زندگی میں کچھ واقعات انسانوں سے زیادہ دل رُبا ہوتے ہیں ۔اس کا احساس مجھے اس رات ہوا جب ہم ایک کانفرنس کی شرکت کے لیے بھارت کے شہر گوا میں تھے۔ اس بات کو گزرے تقریباً دو دہائیوں کا عرصہ بیت گیا لیکن لگتا ہے یہ کل کی بات ہے۔ کانفرنس سوشل سائنسز کی ایک عالمی تنظیم کے زیرِ اہتمام تھی اور اس میں پاکستان کی نمائندگی یونیورسٹی کے تین اساتذہ کر رہے تھے‘ جن میں میرے علاوہ قائداعظم یونیورسٹی کے سید وقار علی شاہ اور اسی یونیورسٹی کی ڈاکٹر سلمیٰ ملک شامل تھیں۔ ہوٹل کی حدود کو چھوتا ہوا ساحلِ سمندر تھا جہاں ہر طرف سفید رنگ کی پاؤڈر جیسی ریت پھیلی ہوئی تھی۔ وہیں مختلف رنگوں کے بینچ رکھے تھے جہاں بیٹھیں تو بحیرہ عرب کے لامتناہی پانیوں کا سلسلہ نظر آتا تھا۔ یہ نومبر کا مہینہ تھاجب یہاں موسم خوشگوار ہوتا ہے۔اس شام ڈنر سے فارغ ہوکر ہم ایک جگہ بیٹھے تھے۔ شام کے وقت یہاں ہوا میں ایک ہلکی سی خنکی بس جاتی تھی جس کا تاثر خوش گوار ہوتا۔ ادھر اُدھر کی باتیں ہو رہی تھیں۔ دور بحیرہ عرب کے پانیوں کا شور تھا۔ تب ڈاکٹر وقار نے ہمیں ایک کہانی سُنائی جو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی میرے ذہن میں جھلملاتی رہتی ہے۔ ڈاکٹر وقار نے اپنی موٹے شیشوں والی عینک کو صاف کیا اور کہنے لگے :یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ میری پی ایچ ڈی کا موضوع خدائی خدمت گار تحریک تھا۔ یہ 1994ء کی بات ہے میری استاد جوڈتھ براؤن میری تحقیق میں ہر ممکن مدد کر رہی تھی۔ انہی کے کہنے پر میں نے ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا لیکن ہندوستان میں رہائش کا بندوبست کہاں ہوگا‘ میں اسی سوچ بچار میں تھا کہ اچانک مجھے انیل سیٹھی کا خیال آیا۔انیل سیٹھی ان دنوں کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ ا نیل سیٹھی کا گھر دہلی میں تھا لیکن اس کے آباؤاجداد کا تعلق تلہ گنگ سے تھا۔ اتفاق دیکھئے کہ میری استاد جوڈتھ براؤن اور انیل سیٹھی کے استاد کرس بیلی اچھے دوست تھے۔ ان کی وجہ سے ہماری بھی دوستی تھی۔جب انیل سیٹھی کو پتا چلا کہ میں ہندوستان جا رہا ہوں تو وہ بولا کہ تم دہلی جا رہے ہو تو کہیں اور نہیں رہنا‘ وہاں میرا گھر ہے وہاں پر میری ماں جی ہیں وہ خود معذور ہیں اور ان کے پاس ملازموں کے علاوہ اور کوئی نہیں رہتا ۔تم وہاں رہو گے تو انہیں خوشی ہوگی۔ انیل سیٹھی نے اتنا اصرار کیا کہ مجھے اس کی دعوت قبول کرنا پڑی ۔دہلی میں انیل کا گھر ایک پوش علاقے میں تھا ۔انیل نے اپنی والدہ کو میرے بارے میں بتا رکھا تھا۔ دیے گئے ایڈریس کے مطابق میں انیل کے گھر پہنچ گیا۔ اس کی والدہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں ۔دیر تک انیل کی باتیں کرتی رہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں میری تحقیق کا موضوع 1933ء سے 1947ء تک صوبہ سرحد کی سیاست تھی اور میں خدائی خدمت گار تحریک اور جنگِ آزادی میں اس کے کردار پر مواد جمع کر رہا تھا ۔ میں نے تحریکِ آزادی کے ان متوالوں کی فہرست مرتب کی تھی جو خدائی خدمت گارسے وابستہ تھے‘جنہوں نے آزادی کے لیے قربانیاں دیں‘ لیکن جو ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بس رہے تھے۔ میں ہر روز تین مورتی جاتا جہاں نہرو میوزیم ہے اور اس کے ساتھ والی عمارت میں لائبریری ہے جہاں پر نادر دستاویزات اور کتابیں دستیاب ہیں۔ لائبریرین بھی میری صورت سے آشنا ہو چکے تھے اور کتابوں اور دستاویزات کے حصول میں میری رہنمائی کرتے تھے۔ شام کو تھک ہار کر میں گھر پہنچتا تو اپنے کمرے میں چلاجاتا اور سونے تک کچھ نہ کچھ پڑھتا رہتا۔میں نے تحریک آزادی میں نمایاں کردار ادا کرنے والے ان لوگوں کی فہرست بنائی تھی ۔ ان کے پتے حاصل کر کے انہیں خط لکھے تھے ۔ میں نے لائبریرین کو بھی اپنی تحقیق کے بارے میں بتایا تھاکہ اگر وہ بھی کسی ایسے شخص کو جانتے ہوں تو میری مدد کریں۔ انہیں میں نے دہلی میں انیل کے گھر کا ایڈریس بھی دیا جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا۔مختلف پتوں پر خط لکھ کر میں ہر روز جواب کا انتظار کرتا۔ وہ جنوری کی ایک ٹھٹھرتی ہوئی صبح تھی‘ میں ناشتہ کر کے لائبریری جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ مکان کی گھنٹی بجی ۔میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا ۔ایک شخص جو شکل وصورت میں پڑھا لکھا اور معزز لگتا تھا‘ گیٹ کے باہر کھڑا تھا۔اس سے پہلے کہ ملازم گیٹ کھولتا میں لپک کر باہر آیا‘نجانے کیوں میرے ذہن میں خیال آیا تھا کہ یہ شخص میرے خط کے جواب میں آیا ہے۔ میں گیٹ کھول کر باہر آیا تو اس نے متانت سے کہا: معاف کیجئے یہاں پاکستان سے کوئی مہمان آکر ٹھہرے ہیں‘ مجھے ان سے ملنا ہے۔ میں نے کہا: وہ مہمان میں ہی ہوں ۔اب مجھے یقین ہو گیا کہ وہ جو کوئی بھی ہے میری تحقیق میں مدد کرنے کیلئے آیا ہے۔میں نے کہا: آپ اندر تشریف لے آئیں۔ہم ڈرائنگ روم میں جاکر بیٹھ گئے ۔اس نے اپنا تعارف کرایا کہ اس کا نام امریک سنگھ ہے اور وہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) کا چیئرمین ہے ۔اس نے بتایا کہ وہ تین مورتی گیا تھا‘ وہاں لائبریری میں کسی نے آپ کے بارے میں بتایاکہ پاکستان کے شہرپشاور سے کوئی سکالر آیا ہے۔ پشاور کا نام سن کر میرے دل میں آپ سے ملنے کی خواہش جاگ اُٹھی ۔دراصل بات یہ ہے کہ میرے ماں باپ بھی پشاور میں رہتے تھے لیکن تقسیم کے بعد ہم لوگ گھر بار چھوڑ کر ہندوستان آگئے‘ لیکن یہاں آ کر بھی میرے ماں باپ بعد میں بھی پشاور کو یاد کرتے رہے۔
تین مورتی یہاں کی ایک تاریخی عمارت ہے تقسیم سے پہلے یہ کمانڈر انچیف کی رہائش گاہ تھی۔ 15اگست کی ہندوستان کے یومِ آزادی کے بعد جواہر لال نہرو کی رہائش گاہ بن گئی ۔ بعد میں اندراگاندھی بھی یہاں رہیں لیکن کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے اپنا علیحدہ گھر بنا لیا اور اس عمارت کے رہائشی حصے کو جواہر لال نہرو میوزیم بنا دیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک عمارت بنائی جس میں نادر کتابوں اور دستاویزات پر مبنی لائبریری واقع ہے۔
امریک سنگھ کی پشاور کے ساتھ دلچسپی دیکھ کر میں نے پوچھا کہ آپ کو تقسیم کے بعد پشاور جانے کا اتفاق ہوا؟اس نے کہا: ہاں ایک بار‘یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی ۔ اس دوران ایک وقت ایسا بھی تھا جب دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئی تھی اور مختلف شعبوں میں تبادلہ ہو رہا تھا۔ انہی دنوں کی بات ہے کہ میں بھی تعلیم کے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ پاکستان گیا۔ ہماری میٹنگ صدر ضیاء الحق سے ہوئی۔ ملاقات کے بعد جنرل صاحب نے کہا کہ آپ اگر پاکستان میں کہیں جانا چاہیں تو سٹاف کو بتا دیں‘اس کا بندوبست ہو جائے گا۔ میری تو مراد بر آئی۔ پشاور کا ذکر میں نے اپنے ماں باپ سے اتنی بار سنا تھا کہ اس کے گلی کوچوں اور بازاروں سے واقف ہو گیا لیکن اتنے عرصے بعد آج میرے پشاور جانے کی وجہ کچھ اور تھی۔میری ماں کی ایک قیمتی چیز وہاں رہ گئی تھی۔ ماں جب بھی اس کا تذکرہ کرتی اس کی آنکھیں نم ہو جاتیں۔
تقسیم کو ایک زمانہ گزر چکا تھا ۔ سب کچھ بدل گیا تھا۔ امریک سنگھ نے دل ہی دل میں سوچا‘کیا وہ پشاور میں ماں کی کھوئی ہوئی قیمتی چیز تلاش کر سکے گا؟ وہ انہی سوچوں میں گم تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی اور کسی نے بتایا کہ پشاور جانے کے لیے ہیلی کاپٹر تیار ہے۔ اس کادل تیزی سے دھڑکنے لگا ۔وہ اس شہر جا رہا تھا جہاں اس کے ماں باپ کی جوانی گزری تھی جہاں کے گلی کوچوں میں ان کی یادیں بکھری ہوئی تھیں اور وہیں کہیں اس کی ماں کی کھوئی ہوئی ایک قیمتی چیز تھی جس کی تلاش اسے وہاں لے جا رہی تھی۔(جاری)