاں اس سیکرٹری سے فیصلہ کرنے کو کہا گیا تھا‘ اس پر سیکرٹری نے صرف ایک ہی جملہ لکھا ہوا تھا:please discuss noted۔میں حیران ہوا کہ وہ بندہ ایک سال سے زیادہ سیکرٹری زراعت رہااور تقریبا ًدرجن بھر فائلوں پر یہ تین الفاظ لکھے ہوئے تھے جن پر سیکرٹری سے فیصلہ مانگا گیا تھا۔
ڈاکٹر صاحب کہنے لگے: بیوروکریسی میں تم لوگوں کو ایماندار وہی لگتا ہے جو سارا دن مکھیاں مارے‘ کسی فائل پر ڈر کے مارے فیصلہ نہ کرے یا اتنا نااہل ہو کہ وہ فیصلہ نہ کرسکے کہ کرنا کیا ہے۔وہ کہنے لگے: مجھے عمر بھر اس بات پر نشانہ بنایا گیا کہ میں رولز اینڈ ریگولیشنز کی پروانہیں کرتا۔ ہنس کر کہنے لگے: اب یہ صاحب رولز کی پروا کرتے تھے اور ایک بھی فیصلہ نہ کرسکے اور آپ لوگوں سے ایمانداری کا سرٹیفکیٹ لے کر ریٹائرڈ بھی ہوگئے اور آج پورے خاندان کو وہ اخبار بھیجیں گے کہ دیکھا کیسا ایماندار تھا میں۔ کہنے لگے: انہی کے دور میں زراعت اور کسان نیچے گئے۔ اب مجھے سمجھائیں زراعت کو ان رولز کے تحت کیسے چلایا جاسکتا ہے جو ان افسران نے بنائے جو کبھی کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد سے باہر نہیں نکلے؟ زراعت کا سارا دارومدار موسم پر ہوتا ہے۔ موسم کتابوں میں رکھے ان رولز کے مطابق چلتے ہیں؟ رولز پر فنانس منسٹری چلائی جاسکتی ہے زراعت نہیں۔ڈاکٹر صاحب کہتے تھے کہ کسی بھی افسر کی قابلیت یا ایمانداری کا جائزہ لینا ہو تو اس کے فیصلوں سے لیا کرو۔ فیصلے غلط بھی ہوسکتے ہیں لیکن اگر ان فیصلوں میں ذاتی فائدہ نقصان کا کوئی عنصر نہیں تو ان کے نزدیک وہ افسر اچھا بھی ہے اور ایماندار بھی۔ اب کوئی افسر عمر بھر کسی فائل پر فیصلہ نہ کرے ‘ اپنے کسی فیصلے کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہ ہو اور سپیک پلیز یا نوٹڈ پلیز‘ فائل پلیز لکھتا رہے تو وہ ایماندار ہی کہلائے گا۔ مزہ تو تب ہے جب وہ پوری فائل پڑھے اور پھر فیصلہ کرے کہ کیا کرنا ہے۔ فائل فیصلہ کیے بغیر واپس کردینے سے زیادہ کرپشن اور نااہلی کیا ہوسکتی ہے؟ وہ کہتے تھے کہ میں دن میں درجنوں فیصلے کرتا ہوں‘فائلوں پر نوٹ لکھتا ہوں۔ یہ میرا کام ہے‘ اگر نہیں کرسکتا تو مجھے اس عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں ۔
خیر اپنے ان فیصلوں کی سزا بھی ڈاکٹر ظفر الطاف نے بہت بھگتی کہ ان پر نیب نے آڈٹ پیروں کی بنیاد پر مقدمے بنائے۔ وہ ہنستے ہوتے تھے کہ یہ مقدمات بننے کی ایک ہی وجہ ہے کہ فیصلے کیوں کیے‘ یہ نہیں دیکھتے کہ ان فیصلوں سے مجھے یا میرے خاندان یا میرے رشتہ داروں کو ذاتی فائدے ہوئے تو پھر یقینا سزا ملنی چاہئے۔ وہ تو اللہ بھلا کرے ہمارے کراچی کے بیوروکریٹ دوست اقبال دیوان کا‘ جن کی جاننے والی ایک خاتون وکیل ان دنوں نیب میں اس سیکشن میں کام کرتی تھیں اور کسی کی گرفتاری کے آرڈر جاری ہونے سے پہلے وہ فائلیں پڑھتی تھیں۔ ان سے اقبال دیوان نے ذکر کیا کہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے‘ حکم دے دیا گیا تھا کہ کسی طرح انہیں گرفتار کرو‘ اس سے پوری بیوروکریسی ڈر جائے گی کیونکہ ان کا بڑا نام تھا۔ ڈاکٹر صاحب سے ناراضی کی وجہ ان کا بینظیر بھٹو‘ آصف زرداری اور نواب یوسف تالپور کے خلاف بیلارُس ٹریکٹر ریفرنس میں وعدہ معاف گواہ بننے سے انکار تھا۔اس خاتون کا اللہ بھلا کرے کہ اس نے فائلیں پڑھیں اور اٹھا کر باہر پھینک دیں کہ یہ کیا ٹریش اکٹھا کر لائے ہو۔ ڈاکٹر صاحب کے کیے گئے فیصلوں سے وہ متاثر ہوئیں۔ جب برسوں بعد اقبال دیوان نے اس پراسیکیوٹر کو ڈاکٹر صاحب کی موت کی خبر دی تو آنسو بہاتی رہیں۔
مجھے خواہش ہی رہی کہ کوئی افسر ملتا جو ایماندار ہو اور قابل بھی‘ اور اسے ہم برداشت بھی کرتے۔ طارق کھوسہ سابق ڈی جی ایف آئی اے یا زبیر محمود آئی جی بلوچستان کے نام فوری طور پر ذہن میں آتے ہیں جو ایماندار بھی تھے اور قابل بھی اور دھڑلے سے نوکری کی اور عزت کمائی۔ انہیں ریٹائرڈ ہوئے برسوں گزر گئے لیکن آج بھی ان کا نام عزت سے لیا جاتا ہے۔ پولیس فورس کے نوجوان افسر اگر عزت چاہتے ہیں تو طارق کھوسہ اور میر زبیر محمود کو اپنا رول ماڈل بنا سکتے ہیں‘ اگر وہ پیسے دے کر ڈی پی او یا آر پی او لگنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
ڈی ایم جی افسران کے نام فوراً ذہن میں نہیں آتے جو اس موجودہ لاٹ میں ہوں جو آپ کو متاثر کرنے کی سکت رکھتے ہوں۔ کبھی ضرور تھے اب نہیں رہے۔ ڈی ایم جی افسروں کی ایک کلاس تھی ‘ شان تھی اور ان میں ایک جرأت تھی۔ وہ افسران جو بہادرانہ فیصلے کرتے تھے‘ اپنے وزیروں کے آگے ڈٹ جاتے تھے۔ وزیراعظم تک کو ناں کردیتے تھے۔ اب تو جونیئر پرنسپل سیکرٹری گرین فون پر غلط کام کہے تو کہیں سے مزاحمت نہیں ہوتی۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں جائیں تو پتا چلتا ہے کہ کلرک بادشاہ یا سپرنٹنڈنٹ صاحبان ترقیاں لے کر وفاقی سیکرٹری لگ گئے ہیں۔ کبھی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں اس لیے جا کر رپورٹ کرتے تھے کہ اعلیٰ ذہن کے مالک افسران کی گفتگو سننے کو ملتی۔ اب اگر بیوروکریسی کا زوال دیکھنا ہو تو ان اجلاسوں میں جائیں اور ان کی سطحی گفتگو سنیں۔
کوئی شک نہیں کہ کرپشن کو قابلِ قبول بنانے میں مشرف دور کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس سے پہلے بھی کرپشن موجود تھی لیکن اسے برا سمجھا جاتا تھا۔ نیب کے پلی بارگین نے سب کچھ تباہ کر دیا۔ وہی لوگ جو منہ چھپاتے تھے‘ ڈیلیں کر کے باعزت باہر نکلے۔ ایک ارب روپے لوٹے‘ تیس کروڑ خزانے میں جمع کرائے‘ دس بیس کروڑ نیب افسران میں بانٹے باقی کے پچاس کروڑ جیب میں ڈال کر وکٹری کا نشان بناتے معزز بن کر گھر پہنچ گئے اور وہیں سے کام شروع کیا جہاں چھوڑ کر گئے تھے۔جو کرپٹ سمجھے جاتے تھے انہیں مشرف نے اعلیٰ عہدے دیے۔ پنجاب کے چوہدری نیب کے ملزم تھے لیکن مشرف نے انہیں سیاسی گاڈفادر بنایا جبکہ عمران خان جنہیں پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکوکہتے تھے‘ انہیں ووٹ دلوا کر بڑے عہدے دلائے۔ تو اس دور میں مقابلے کے امتحان میں یہ سوال افسر بننے کے خواہش مند نوجوانوں سے واقعی پوچھنا بنتا ہے کہ نااہل اور کرپٹ میں سے کون بہتر ہے؟