تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     08-09-2021

ہمارے سیاسی خانوادے‘ شہزادے اور شہزادیاں

پاکستانی جمہوریت وکھری ٹائپ کی ہے۔ اس جمہوریت پر چند خانوادوں کا قبضہ رہا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں پر پارٹی لیڈرز کا مکمل کنٹرول ہے‘ مثلاً برطانیہ میں الیکشن کے وقت مختلف امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ پارٹی لیڈر نہیں کرتا مگر ہمارے ہاں نواز شریف‘ آصف زرداری اور عمران خان کی منظوری کے بغیر پارٹی ٹکٹ نہیں ملتا‘ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے ہاں مقامی سطح پر سیاسی جماعتیں کمزور ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کی سیاست پر فیوڈل طبقہ مکمل طور پر حاوی تھا۔ سندھ میں کھوڑو‘ تالپور اور جتوئی ہر حکومت کا حصہ ہوتے تھے۔ پنجاب کی سیاست دولتانہ‘ ممدوٹ گرمانی اور نواب کالا باغ کے خانوادوں کے گرد گھومتی تھی۔ کے پی میں مردان کے ہوتی ہرکابینہ میں شامل ہوتے تھے۔ سیاست پر وراثت کا غلبہ تھا۔ لیکن فیوڈل سیاست دانوں میں سو برائیاں ہوں گی مگر کرپشن اس زمانے میں اتنی عام نہ تھی‘ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انگریز کا دیا ہوا چیک اینڈ بیلنس کا نظام مضبوط تھا۔ ڈپٹی کمشنر کسی بھی سیاستدان کی ناجائز ڈیمانڈ ماننے سے انکار کر سکتا تھا۔ ہمارے پاس کارنیلئس اور کیانی جیسے جج تھے۔
اور اب آتے ہیں موجودہ دور کی جانب‘ ہماری ایک نسل بھٹو زرداری اور شریف خاندان کے اقتدار کی باریاں دیکھتے دیکھتے جوان ہوئی ‘ ان دونوں خاندانوں کا خیال تھا کہ اقتدار ان کا غلام ہے۔ ان کی حکومت کا وقت ختم ہو گا تو لوگ ان کے بچوں کو ووٹ دیں گے۔ سیاست میں مال لگانے اور اسے دو گنا ریکور کرنے کے گُر انہوں نے خوب سیکھ لیے تھے۔ بھٹو صاحب نے کبھی یہ گُر استعمال کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی تھی۔ یہ کھیل 1990ء کی دہائی سے شروع ہوا اور پھر اوجِ ثریا تک پہنچ گیا۔
کے پی میں باچا خان کا خانوادہ ایک عرصے سے سیاست میں نمایاں رہا ہے۔ خان عبدالغفار خان آل انڈیا لیول کے لیڈر تھے۔ عبدالولی خان نیشنل عوامی پارٹی کو قومی دھارے میں لائے ‘ 1973 کے متفقہ آئین کو منظور کرانے میں ان کا اہم رول تھا‘ ان کی سیاست اصولی تھی لیکن جب اقتدار اگلی پشت میں منتقل ہوا تو پارٹی میں اصولی گروپ کے علاوہ وصولی گروپ بھی وجود میں آ گیا۔
پنجاب میں چودھری خاندان 1960ء کی دہائی سے سیاست میں سرگرم ہے۔ یہ رکھ رکھائو والے لوگ ہیں۔ ڈیرہ داری خوب کرتے ہیں حتی الوسع ہر سائل کی مدد بھی کرتے ہیں اور سائل کی مدد کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ضلعی لیول پر افسر اپنے کنٹرول میں ہوں۔ ضلعی کنٹرول قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر حکومت کا حصہ بنا جائے؛ چنانچہ یہ مسلم لیگ (ن) مارشل لا حکومت اور پی ٹی آئی سب کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ق) کو قاتل لیگ کہا تھا اور پھر یہی پارٹی پیپلز پارٹی کی حکومت کا حصہ بنی۔ چودھری پرویز الٰہی ڈپٹی پرائم منسٹر بنے‘ ان سیاسی خانوادوں میں شہزادے اور شہزادیاں موجود ہیں جو آئندہ اقتدار میں آنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ پیپلز پارٹی میں رضا ربانی‘ اعتزاز احسن‘ قمر زمان کائرہ اور چودھری منظور کی شکل میں کئی تجربہ کار سیاست دان موجود ہیں لیکن سب بلاول بھٹو کے حضور با ادب کھڑے ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے بزرجمہر مریم نواز اور حمزہ شہباز کے سامنے کورنش بجا لاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کا یہ احسان ضرور ہے کہ پاکستان میں موروثی سیاست کا زور ٹوٹا ہے۔ 2007ء میں بلاول بھٹو کو پیپلز پارٹی کا شریک چیئر مین بنایا گیا‘ لیکن کم عمری کی وجہ سے ان کا رول برائے نام رہا۔ اگلے سال پیپلز پارٹی فیڈرل لیول پر حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ زرداری صاحب صدرِ مملکت بنے۔ جو بات کبھی کسی نے سوچی بھی نہ تھی وہ پوری ہو گئی۔ پیپلز پارٹی نے بعض اچھے کام لیکن اٹھارہویں ترمیم بہت عجلت اور بہت رازداری سے کی گئی۔ کاش یہ کام سوچ سمجھ کر کیا جاتا اور قومی مفاد کوبروقت پیش نظر رکھا جاتا۔ اس کام میں نواز شریف نے پیپلز پارٹی کا مکمل ساتھ دیا کہ انہیں تیسری باری لینے کا بڑا شوق تھا۔ دوسرا کام جس کے لیے پیپلز پارٹی قوم کے سامنے جوابدہ ہے وہ واشنگٹن میں اپنے سفیر حسین حقانی کے ذریعے ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگوں کوویزوں کا اجرا تھا۔
معاف کیجیے بات موضوع سے کچھ ہٹ گئی۔ بلاول بھٹو مجھے پاکستانی سیاست کا ابھرتا ہوا ستارہ لگتا تھا لیکن اس کی شخصیت پر والد کی سیاست کا دبیز سایہ رہا۔ بلاول آکسفورڈ سے فارغ التحصیل ہے۔ چہرے پر تلخی کم اور مسکراہٹ زیادہ ہوتی ہے۔ میں نے اپنا اولین ووٹ 1970ء میں بھٹو صاحب کو دیا تھا لیکن اس وقت کی پیپلز پارٹی اور آج کی پیپلز پارٹی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آج سرے محل‘ سوئس اکائونٹس‘ منی لانڈرنگ اور جعلی بینک اکائونٹس پارٹی کے نام کے ساتھ چپک گئے ہیں بلکہ پارٹی کا ٹریڈ مارک بن گئے ہیں۔ ان باتوں کا ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں تصور بھی نا ممکن تھا۔
بلاول نے چند مرتبہ اپنے والد کی تقلید میں سندھ کارڈ کھیلنے کی بھی کوشش کی حالانکہ اسے علم ہو گا کہ شہید بی بی کے ہمدرد اسے قومی لیول کا لیڈر ہی دیکھنا چاہتے ہیں‘ وہ لیڈر جس کا دامن مذکورہ بالا آلائشوں سے پاک ہو‘ جو مضبوط فیڈریشن کی علامت ہو۔ زرداری صاحب کو چاہیے تھا کہ بلاول کا امیج مسٹر کلین والا بناتے۔ اسے سندھ میں کوئی اہم انتظامی ذمہ داری سونپتے تا کہ اسے تجربہ حاصل ہو جاتا اور وہ قومی لیول کا اچھا لیڈر بنتا۔ لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ اگر بلاول زرداری صاحب کا شہزادہ ہے تو مریم نواز بڑے میاں صاحب کی شہزادی ہے۔ ویسے بھی مریم کی شخصیت اپنے بھائیوں سے بہتر ہے لیکن مریم پڑھائی میں بلاول کے مقابلے میں خاصی ماٹھی رہی ہیں۔ کسی طرح زور زبردستی سے مریم کا کنیرڈ کالج لاہور میں داخلہ کرانے کی کوشش کی گئی۔ چونکہ میرٹ پر داخلہ نا ممکن تھا لہٰذا پرنسپل نے انکار کر دیا اس گستاخی پر اس کا تبادلہ کر دیا گیا۔ بڑے میاں صاحب تب اقتدار میں تھے اور اپنے آپ کو سیاہ و سفید کا مالک سمجھتے تھے۔ ایف ایس سی کے بعد مریم کا داخلہ آرمی میڈیکل کالج میں کرا دیا گیا اور تین ماہ بعد کنگ ایڈورڈ میں مائیگریشن کرا دی گئی۔ محترمہ پھر بھی ڈاکٹر نہ بن سکیں۔ اب ان کے پاس کون سی ڈگری ہے‘ مجھے نہیں معلوم لیکن انٹرنیٹ پر دی گئی معلومات سے لگتا ہے کہ تعلیم میں ماٹھی تھیں۔ چلیں بلاول تو ایم این اے ہیں‘ مریم کے پاس پارلیمنٹ کا بھی کوئی تجربہ نہیں۔ ''بیرونِ ملک تو کیا‘ میری تو پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں‘‘ والا جملہ لوگوں کے ذہن میں محفوظ ہے۔
آج کے امیدوار اور ووٹر خاصے ہوشیار ہو گئے ہیں۔ چند ماہ پہلے زرداری صاحب نے لاہور میں Electables سے ملاقاتیں کیں اور پارٹی میں شرکت کی دعوت دی جو کسی نے قبول نہیں کی۔ امیدواروں کو یقینا اندازہ تھا کہ ابھی پنجاب میں پیپلز پارٹی کے لئے موافق ہوا چلنے کا وقت نہیں آیا۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ بلاول کو پنجاب کے ہر ضلع میں بھیجیں۔ اس مشورے پر بھی خاصی تاخیر سے کام شروع ہوا ہے۔ سیاست اب خاصا محنت طلب کام ہے اور ہمارے شہزادے اور شہزادیاں ابھی اتنی لگاتار محنت کے عادی نہیں۔
ان دونوں جماعتوں سے زیادہ دور اندیش تو ق لیگ والے نکلے‘ ان کا سیاسی گدی نشین فیڈرل منسٹر بن گیا ہے‘ کسی اونچی سیاسی پوزیشن پر براجمان ہونے سے پہلے بہتر ہے کہ پارلیمنٹ یا صوبے کا تجربہ حاصل کیا جائے جس طرح انڈیا میں نریندر مودی نے گجرات کی ریاست میں کیا۔
سیاست اب جنازے پڑھنے اور شادیاں اٹینڈ کرنے سے آگے جا چکی ہے۔ اب تمام گدی نشینوں کو محنت کرنا ہو گی۔ مجھے مریم کی نسبت بلاول کے اوپر آنے کا چانس زیادہ لگتا ہے‘ اس کے آگے لمبی عمر پڑی ہے اور وہ سزا یافتہ بھی نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved